پنجابی سپراسٹار پر ایک رائے/ذوالفقار علی زلفی

سلطان راہی کے اسٹارڈم پر  اپنے ناپختہ خیالات کو شیئر کرنے کی اجازت چاہوں گا ـ واضح رہے سلطان راہی پنجابی سینما کے سپراسٹار تھے جب کہ میں کراچی کا ایسا بلوچ ہوں جس کی پنجابی اس کے چند کلاس فیلو دوستوں کی مرہونِ منت ہے ـ سو میرے خیالات ناقص اور گہرائی سے محروم ہوسکتے ہیں ـ
سپراسٹار پر میرے خیالات کا ماخذ بھارت کے مارکسی دانش ور کامریڈ مادھو پرساد کے نظریات ہیں ـ مادھو پرساد کے مطابق سپراسٹار ایک نظریاتی برانڈ ہوتا ہے جو عوامی خواپشات اور امنگوں کا چولا پہن کر ریاست کے نظام کو اخلاقی جواز دیتا ہے ـ ان کے مطابق سپراسٹار کا کام عوام اور ریاست کے درمیان ایک ایسی مفاہمت کروانا ہے جس سے عوام کو لگے کہ ان کے جذبات کا اخراج ہورہا ہے مگر درحقیقت وہ ریاست کے نظریاتی آرڈر کو بحال کر رہا ہوتا ہے ـ جیسے شاہ رخ خان سرمایہ داریت اور ہندو توادی کو رومانس کے پردے میں چھپا کر بھارتی ریاست کے نظریاتی آرڈر کو اخلاقی جواز دیتا ہے ـ یہ کام اسٹار بھی کرتا ہے ـ جیسے اکشے کمار (وطن کا سپاہی) یا اجے دیوگن (ریاستی قانون کا محافظ) مگر اسٹار کا حلقہِ اثر محدود ہوتا ہے ـ سپراسٹار سیاسی و سماجی ثقافت پر غلبہ پاکر سماج کے تقریباً تمام طبقات پر اثر انداز ہوتا ہے ـ وہ فلمی معیشت میں ایک برانڈ کی حیثیت حاصل کرکے فلم بینوں کو سینما تک آنے کے لئے مجبور کرتا ہے ـ فلم اس کے نام سے چلتی ہے، فلم بین فلم سے زیادہ سپراسٹار کو دیکھنے کے لئے سینما جاتے ہیں ـ سپراسٹار کی یہ طاقت ریاست پر قابض گروہوں کے پروپیگنڈے کو پھیلانے میں خاصی مددگار ہوتی ہے ـ
اب آتے ہیں پنجابی سینما کی طرف ـ پنجابی سینما کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ـ
اول: 50 سے 70 کی دہائی ـ دوم: 70 سے 90 اور سوم: 90 سے تاحال ـ
پہلے دور کا پنجابی سینما اردو اشرافیہ کے نظریاتی سائے میں پروان چڑھا جہاں اردو واحد قومی زبان، شمالی بھارت کے اردو اشرافیہ کی تہذیب ہی تمدن کی علامت اور اسلام قومی شناخت کی بنیاد ـ
اس دور کے پہلے بڑے اسٹار یقیناً سدھیر تھے ـ ان کا شہری لہجہ، اردو اشرافیہ کی جانب سے متعارف کردہ “مہذب رومانس” اور اسلامی ریاست کے جانباز سپاہی والے کرداروں نے انہیں اردو گزیدہ شہری مڈل کلاس پنجابی فلم بینوں کا محبوب ہیرو بنا دیا ـ
دوسرے اہم ہیرو اکمل تھے ـ سدھیر کے برخلاف اکمل کا لہجہ دیہی، انداز لوک پنجابی داستانوں کے مرکزی کرداروں جیسا اور انداز باغیانہ ـ اکمل میں تقریباً وہ تمام اوصاف تھے جو انہیں سپراسٹار بنا سکتے تھے مگر ایک تو اکمل جلد فوت ہوگئے ، دوئم 70 کی دہائی تک پاکستان کا مرکزی سینما اردو تھا، پنجابی سینما اردو کے حاشیے پر ہونے کی وجہ سے محدود اثر رکھتا تھا ـ نتیجہ یہ نکلا کہ اکمل سپراسٹار بننے کے اوصاف رکھنے کے باوجود معروضی حالات کی وجہ سے فلمی معیشت اور ثقافت کے برانڈ نہ بن سکے ـ
70 کی دہائی سے پنجابی سینما نے رفتہ رفتہ اردو کے سائے سے نکل کر اپنی جگہ مستحکم کرنا شروع کردیا ـ اس دور میں دیہات سے کسان شہروں کی طرف آئے اور وہ شہری پرولتاریہ میں ڈھلنے لگے ـ بھٹو کی پاپولر سیاست نے شہری پرولتاریہ اور دیہی کسان کو سیاسی لحاظ سے متحرک کردیا ـ بعد میں (80 کی دہائی) جب ضیاالحق کی اسلامائزیشن کی پالیسیوں اور وی سی آر کی آمد نے اردو سینما کا جنازہ نکالا تو پنجابی سینما نے آگے بڑھ کر اس خلا کو پُر کردیا جس سے اس سینما کی اثر پزیری میں مزید اضافہ ہوا ـ سلطان راہی اسی دور میں مقبولیت کے مراحل طے کر رہے تھے ـ
ریاست کی پیٹرو ڈالر جہاد پالیسی ، بھٹو جیسے عوامی رہنما کی پھانسی اور جاگیرداریت نے پنجاب کے عوام میں غصہ بھر دیا تھا ـ ایسے میں سلطان راہی نے بظاہر سینما کے پردے پر عوام کی نمائندگی شروع کردی ـ یہاں “بظاہر” کا استعمال دانستہ ہے جس کی وضاحت آگے کرنے کی کوشش کروں گا ـ
سلطان راہی کے کردار دیہی پنجابی بولتے تھے ـ یہ وہ پنجابی تھی جسے اردو گزیدہ شہری پیٹی بورژوازی غیرمہذب گردانتا تھا ـ یہ کردار چیخ چیخ کر سخت لہجے میں بات کرتا تھا جسے ان فلم بینوں نے بے حد پزیرائی بخشی جو سمجھتے تھے ان کی بات نہیں سنی جاتی ـ عورت جو دیہی ثقافت میں عزت اور غیرت کی علامت سمجھی جاتی ہے سلطان راہی سینما اسکرین پر اس کا محافظ بن گیا ـ ظالم اور جابر جاگیردار جو ریاست کا اہم اتحادی تھا سلطان راہی اس کو چیلنج کرنے لگا ـ انصاف سے محروم عام پنجابی نے سلطان راہی کو طاقت وروں کے بنائے قانون سے باہر رہ کر انصاف فراہم کرتے دیکھا ـ ان عوامل نے انہیں ایک برانڈ بنا دیا ـ انہیں پراثر پنجابی سینما کے ذریعے سیاسی اور سماجی ثقافت پر غلبہ حاصل ہوگیا ـ
اب آتے ہیں بظاہر کی وضاحت پر ـ سلطان راہی کے کردار اجتماعیت نہیں انفرادیت کو آگے بڑھاتے تھے ـ ان کی فلموں میں جاگیردار ایک ایسی سماجی اور معاشی قوت نہیں ہے جس کے پیچھے ریاست کی پوری مشینری ہو بلکہ وہ ایک انفرادی کردار ہوتا ہے جس سے سلطان راہی ذاتی انتقام لیتے ہیں ـ وہ قانون کے دائرے سے باہر رہ کر انصاف کرتے تھے مگر اس انصاف کے لئے ان کے پاس کوئی سیاسی نظریہ نظر نہیں آتا بلکہ وہ ریاستی نظریہ اسلام کو ہی رہنما بناتے ہیں ـ گویا وہ ضیا الحق کی طرح جہاد ہی کر رہے تھے فرق محض اتنا ہے کہ ان کا مجاہدانہ کردار مقامی دیہی ثقافت کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا ـ
سلطان راہی ریاست کے نظریہ اسلام اور جاگیردارانہ نظام کو چیلنج کرنے کے بجائے عوامی خواہشات اور امنگوں کا چھولا اوڑھ کر ، عام آدمی کا روپ دھارن کرکے ریاست کے نظام کو ہی بحال کرتے تھے ـ وہ قرآن، رسول اور کعبہ جیسی علامات کو استعمال کرکے عوامی شعور کو محدود رکھنے کا سبب بنتے رہے تاں کہ کسی ممکنہ عوامی بغاوت کا راستہ روکا جاسکے ـ ان کی فلموں میں جاگیردارانہ اقدار و روایات کے تحت عورت کو عزت و غیرت کی علامت بنا کر پیش کیا جاتا تھا جس کی حفاظت پنجابی مرد کی ذمہ داری ہے ـ
پنجاب کے حکمران طبقے میں ایک اہم طبقہ انگریز نوآبادکار کا تربیت یافتہ فوجی اشرافیہ ہے ـ سلطان راہی کی فلموں میں اس اشرافیہ کا کوئی منفی سراغ نہیں ملتا ـ نہ ہی سلطان راہی حاشیہ نشین اقوام (بلوچ، سندھی، سرائیکی) کے حوالے سے کسی مزاحمتی فکر و نظریے کو آگے بڑھاتے نظر آتے ہیں ـ
اس تناظر میں سلطان راہی عوامی احتجاج نہیں بلکہ ریاست اور عوام کے درمیان مصالحت کار کا کردار نبھاتے نظر آتے ہیں ـ وہ طبقاتی شعور نہیں دیتے بلکہ طبقاتی تضاد کو اسلامی نظریات میں تحلیل کردیتے ہیں ـ اس میں کوئی شک نہیں وہ پنجابی سینما کے پہلے اور تاحال آخری سپراسٹار ہیں ـ ان کی عوامی مقبولیت اساطیری درجہ رکھتی ہے ـ وہ سینما کو بھرنے کی ناقابلِ شکست طاقت رکھتے تھے مگر انہیں عوام کا نمائندہ قرار دینا نظریاتی لحاظ سے درست نہیں ہوگا ـ
بہرکیف؛ یہ ایک بلوچ کا نکتہِ نظر ہے جو پنجاب کی ثقافت اور سیاست کو صرف کتابوں سے سمجھتا ہے ـ بہتر رائے کوئی سنجیدہ اور باشعور پنجابی فلم بین ہی دے سکتا ہے ـ میری رائے کو قطعی نہ سمجھا جائے کیوں کہ میں ایک کنفیوز “انسان” ہوں جس کی کوئی حتمی رائے نہیں ـ

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply