باتوں کی چُپ میں سسکتی کہانیاں/عامر شہزاد

( مداری کے ساتھ بیتے دنوں کی سرگزشت )

ہدایہ زندگی کی عورت ہے اسے صرف افسانہ نگار کہنا غلط تو نہیں لیکن نامکمل ضرور ہو گا
” مداری ” کے ساتھ میں نے ایک لمبا وقت گزارا ہے
کچھ کردار ایسے تھے کہ ان کے اثر سے نکلنے میں مجھے کافی وقت لگا
کچھ کہانیاں میرے حواس پر طاری رہیں
میں نے مداری کو صرف پڑھا نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ جیون بتایا ہے
مداری کا میرے دل سے قریب ہونا اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ میری سکھی کی کتاب ہے اور دوسری وجہ اس کا تخلیقی بہاو ہے
جو اب بھی میرے من میں بہتا ہے
دونوں وجوہات میں سے کون سی وجہ ذیادہ اہمیت رکھتی ہے
اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں ہے
لیکن کیسی دلفریب بات یہ ہے کہ دونوں کے تانے بانے ہدایہ کی ذات سے جڑے ہوئے ہیں۔
ملتان کی یہ داستان گو مٹی سے کردار تراشتی ہے اور پھر انہیں مٹی میں دفن کر دیتی ہے
کچھ کرداروں کی آشفتہ سری اس انتہا پہ کھڑی ہے کہ جیسے وہ خود تخلیققار کی دسترس میں نہ رہے ہوں اور کچھ ایسے مردہ کردار تھے جن میں اس فسوں ساز نے زندگی پھونک دی
مداری کے افسانوں کا بیانیہ اتنا منہ زور ہے کہ شعور سے یہ خیال محو ہو جاتا ہے کہ قاری زندگی جی رہا ہے یا زندگی پڑھ رہا ہے
ہدایہ کا قلم اپنا راستہ خود تراشتہ ہے اگرچہ یہ کھٹن ہے اور بہت بار اس کا ڈگمگانا بھی محسوس ہوتا ہے
لیکن وہ گرنے سے پہلے اٹھ کھڑا ہوتا ہے
یہی وجہ ہے کہ یہ جاننا مشکل ہے کہ ہدایہ کس منہج کے زیر اثر یا کس اسلوب کے تابع لکھ رہی ہے
اور اس کی تخلیقی پرورش کس بڑے شجر تلے ہوئی ہے
اس کا لکھا کسی مخصوص طرز یا اسلوب کے تابع نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی ادبی مکتب فکر کی نمائندگی کر رہی ہوتی ہے۔
یہ ادبی حلقوں سے الگ تھلگ لیکن سماج سے جڑی ہوے ادیب کی بے تحاشہ تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار بھی ہے
اور ایک زاویہ نظر بھی، تنہا کھڑے آدمی کا زاویہ نظر
جس کے آنکھوں میں کہے جانے اور ان کہے رہ جانے کا دکھ تیر رہا ہے۔
بہت بار وہ فنی قیود کو بھی پھلانگتی نظر آتی ہے
لیکن مجال ہے کہ لفظوں میں جھول آئے یا قلم کی رفتار میں سبکی اترے
مداری ایک طرح کی کتاب نہیں ہے، یہ اور طرح کی کتاب ہے
اس میں لکھے افسانے دھنک کا آٹھواں، نواں اور دسواں رنگ ہیں
اور کچھ رنگ ایسے ہیں کہ جو نہ کسی آنکھ نے دیکھے اور نہ کسی دھنک پہ اترے
لیکن یہ افسانہ نگار اسے تراش لائی اور ان اوراق میں سمو دیا
ہر دوسرا افسانہ نئی طرز کا ہے اور اس کا اسلوب پہلے سے انوکھا ہو جاتا ہے
اس سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ
یہ ایک وقت میں بند کمرے میں لکھی کہانیاں نہیں ہیں
جیسے ہی نئے افسانے کے لئے ورق پلٹا جاتا ہے تو وہ تاثر ٹوٹ جاتا ہے جو پچھلے افسانے سے پیدا ہوا تھا
اور ہدایہ اپنی قاری کو نئے جہان میں لے جا کھڑا کرتی ہے
منٹو اپنی کاٹ سے پہچانا جاتا ہے اور کرشن چندر لفظوں کی بانسری سے
پڑھنے میں اردو کی وہ بنت آئے جو کبھی دہلی کے کوچہ و بازاروں میں سننے کو ملتی تھی تو ڈپٹی نزیر احمد کا خیال غیر شعوری طور پر ذہن میں اتر آئے گا
لیکن ہدایہ اپنے ہر دوسرے افسانے میں ایسی کروٹ بدلتی ہے کہ کوئی رنگ جمنے ہی نہیں دیتی اور اپنے رنگوں میں رنگ بھی دیتی ہے
یہ صرف اس مہا لیکھک کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ یہ ” کملی ڈوڈی” کے بعد ” عکس معکوس ” لکھنے کا نہ صرف حوصلہ رکھتی ہے بلکہ اسے سمیٹنے کے فن سے بھی آشنا ہے
ایسی کتاب کس قدر حیرتوں کا جہان ہو گی جس کے پہلے ورق پہ فرید کے اشلوک پڑھتی لڑکی، کتاب کے آخر میں مارگزیدہ کا روپ دھار لیتی ہے
مداری کے افسانوں میں نظریاتی الجھن نہیں ہے اور نہ ہی فکری تذبذب ہے
اس کے کردار زندگی کی پیچیدگیوں میں الجھے ہوئے ہیں
کہانیاں کسی خاص فکر کی نمائندگی نہیں کرتیں یہاں تک کہ وحدت خیال سے محرومی کا احساس ہونے لگتا ہے۔
لیکن کئی بار افسانہ نگار نظریہ بنتی بھی دکھائی دیتی ہے لیکن وہ کہانی کے بہاؤ میں بہہ جاتا ہے
ہدایہ نے پرانی بوتلوں میں نئی شراب ڈالنے کی بجائے پرانے تالوں کو نئے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی ہے
میں اس کوشش کو تو نہیں سراہوں گا لیکن یہ مانے سوا چارا نہیں کہ وہ رنگ رسیا تھی اور اس نے اپنا رنگ خوب چڑھایا
مداری کو پڑھتے ہوئے مایوسی کا یہ احساس بھی بہت بار کنڈلی مار کر دل میں بیٹھ جاتا ہے کہ یہ افسانے امکان کا کوئی نیا جہان نہیں کھولتے
لیکن یہ خوشی بھی رہتی ہے کہ اس کے کردار زمان اور مکان سے ہم آہنگ ہیں
اور اپنے وقت کے زمینی حقائق اور سیاسی منظرنامے پر چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں
اجتماعی لاشعور کی تہہ میں اتر کر ، لاشعور کی دانش کو ادھیڑ نے کا جو فن ہدایہ کے پاس ہے یہ صرف اسی کا طرہ امتیاز ہے۔

کچھ افسانوں سے متعلق یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ جیسے یہ جلدی میں لکھ دیئے گئے
اور کچھ ایسے بھی سامنے آتے ہیں جو جیسے صدیوں سے تخلیق کے آوے میں پکتے رہے ہوں گے
ہدایہ کے قلم میں تخلیقی بہاو بے تحاشہ ہے وہ جب اس بہاو میں بہتی ہے تو تخلیق انوکھے روپ میں نکھر کر سامنے آتی ہے
لیکن جب وہ بے جا فنی پیچیدگیوں میں کہانی کو سلجھانے کی کوشش کرتی ہے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے کہانی دم توڑنے لگی ہو۔
اردو افسانے کی وہ ہیئت جو ابتدائ سفر میں تشکیل پزیر ہوئی جس میں داستان کا آہنگ بھی تھا اور فنی پچیدگی بھی
لیکن اب بہت سی پلوں تلے سے پانی گزر چکا اور اردو افسانہ ایک لمبا سفر طے کر چکا ہے
آج کی کہانی پہلے جتنی پچیدہ نہیں رہی
عہد رواں کے افسانہ سے ہدایہ کی ناآشنائی کا اثر بہرحال مداری پر ہوا ہے
اور یہ گھسیٹ کر کہانی کو فن کی پیچیدگیوں میں الجھانے کی کوشش سقم بن کر ٹھہر گئی ہے
نہ جانے کیوں وہ بہت بار کہانی کے بہاؤ میں بند باندھنے کے لئے جملوں کو ہیلپنگ وربز کی بیساکھیوں پہ کھڑا کرنے کی کوشش کرتی ہے
اور لنگڑا پن کو چھپا بھی نہیں پاتی
” ایک پاؤ گوشت ” کے جملوں کو جس بری طرح سے ہیلپنگ وربز کی بیساکھیوں پہ کھڑا کیا گیا ہے
اس سے ایک اچھا افسانہ ہوتا ہوتا رہ گیا
یہی وجہ ہے کہ یہ افسانہ جو بہت سوں سے خود کو منوا چکا ہے
میری نظروں میں کوئی جگہ نہیں بنا سکا۔
ہدایہ ذہنی الجھنوں اور رویوں کی توضیح سے کہانی بنتی ہے
مگر زندگی، انسان اور رویے اتنے جامع ہیں کہ نفسیاتی تجزیہ کبھی بھی ان کا مکمل احاطہ نہیں کر پاتا
ہدایہ کم پڑھنے اور زیادہ سوچنے والی لیکھک ہے ، کسی بھی تخلیققار کا “ قاری “ نہ ہونا
اس کی ذات میں شامل ایسی چیز ہوتی ہے جسے نہیں ہونا چاہیے
لیکھک کا کتاب اور سماج سے جڑا ہونا انتہائی ضروری ہے
اتنا ضروری کہ اس کے سوا کچھ بھی مکمل نہیں ہے۔

ادب کے طالب جانتے ہیں کہ ادب کا ایک بڑا حصہ وہ ہے جو کہ مخصوص قارئین کے لئے لکھا گیا ہے
جیسے کافکا، مارکیز ، کامیو، سارتر اور بورخیس، چند اور بھی نام ہوں گے
ہدایہ ایسی ہی افسانہ نگار ہے جو ہر ایک کے لئے نہیں ہیں
لیکن یہ اس روایت سے مختلف جگہ پر کھڑی ہے جہاں وہ چند ادیب کھڑے تھے جن کا میں ذکر کر چکا ہوں
چند افسانے جو اس کے نمائندہ ہیں
وہ اتنے تہہ دار ہیں کہ ایک سے زائد بار پڑھنے کے باوجود بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے مجھ پر تمام پرتیں کھول دیں
مداری پر کتنے بھی تبصرے لکھے گئے انہوں نے ہدایہ کو سپیرچولسٹ وومن یا نفسیات دان محسوس کیا
یقینا اس کی کہانیوں میں یہ پرت موجود ہے
لیکن یہ صرف ایک تہہ ہے، اس کی کہانیوں میں بہت سی گتھیاں اتنی الجھی ہوئی ہیں کہ نہ وہ منکشف ہوتی ہیں اور نہ ہی کوئی رائے قائم کرنے دیتی ہیں
مداری میں یہ افسانہ نگار کملی ڈوڈی سے ذیادہ عکس اور معکوس کے مرکزی کے کردار کے طور پر موجود رہی
لیکن پڑھنے والوں نے اسے ہمیشہ کملی ڈوڈی کے روپ میں ہی دیکھا
کملی ڈوڈی مجھ پر بھی بہت اثر انداز ہوئی لیکن وہ پہلے افسانوں کی سطروں میں ہو کر رہ گئی اور ہدایہ اپنی کہانیوں کے بہاؤ میں شجر ممنوعہ کے پانیوں تک جا پہنچی
کسی بھی فسانہ نگار کا سب سے بڑا وصف اگر کوئی میرے نزدیک ہو سکتا ہے تو وہ ایک تاثر کو قائم نہ ہونے دینا ہے
اور ہدایہ کے ہاں یہ موجود ہے اس کا ہر دوسرا افسانہ پہلے تاثر کو ملیا میٹ کر دیتا ہے
مداری کے افسانوں میں تزکیریت کا اظہار موجود ہے جو بار بار ٹوٹ کر پھر قائم ہو جاتا ہے
ہدایہ کی علامت نگاری بہت پچیدہ ہے جو احساس پر طاری تو ہوتی ہے لیکن تفہیم میں نہیں آتی
“ ناگ “ اس کے ہاں جنس کی بڑی علامت کے طور پر ابھرتا ہے
مداری کے جنسی تصورات میں عورت اپنی بقارت کے ساتھ موجود ہے
جو لمس کی تپش پہ پگھل بھی جاتی ہے اور اقدار کے پردوں میں لپٹ بھی جاتی ہے
جو شدت لمس کے لئے تڑپتی بھی ہے اور گناہ کے احساس سے بھاگتی بھی ہے
افسانہ نگار نے عورت کو بطور مفعول پیش کیا ہے جو کہ جنسیت کا ناقص بیان ہے
یوں ایک ایسی عورت مداری کے کینوس پر نکھرتی ہے جو جنس کی خواب ناک بصارت سے نآشنا ہے
مداری میں جنسیت باکرہ حساسیت اور جھجھک سمیت موجود ہے
میں اسے جنس کا ادھورا اور کنوارگی کا مکمل بیان کہوں گا۔

ان افسانوں میں تانثیت صرف اسی روپ میں ہے جو عورت کو سماجی تناظر کی بجائے جنس کے پدرشاہانہ مفعولی تناظر میں پیش کرتی ہے
اور ہر بار مرد کو بطور مقتدر تسلیم کرتی ہے
اور کبھی بھی انسانی بنیادوں پر اس کے برابر نہیں کھڑی ہوتی۔
مداری تانیثی ادب کی نمائندہ کتاب نہیں ہے
یہ پدر شاہی کے قلمرو کو نفسیاتی الجھنوں میں پیش تو ضرور کرتی ہے لیکن اسے تسلیم بھی کرتی ہے۔

مداری میں مکالماتی فضا فکری گہرائی سے بھرپور ہے
فلسفیانہ مکالمے تخلیققار کی گہری بصارت اور فکری بلوغت کا منہ بولتا ثبوت ہیں
اس میں بڑی بات یہ ہے کہ مکالمہ کرنے والے دو کردار روبرو ہونے کی بجائے سکرین کے پردوں سے ہمکلام ہیں
اور یہی اس دور کا سچ ہے، ہدایہ نے جس طرز سے انہیں پیش کیا ہے
اس کی یہ کوشش صرف قابل قدر ہی نہیں قابل تنقید بھی ہے۔

julia rana solicitors london

ہدایہ کا بطور افسانہ نگار مطالعہ ایک کھٹن سفر ہے، یہ بہت سی پیچیدگیوں میں الجھا دیتا ہے اور بہت سی کھائیوں میں گرا بھی دیتا ہے
اسے پڑھتے ہوئے سب سے پہلے حیرانی طاری ہوتے ہے کیونکہ اس کا زور قلم بہت بار کسی ان اندیکھے جذبے کو سامنے لا کھڑا کرتا ہے
اگلے ہی لمحے وہ حیرانی مسکراہٹ میں بدل جائے گی
وہ کہانی کو جغرافیائی حقیقتوں پہ ناپے گی اور زمینی حقیقتوں سے بالاتر کر دے گی
جاندار مکالموں کے زور پر وہ دماغ کو تفکر کی راہوں میں ڈال دے گی
اور جذباتی شدت کا بیان اسے پھر احساس کی دنیا میں واپس لے آئے گا
مداری کی لکھتیں اپنے قاری میں قطرہ قطرہ جذب ہوتی ہیں اور لہر بن کر طاری ہوتی ہیں
کچھ وقت بعد احساس ہوتا ہے کہ پڑھنے والا بھول بھلیوں میں پھنس گیا ہے
اور دیکھی بھالی دنیا ان دیکھی دنیا جیسی ہو جاتی ہے
لیکن ہدایہ کبھی ان دیکھے جہاں میں نہیں اترتی
وہ نابینائی کو بینائی دینے کی بجائے بینائی کے ہی ان کہے روپ کھولتی ہے
مداری کا مطالعہ ایک انوکھا تجربہ ہے جو روحانی وارداتوں سے بھی آشنا کرتا ہے
ہیجان زدہ بھی کرتا ہے اور تفکر کی گھاٹیوں میں ادھیڑ بھی دیتا ہے
مداری احساس کی شکست و ریخت کا بیان بھی ہے اور تعمیر کا اظہار بھی
یہ چنگھاڑتا ہوا سمندر ہے جو اپنے قاری کو کسی بھی معلوم ٹاپو یا جزیرے پر اتار دے گا۔
ہدایہ روایتی انداز کی انوکھی افسانہ نگار ہے
جس کے افسانوں میں داستان جیسی حیرت ، اسلوب میں نظم جیسی روانی
مٹی سے گوندھی ہوئے پلاٹ اور احساس کی تپش پہ لرزتے ہوئے کردار ہیں۔
مداری اپنی طرز کی عجیب اور اپنی ذات میں بڑی کتاب ہے
میں اس کے پبلشر، پروف ریڈر اور کمپوزر پر اگر احسان کروں تو وہ اتنا ہو گا میں ان سے متعلق کوئی بھی لفظ نہ کہوں۔
ہدایہ سے متعلق کچھ بھی کہنے کی جسارت شاید کبھی کر سکوں
اس تخلیققار کو سمندر نہیں کہہ سکتا کیونکہ سمندر کی بھی تہہ ہوتی ہے
اور ہدایہ کی وسعتیں لامحدود ہیں اور اس کی شخصیت کے پہلو بے انتہا۔
میں مداری کے پاس پاس رہتا ہوں کیونکہ مجھے کملی ڈوڈی کی معیت پسند ہے
اور خانم کا الجھاؤ بھی۔
مداری پر کہنے کے لئے میرے پاس بہت کچھ ہے
لیکن بتانے کے لئے کچھ بھی نہیں
کاش کہ میں وہ سفر ہی کہہ پاتا جو میں نے مداری کے ساتھ طے کیا ہے۔

Facebook Comments

عامر شہزاد
افسانہ نگار، سیاح، کالم نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply