تقریباً دو ہفتوں پہ محیط سرحدی جھڑپوں کے بعد پاکستان اور افغان طالبان عارضی فائر بندی پہ متفق ہو گئے ، قطر اور ترکی کی ثالثی میں ہفتے کے روز دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے بعد دونوں نے تنازعات کو نمٹانے کے لئے اِسی ماہ کے آخر میں دوبارہ ملاقات کا عزم ظاہر کیا ، بظاہر یہ کشیدگی کانفلکٹ منیجمنٹ کا ایسا پیچیدہ جال دیکھائی دیتی ہے ، جو پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں کے گرد بُنا جا رہا ہے تاہم اِس دیرینہ مسلہ کی جڑیں افغانستان میں امارت ، بادشاہت ، کیمونزم اور جمہوریت کی ناکامیوں میں پیوست ہیں ۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے ، پاکستان کے لئے گہری جڑیں رکھنے والی دہشتگردی کے دلدل سے نکلنا غیر معمولی اقدامات کے بغیر ممکن نہیں ہو گا یعنی اس مسلہ کا حل افغانستان کی نسلی و لسانی بنیادوں پہ تقسیم کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا ، ایک حل جو ابتداء میں امریکن نے تجویز کیا تھا وہ پاک افغان بارڈر کے قبائلی علاقوں کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان بفر سٹیٹ کے طور پہ استوار کرنے پہ محمول تھا ، جیسے پاکستان کی تخلیق کے بعد ہندوستان ہمیشہ کے لئے افغانوں کی یلغار سے محفوط ہو گیا لیکن اس میں خطرہ یہ تھا کہ آزاد قبائلی پٹی پر ٹی ٹی پی جیسی انتہا پسند تنظیموں کا قبضہ خطہ کو نئے تنازعات میں الجھا سکتا تھا ، دوسرا پاکستان نے تاحال طالبان کو افغانستان کی قانونی اتھارٹی کے طور پر تسلیم نہیں کیا ، پاکستانی حکومت نے گزشتہ ہفتوں کے بحران کے عروج پر کہا تھا ” امید ہے، ایک دن افغانستان کے لوگ آزاد ہو کر اپنی حقیقی نمائندہ حکومت کے تحت زندگی گزاریں گے ”۔ یعنی پاکستان پڑوسی ملک چین ، روس اور ایران کی مشاورت سے طالبان مخالف ” قومی مزاحمتی محاذ” سے وابستہ گروپوں کو کابل میں برسر اقتدار لانے کی خاطر رجیم چینج کے ذریعے پڑوس میں جمہوری ملک دیکھنے کی امید لگائے بیٹھا ہے لیکن یہ منصوبہ بھی لاینحل تنازعات کو جنم دے گا ، حکمرانی کے بحران کی وجہ سے یہاں کی ہر حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے پاکستان سے الجھے بغیر جی نہیں سکتی، چاہئے وہ ماضی کے بادشاہ و صدور ہوں، سوویت یونین ہو، افغان قوم پرست ہوں، طالبان ہوں، حتی کہ دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کو بھی یہاں حکمرانی کی ناکامیاں چھپانے کی خاطر پاکستان پہ الزام دھرنا پڑا ۔ اگر ہم غور سے دیکھیں تو امریکہ نے افغانستان کو طالبان کے حوالے اس لئے کیا کہ یہ بہت جلد متحدہ افغانستان کے تصور کو کھو دیں گے اور طالبان کی حکمرانی میں افغانستان تین حصوں میں بٹ جائے گا ۔ بلاشبہ جہاں معاشرے کو ریگولیٹ کرنے والی فعال ریاست موجود نہ ہو اور جہاں عوام کے بنیادی حقوق ، سماجی و سیاسی آزادیاں اور معاشی وسائل مسلح گروہوں کے ذریعے سلب کر لئے جائیں تو ایسی مملکت زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتی ۔
امر واقعہ یہ ہے کہ افغان نظمِ اجتماعی کے لئے ایثار کرتے ہیں نہ مجموعی دانش کو بروے کار لانے کے قائل ہیں ، وہ تہذیب کی وسعتوں کو پانے کی بجائے صدیوں سے ایسی قبائلیت کے اسیر ہیں جو ہمہ وقت انہیں تشدد اور تعصب کے تنگ دائروں میں سمٹنے پہ مجبور رکھتی ہے ، میتھو آرنلڈ نے کہا تھا ”کلچر تعصب و تشدد سے آزادی حاصل کرنے کا نام ہے” وہ اپنے ملک میں تعصب سے آزادی حاصل کرنے کی بجائے سکون پرور زندگی کی تلاش میں ہمیشہ وطن سے دور رہنا پسند کرتے ہیں ،گویا وطن ان کے رہنے کی جگہ نہیں ، محض سرمایا افتخار ہوتا ہے ، اسی رجحان کی بدولت صدیوں پہ مشتمل نقل مکانیوں نے لاکھوں پشتونوں کو شمال مغربی ہندوستان میں آباد ہونے پہ مجبور کیا لیکن اس میں بھی مسلہ یہ ہے کہ میزبان معاشروں میں جذب ہونے کی بجائے یہ لوگ وہاں ایک پوشیدہ خطرے کے طور پہ کام کرتے ہوئے پناہ دینے والے ملک کو نقصان پہنچانے میں شرم محسوس نہیں کرتے، جیسے 45 سالوں کے قیام کے دوران افغان پناہ گزین بلآخر ہماری قومی سلامتی کیلئے خطرہ بنکر ابھرے ، اسی طرح سیاسی پناہ کی آڑ میں آبادکاری ویزوں کے ذریعے مغرب کی طرف افغان پناہ گیروں کے بہاو میں القاعدہ اور داعش کے دہشتگردوں کی بڑی تعداد نے یوروپ میں داخل ہو کر فسادات ، مذہبی منافرت اور جنگی رویوں کو جنم دیکر ایشیائی مسلمانوں کے خلاف مقامی لوگوں کو مشتعل کر دیا ، اسی کارن یوروپی معاشروں میں مسلمان ترکین وطن کے انخلاء کی تحریکیں بھڑک اٹھی ہیں ۔ امر واقعہ بھی یہی ہے کہ افغان کبھی معاشرتی شعور حاصل کرکے لچکدار قوم نہیں بن پائے بلکہ یہ ازل سے خود کو قبائیلی تعصب میں منجمد رکھنے کے خُوگر واقع ہوئے ، یہی وجہ ہے کہ پچھلے ڈھائی سو سالوں میں افغانستان اپنی ریاستی اتھارٹی کو متشکل کرنے والی قومی فوج کی تشکیل میں ناکام رہا ، ان کے جمود پرور معاشرے قانون کی اطلاعت کو کسر شان سمجھتے ہیں مگر طاقت کے سامنے سرنگوں ہونا قبول کر لیتے ہیں ، اسی رجحان نے افغانستان کی فوج میں چین آف کمانڈ کی اطلاعت مفقود رکھی ۔ مشہور کہاوت ہے کہ” افغانستان کی فوج میں سارے جرنیل ہوتے ہیں” احمد زئی، محمد زئی کی کمانڈ نہیں مانتا ، محمد زئی ، غِلزئی کی بالادستی تسلیم نہیں کرتا ۔ افغان اپنے ملک کی تعمیر و ترقی کی پرواہ بھی نہیں کرتے بلکہ وطن چھوڑ کر دیگر ممالک میں روزی کمانا اور وہیں رہنا اِن کا مرغوب عمل ہے ۔ افغان اپنے اردگرد مذہبی اقلیتوں اور نسلی و لسانی گروہوں کو برداشت نہیں کرتے، اس لئے وہاں قبائلیت کے جمود سے نجات دلانے والا ارتقا پذیر تمدن اور ایسا متنوع معاشرے پروان نہیں چڑھ سکا جو زندگی کی بوقلمونی کو نوع انسانی کی رفتار کے ساتھ ہمقدم رکھنے میں مددگار بنتا ۔ شاید اسی لئے ہر عہد میں یہاں ہر قسم کی افغان ریاستیں زوال پذیر رہی، روایتی دانش ہمیں یہی بتاتی ہے کہ مستقبل میں بھی افغانستان ریاستی ہیت مقتدرہ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے گا کیونکہ یہاں کا قبائلی تمدن، شہنشاہیت، کیمنوم اور مغربی جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتا ، ماضی میں جس طرح یہ ملک ناقابل حکمرانی رہا ، ویسے ہی مستقبل میں بھی ہمیشہ یہ ملک ناقابل حکمرانی رہے گا ، چنانچہ یہاں کے مکینوں کی انسانی استعداد کو بڑھانے کی خاطر ضروری ہے کہ افغانستان کو منقسم کرکے پڑوسی مملکتوں میں ضم کیا جائے، بصورت دیگر جنوبی ایشیا پرسکون نہیں رہ پائے گا ۔
2001 میں امریکی حملے کے بعد مسلط کردہ انتہائی مرکزی سیاسی اداروں کے باوجود ریاست کا اچانک خاتمہ اسی تصور کی تصدیق کرتا ہے ۔ جدید جمہوری تمدن کے تحت بیس سال گزارنے کے بعد بھی افغان لوگ ایسی وحشیانہ رجیم کے خلاف لڑنے کو تیار نہیں ، جس نے سرِعام خواتین پہ کوڑے برسائے ،انسانی حقوق اور بنیادی آزادیاں چھین کر ان کے ساتھ عزت کا سلوک نہیں کیا ۔ یہاں اِس وہم باطل کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ ” افغانستان بڑی طاقتوں کا قبرستان رہا ” اِسی فکری مغالطہ نے مشایدہ کی صلاحیت سے عاری افغانوں کو ہر بے مقصد جنگ کا ایندھن بننے پہ آمادہ رکھا ، جس سرزمین کو آج افغانستان کہتے ہیں، اس پر بیرونی فاتحیں کے تسلط اور اندرونی طور پر متحارب دھڑوں کے جھگڑوں کی طویل تاریخ موجود ہے۔ یوروپ اور ایشیا کے درمیان گیٹ وے ہونے کی وجہ سے اِسی سرزمین کو بابلیونیہ کے دارا اول نے تقریبا 500 قبل مسیح اور 329 قبل مسیح میں مقدونیہ کے سکندر اعظم نے فتح کیا ، ازاں بعد یہ خطہ چندر گپت موریہ سلطنت کا جز رہا ،بدھ مت کے پیروکار اشوکا نے اسے سنوار ، پھر لاہور کے رام پال نے لغمان تک کے علاقے اپنی راج داھانی کا حصہ بنائے۔ گیارہویں صدی کے ترک فاتح محمود غزنوی، جس نے ایران سے ہندوستان تک وسیع سلطنت قائم کی ، کو افغانستان کو مسخر کرنے والوں میں سب سے اعلی مقام حاصل ہے۔ چنگیز خان نے 13ویں صدی میں اس پر قبضہ کیا ، اس سب کے باوجود 1700 کی آخری دہائی تک یہ علاقہ ملک کے طور پر متشکل نہ ہو سکا تاہم مسلمان فاتحیں کی آمد کے باعث 1770 تک یہاں اسلام نے جڑ پکڑ لی تھی ۔ اس خطہ کو1773 میں پہلی بار انگریزوں نے افغانستان کا نام دیکر احمد شاہ ابدالی سے منسوب کیا ۔19 ویں صدی کے آخر تک ایسٹ انڈیا کمپنی نے اسے تین بار فتح کرنے کے علاوہ 1893 میں ڈیونڈ لائن معاہدہ کرنے کے بعد تھوڑے سے وظیفہ کے عوض امیر عبدالرحمن کو روس کی ملکہ کیتھرائن دی گریٹ کی گرم پانیوں تک رسائی کی کوشش سے منسوب ”گریٹ گیم” کا مہرہ بنا لیا ۔ روس میں 1917 کے کیمونسٹ انقلاب کے بعد انگریزوں کے مفادات بدلے تو برطانیہ نے اپنی ہندوستانی سلطنت کو سوشلسٹ نظریات کی یلغار سے بچانے کے لئے افغانستان کو شورشوں کا گڑھ بنانے کی خاطر یہاں کے نشو ونما پاتے ریاستی تمدن کو پراگندہ کر دیا ۔ چنانچہ1921 میں پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ نے بظاہر افغانستان کو آزاد ملک بنانے پہ کام شروع کیا ،اسی دوران نازی جرمنوں کی طرف جھکاو رکھنے والے امیر امان اللہ خان نے سماجی و اقتصادی اصلاحات کی کوششوں کے دوران 1926 میں پہلی بار افغانستان کو امارت کے بجائے بادشاہت میں بدل کر خود کو بادشاہ بنا لیا ۔ وہ جدید کاری کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لئے لویہ جرگہ کی طاقت کو بھی محدود کرنے کی کوشش کرتا رہا تاہم اسی دوران 1929برطانوی انٹیلنجنس اداروں نے ایک طرف بچہ سقہ اور دوسری جانب مُلا شور بازار(صبغت اللہ مجددی کا والد) کے ذریعے مہمات چلا کر امان اللہ کی حکومت گرا کے اپنی فورسز دریائے آمو تک پہنچا دیں ، امان اللہ خان بادشاہت سے دستبردار ہو کر ملک چھوڑ گیا ، طویل داخلی لڑائیوں کے بعد بلآخر1933 میں انگریزوں کی مدد سے ظاہر شاہ کو بادشاہ بنایا گیا ، 1934 میں امریکہ نے افغانستان کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ۔ مغربی طاقتوں کی معاونت سے اگلے 40 سال تک کابل میں چچا شاہی مسلط رہی ۔1947 میں برطانیہ نے ہندوستان سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے بھارت کے سوشل ازم کےلئے زرخیز معاشروں کو بچانے کے لئے افغانستان کے بعد پاکستان کی صورت میں ایک ایسی مذہبی ریاست تشکیل دی جو سوویت یونین کے نظریاتی و سیاسی عزائم کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئی۔
Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں