نومبر 2020 کے انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی گلگت بلتستان کی تیسری اسمبلی اپنے دور میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور عوامی حقوق کی استحصالی کیوجہ سے تاریخ کا ایک باب بن گئی۔ جب اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت ختم ہوئی، تو گلگت بلتستان میں بھی پارٹی کے اندر اختلافات کھل کر سامنےآ گئے۔جون 2023 میں، اس وقت کے وزیر صحت گلبر خان کی قیادت میں فارورڈ بلاک بنایا گیا اور انہوں دیگر ساتھیوں کے ساتھ پارٹی سے علیحدگی اختیار کر کے نئی حکومت بنا لی۔ اس حکومت میں پی ٹی آئی کے فارورڈ بلاک کے 9، پیپلز پارٹی کے 5، مسلم لیگ (ن) کے 3 اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کا ایک رکن شامل تھا۔ جبکہ اپوزیشن میں پی ٹی آئی کے 11 اور دیگر جماعتوں کے اراکین تھے۔ یوں لگا کہ عوامی حقوق کے استحصال کے لیے تمام پارٹیاں ایک پیج پر ہیں۔حکومت کی مدت پوری ہونے سے کچھ مہینے پہلے پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کو حالات کا ادراک ہوا اور انہوں نے فارورڈ بلاک کے تمام اراکین کو پارٹی سے نکال دیا۔ اس طرح گلگت بلتستان میں ہمیشہ کی طرح موقع پرستوں کی ایک نئی منڈی سج گئی۔گلبرخان کی قیادت میں بننے والی حکومت قانونی اور اخلاقی طور پر کمزور تھی، اس لیے اس سے عوامی فلاح و بہبود کے کاموں کی توقع نہیں تھی۔ اور ہوا بھی یہی، اس حکومت نے کوئی بڑا کام نہیں کیا۔ البتہ، انہوں نے گلگت بلتستان میں عوام مخالف پالیسیاں بنانے، علاقے کی بین الاقوامی قانونی حیثیت کو نظر انداز کرنے اور مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔یہ حکومت مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزیوں کے معاملے میں مودی سرکار سے بھی آگے نکل گئی۔ انہوں نے وسائل کی لوٹ مار کیلئے سہولت کاری کے فرائض انجام دیئے، انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائیں اور علاقے کے لوگوں کو بنیادی حقوق سے محروم کرنے پر بھرپور کردار ادا کیا ۔
عوامی ایکشن کمیٹی اور دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کے مطابق گلبر خان اینڈ کمپنی کی مخلوط حکومت نے قومی اثاثوں کو لیز پر دے کر نہ صرف گلگت بلتستان کی قانونی حیثیت کو نقصان پہنچایا، بلکہ علاقے کے قدرتی وسائل (جیسے معدنیات، جنگلات اور سیاحتی مقامات) سے بھی عوام کو محروم کر دیا۔یوں اس حوالے سے گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں مسلسل احتجاج ہوتے رہے۔ لوگوں نے زمینوں اور معدنیات پر قبضے کے خلاف مظاہرے کیے، لیکن حکومت نے عوام کی بات سننے کے بجائے انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت لوگوں کو گرفتار کیا۔ اپنے دور اقتدار میں اس مخلوط حکومت نے ٹیکسوں اور لینڈ ریفارمز کے خلاف پرامن احتجاج کرنے پرعوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں جیسے احسان علی پر انسداد دہشت گردی ایکٹ (ATA) کا استعمال کیا، جو احتجاج کرنے والوں کو دبانے کے لیے تھا۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی پوری قیادت کو پابند سلاسل کیا گیا، جو کہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی تھی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس میں بھی گلگت بلتستان کے لوگوں کو بنیادی آزادیوں سے محروم قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح اگست 2025 میں 63 افسران کو نوکریوں سے برطرف کیا گیا، جس پر پورے علاقے میں احتجاج ہوا۔ اس کے علاوہ، پولیس افسران نے روزانہ الاؤنس ڈبل کرنے کے وعدے کی خلاف ورزی پر احتجاج کیا، جس میں 35 پولیس اہلکاروں کو معطل کیا گیا اور تنخواہیں روک دی گئیں۔یہ احتجاج ایک ماہ سے زیادہ چلے، جو حکومت پر عدم اعتماد کو ظاہر کرتے ہیں۔ تاریخی اور قانونی طور پر گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کی وجہ سے اس خطے کو پاکستان کے قومی دھارے میں شامل نہیں کیا جا سکا ہے، لیکن صوبے کا نام دے کر تمام قسم کے ٹیکسز لگائے جا رہے ہیں۔خنجراب پاس سوست ڈرائی پورٹ پر تاجروں نے ٹیکس چھوٹ اور منصفانہ تجارت کے لیےاحتجاج کیا، جو مہینوں چلا۔ اس احتجاج کو شدت پسند قرار دے کر میڈیا پر خبریں چلائی گئیں تاکہ عام آدمی میں خوف و ہراس پھیل جائے، جس سے پوری دنیا میں گلگت بلتستان کی بدنامی ہوئی۔ اس کا سہرا بھی مخلوط حکومت کے سر جاتا ہے۔ انہوں نے گرین ٹورزم لمیٹڈ نامی ایک کمپنی، جو پاکستان میں سیاحت کو آگے بڑھانے کے لیے بنائی گئی ہے اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) کے
تحت کام کرتی ہے۔ 2024 میں یہ بات سامنے آئی کہ گلگت بلتستان میں اس کمپنی کو سرکاری اثاثوں کی تحویل یا لیز پر دیے جا رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کی حکومت نے متعدد سیاحتی مقامات، ریسٹ ہاؤسز اور جنگلات کی جگہوں کو 30 سال کی لیز پر دے دیا۔ عوام نے اس اقدام کے خلاف بھی بھرپور احتجاج کیا، لیکن حکومت نے کسی کی نہ سنی۔ گلگت بلتستان میں تقریباً 37 سے 44 سیاحتی جگہیں، ریسٹ ہاؤسز اور جنگلاتی مقامات شامل ہیں۔ان میں پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن پی ٹی سی سی کے موٹلز، فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کے گیسٹ ہاؤسز اور دیگر سرکاری پراپرٹیزبشمول غذر ضلع میں 20 ریسٹ ہاؤسز لیز پر دیے گئے۔ یہ معاہدہ اپریل 2024 میں گلگت بلتستان حکومت اور گرین ٹورزم لمیٹڈ کے درمیان ہوا۔ یوں عوام کا خدشہ ہے کہ ان سے سیاحت کا شعبہ بھی چھین لیا گیا۔ عوامی حلقوں نے اس معاہدے کو گلگت بلتستان کے عوام کا گلا دبانے کے مترادف قرار دیا اور کئی بار احتجاج کیا، لیکن حکومت کو ٹس سے مس نہ ہوئی۔ گلبر خان نے خود میڈیا پر بتایا کہ اس سے حکومت کو چند کروڑ ملیں گے۔ مقامی لوگوں اور سیاسی جماعتوں نے اس لیز پر اعتراضات اٹھائے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ یہ زمینوں پر قبضے کی ایک شکل ہے اور مقامی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ مئی اور جون 2024 میں گلگت بلتستان میں احتجاج ہوئے، اور یہ معاملہ آنے والے دنوں میں آزاد جموں کشمیر کی طرح بغاوت کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان میں معدنیات غیر ملکی کمپنیوں کو لیز پر دینے کے خلاف بھی سیاسی مذہبی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے بھرپور احتجاج کیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سال 2024 اور 2025 میں حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان میں معدنیات کی کان کنی کے بہت سے لیز غیر ملکی کمپنیوں کو دیے ہیں، جن میں سونا، یورینیم اور مولیبڈینم اور لیتھم کی کان کنی شامل ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ گلگت بلتستان کے معدنیات سے بھرپور علاقوں کا دو تہائی سے زیادہ حصہ بیرونی کمپنیوں کو لیز پر دیا گیا ہے۔ مقامی لوگوں اور سیاسی مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ معدنیات کا محکمہ سرمایہ کاروں سے ساز باز کر کے مقامیوں کو ان کے حقوق سے محروم کر رہا ہے، جو کہ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔ جی بی کی ریگولیٹری اتھارٹی (مائنز اینڈ منرلز ڈیپارٹمنٹ) کے مطابق، نایاب زمینی عناصر (ریئر ارتھ ایلیمنٹس) کے لیز کی اجازت ہے،
المیہ یہ بھی ہے کہ مخلوط حکومت نے گلگت بلتستان میں لینڈ ریفارم بل 2025 کو مئی کے مہینے میں اسمبلی کے 36 ویں اجلاس میں پیش کیا اور 21 مئی کو اپوزیشن کی شدید مخالفت اور پورے گلگت بلتستان میں احتجاج کے باوجود منظور کر لیا گیا۔ اس حوالے سے اپوزیشن اور تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا کہنا ہے کہ خطے میں پہلے ہی آزاد کشمیر کی طرز پر قانون باشندہ ریاست اسٹیٹ سبجیکٹ رول موجود ہے اور اس قانون کی بین الاقوامی حیثیت ہے جس کی خلاف ورزی کو روکنے کی ضرورت ہے، کیونکہ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ریاست جموں کشمیر کے کسی بھی حصے کی انتظامی حکومت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کوئی ایسا قانون پاس کرے جس سے استصواب رائے سے پہلے خطے کی جغرافیائی حیثیت تبدیل ہونے کا امکان ہو۔ یوں گلگت بلتستان میں گلبر خان اینڈ کمپنی، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی اور نون لیگ بھی شامل ہیں، نے وہ تمام کام کیے جن کے خلاف ہندوستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں مودی کی کارروائیوں پر دفتر خارجہ مسلسل احتجاج کرتا رہا ہے اور پاکستان نے اقوام متحدہ کے فورم پر بھی اس حوالے سے شدید خدشات کا اظہار کیا جو اس وقت گلگت بلتستان میں ہو رہا ہے۔ یقیناً ریاست پاکستان کو مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف کی روشنی میں گلگت بلتستان کی صورتحال پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اور اس بار عوام کا بھی کڑا امتحان ہے کہ وہ ان لوگوں کو دوبارہ انتخاب کرتے ہیں جن کے خلاف گزشتہ پانچ سال مسلسل احتجاج کرتے رہے ہیں یا گلگت بلتستان اسمبلی میں نئی قیادت کیلئے موقع فراہم کرنے کیلئے اپنے قیمتی ووٹ کا استعمال کرتے ہیں ۔
Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں