اگلے دن صبح ناشتہ یونیورسٹی کیفے ٹیریا میں کیا۔ناشتہ بوفے تھا اور ناشتے کی لوازمات بنانے والوں نے سفید ٹوپیاں پہن رکھی تھیں، سو ہم نے جانا کہ یہ سب مسلمان ہیں۔ لان زو کی عالمی شہرت یافتہ لان زو بیف نیوڈلز بنارہے تھے۔ کاریگررسی برابر نیوڈلز کا آٹا اٹھاتا تھا، دونوں ہاتھوں سے کھینچتا تھا، سینے کے سامنے گز بھر لمبائی کھینچنے کے بعد دونوں ہاتھ جوڑتا تھا اور اس دوران دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آٹے میں ڈال کی نئی رسیاں نکال لیتا تھا ، اسی کارِمسلسل میں کچھ دیر بعد باریک رگیں سامنے ہوتی تھیں، جنہیں پانی میں ابال لیا جاتا۔
مسافر نے سفرِ حیات پر نگاہ ڈالی کہیں بُنت اورجوڑ نقش ابھار لاتے ہیں اور کہیں حسن لکیروں کی باریکی میں آشکار ہوتا ہے۔ انداز فرق ہوسکتا ہے مگرحقیقت میں آشکار دستکار ہی ہے۔
کیفے ٹیریا بنانے وقت قدرتی ماحول کا خیال کیا گیا تھا، لکڑی کی چھت میں روشنی کے لیے چوکور خانے بنے تھے جہاں نصب شفاف شیشوں سے روشنی کیفے ٹیریا میں آتی تھی۔ ایک جانب پانی کا چشمہ اپنا رنگ جمائے تھا، پانی بلندی سے اترتا لکڑی کے رہٹ سے ہوتا سبز پودوں سے گذرتا جاتا تھا ۔

کیفے ٹیریا میں جابجا درخت لگے تھے جو مصنوعی ہونے کے باوجود قدرتی ہونے کا تاثر دیتے تھے، کچھ ایسے درختوں پر پھل بھی لگے تھے۔ غالب نے کہا تھا کہ دیتے ہیں دھوکایہ بازی گر کھلا، مگر کیفے ٹیریا کا ماحول ایسا تھا کہ خود دھوکا کھانے کا دل چاہتا تھا۔

لان زو کا علاقہ زرعی ہے، دریائے زردعلاقے کے درمیان سے گذرتا ہے اور زمین کو سنہرا کرجاتا ہے۔ شہر میں پھل جابجا بکتا ہے، بلکہ جب لان زو سے بیجنگ کی فلائیٹ لی تو دیکھا اکثر مسافر خوبصورت پیکنگ میں آڑو لے کر جارہے تھے۔ اس کے علاوہ مختلف قہوہ جات کی پیکنگ بھی ہمراہ تھی بلکہ کانفرنس کے منتظمین نے ہمیں علاقے کی سوغات کو مدنظر رکھتے قہوہ جات ساتھ کے لیے دیے۔
یونیورسٹی کیفے ٹیریا میں ناشتے پر ایک بوڑھے چینی جوڑے سے گپ شپ ہوئی۔ دونوں روانی سے انگریزی بولتے تھے کہ کینیڈا کی کسی یونیورسٹی کے ریٹائرڈ پروفیسرز تھے۔ کہنے لگے چالیس سال قبل اسی یونیورسٹی سے بیچلرز کی ڈگری حاصل کی تھی، اور پھر مزید تعلیم اور معلمی کینیڈا میں کی ہے ۔ اب ریٹائر ہونے کے بعد سیر کو نکلے ہیں تو اس سیر کا آغاز اپنی مادر علمی سے کر رہے ہیں۔ پرانی یادیں ساتھ ہیں اور نئی یادیں بنا رہے ہیں اور محو حیرت ہیں کہ دنیا کیا سے کیا ہو چکی ہے۔ مسافر کو اجنبی اور ناواقف پاتے تھے سو بتانے لگے کہ کیا قابلَ دید مقامات ہیں۔ ایسے میں کہنے لگے کہ تو مسلمان ہے تو یہاں سے دو تین گھنٹے کی مسافت پر لینشیا نام کا شہر ہے، وہاں مسلمانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ لوگ اُس شہر کو چین کا مکہ کہتےہیں۔ مسافر نے یہ بات سنی تو لینشیا یاترا کا ارادہ لاٹھی کے سرے پر باندھ کر کاندھے پر رکھ لیا۔
کانفرنس یونیورسٹی کے دوسرے سرے پر ایک بڑےہال میں تھی۔مسافر ڈھونڈتا، وہاں جا پہنچا گو راہ میں مدد مانگنا پڑی۔ راہ میں کسی ڈیپارٹمنٹ کی عمارت کے سامنے ایک مجسمہ براجمان تھا، ساتھ میں میز پر قہوے کی کیتلی اور پیالہ بھی دھرا تھا۔ مجسمے کی گود میں نقلی پھولوں کا گلدستہ بھی تھا۔ میز کے ساتھ ایک خالی کرسی رکھی تھی۔ مجسمہ سوچ میں تھا ، مسافر نے جانا کہ افسردہ ہے کہ گلدستہ پکڑے ، قہوہ رکھے بھی کوئی بات کرنے کو نہیں آتا۔ گمان ہے کہ پرانےچینی دور کا شخص نئے دور کی نسل کی نفسانفسی پر سوچ میں گم تھا۔ مغربی طرز حیات چین کی نئی نسل پر اپنا گہرا رنگ ثبت کر چکی ہے۔ مسافر چند لمحوں کے لیے ساتھ کی کرسی پر بیٹھا، مجسمے کے ماہ وسال کا پیمانہ یقیناً فرق تھا۔ ایک مسکراہٹ سوچتے چہرے پر مسافر دیکھ پایا۔
کانفرنس کاباضابطہ آغاز ہفتے کے دن ہوا۔ اب یہ بھی باقی دنیا سے الگ تھا کہ عموماً کانفرنسیں چھٹی کے دن نہیں ہوتیں بلکہ ہفتے کے درمیان ہوتی ہیں مگر چین میں یہ کانفرنس ہفتہ واری چھٹی کے دن تھی۔ آغاز پارٹی کے ایک عہدیدار کی تقریر سے تھا۔ ایک بڑا ہال تھا جس میں چوڑائی رخ میزیں لگائی گئی تھیں۔ سب بندہ ومحتاج و غنی کے لیے ایک سی نشستیں اور میزیں تھی۔ میزیں اور کرسیاں جن پر سفید کپڑا چڑھایا گیا تھا، ایک پانی کی بوتل ہر نشست کے سامنے دھری تھی۔ مملکتِ خدادا د میں جو آگے خوبصورت صوفے لگائے جاتے ہیں، وہ وہاں نہ تھے۔ وہ صوفے جن کو لگانے اور اٹھانے کے لیے بوسیدہ کپڑے پہنے لاغر تن اپنی کمریں دوہری کر رہے ہوتے ہیں وہاں نظر نہ آئے۔
پہلی کلیدی تقریر ہانگ کانگ یونیورسٹی کے پروفیسر مو لی کی تھی۔ وہ انسٹیوٹیٹ آف الیکٹریکل انجینئرنگ کے فیلو ہیں، یہ رتبہ انہیں وائرلیس کمیونیکیشن کے شعبے میں نمایاں تحقیق پر ملا۔ پروفیسر لی نے اپنی تحقیق کے مختلف شعبوں پر بات کی، اس میں سینسرز، نیٹ ورکس، ڈیٹا اور اس سے حاصل کی جانے والی سمجھ اورنتیجتاً کیے جانے والے افعال پر روشنی ڈالی۔ کم توانائی اور وسیع علاقہ نیٹ ورکس ( لو پاور وائیڈ ایریا نیٹ ورکسز) پر بات کرتے انہوں نے بتا یا کہ صرف ہانگ کانگ یونیورسٹی میں ان سے متعلقہ ایک سو بتیس گیٹ وے ہیں جن سے پینتیس سو سے زائد اکائیاں منسلک ہوتی ہیں ۔ ہر اکائی بہت سے سینسرز سے آگے جڑی ہوتی ہے، جن میں توانائی، عمارتی ، پانی ، ٹریفک اور ہوائی سینسرز شامل ہیں۔ ان سے حاصل کردہ معلومات (ڈیٹا ) کی بنیاد پر بہت سےبروقت فیصلے اور اقدام کیے جاتےہیں۔
پروفیسر لی نے اپنے ا یک بہت دلچسپ تحقیقی کام کے متعلق حاضرین کو بتایا۔ یہ چینی کمپنی علی بابا کے زیر انتظام خوراک ترسیل (فوڈ ڈلیوری) کی کمپنی ایلی می( جس کا ترجمہ”کیا آپ بھوک محسوس کررہے ہیں؟” ) کے خوراک پہنچانے والے سواروں کے سینسرز کے ذریعے حقیقی مقام، گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی رفتار، سڑکوں پر بھیڑ ، موسم اور دوسرے عوامل کو دیکھتے ہوئے بہترین راہ کا فوری تعین تھا۔ یہ بہت بڑا کام ہے کہ یہ کمپنی ایک دن میں نوے لاکھ آرڈر پہنچاتی ہے اور اس کے سوار ہر لمحے اپنے سفر کے ساتھ بہت زیادہ معلومات (ڈیٹا) دے رہے ہوتے ہیں۔ اس معلومات کو حقیقی وقت میں حاصل کرنا اور پھر اس کا تیز رفتار تجزیہ کرکے سواروں کو بروقت راہ بتلانا یقینی طور پر حیرت انگیز کام ہے۔
چین کے سفر میں ٹیکنالوجی کی ترقی دیکھنے کا جو موقع ملا ، اس کے بارے میں علامہ اقبال کی مدد لیتے مسافر یہ ہی کہہ سکتا ہے کہ محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوچکی ہے۔ لان زو شہر میں سڑکوں پر بغیر ڈرائیور کے چلتی گاڑیاں، ہوٹل کے کمرے میں اشیاء پہنچاتے روبوٹ ، کافی کی مختلف قسمیں بناتے روبوٹ ، ڈرائیور کے بغیر ٹرینیں اس حیرت کی کچھ وجہ ہیں۔ کافی کے کپ کی ایک تصویر پیش خدمت ہے جس میں کافی بنانے کے بعد روبوٹ نے اُس کی سطح پر دودھ اور کافی کے ملاپ سے بلی کی شکل بنائی ہے۔ بلی دودھ پی جاتی سنا تھا، اب ہم پریشان ہیں کہ ایسی کافی کا کیا کریں جس پر اتنی من موہنی بلی کا عکس ہے۔ منیر نیازی نے کہا تھا،
اپنی ہی تیغ ادا سے آپ گھائل ہو گیا
چاند نے پانی میں دیکھا اور پاگل ہو گیا
ادھر بھی ایسا ہی معاملہ تھا، مسافر روبوٹ دیکھتاتھا، کافی کا کپ دیکھتاتھا جس میں ایک عکس تھا، ایک جمال تھا، انسانی جنون اور پہنچ کا ایک استعارہ تھا اور مسافر اگلی منزلیں سوچ سے آگے پاتا تھا۔

دوسری کلیدی تقریرمیں اوساکا یونیورسٹی جاپان کے پروفیسر می کاوا نے جانوروں پر لگائے گئے آلات (سینسرز) اور اس کے نتیجے میں حاصل کردہ معلومات کے نتیجے میں جانوروں کے رویوں پر بات کی۔ انہوں نے اپنے کام سے متعلقہ کچھ بہت دلچسپ ویڈیوز دکھائیں۔ ایک ویڈیو ایک سمندری شکاری پرندے کی تھی جس پر ویڈیو کیمرہ اور جگہ کا تعین کرنے والا سینسر ( جی پی ایس) لگایا گیا تھا۔ ویڈیو میں دیکھا گیا کہ پرندہ مچھلی کے شکار کے لیے گہراغوطہ لگانے سے قبل پانچ سے چھ مرتبہ چھوٹے غوطے لگاتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ مشق کررہا ہو ۔ اس کے بعد ایک لمبا غوطہ لگاتا ہے مگر اس میں بھی مچھلی پر حملہ آور نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی شاید لہوگرم کرنے کا ایک بہانہ ہے۔ اس کے بعدآخرکار پرندہ ایک لمبا غوطہ لگاتا ہے جس میں وہ مچھلی کو اپنی چونچ میں شکارکر لاتا ہے۔ اسی پرندے کے سفر کی بھی آلات سے نگرانی کی گئی ۔ پرندے نے کچھ ماہ میں چار سو کلومیٹر کا سمندر پر سفر کیا اور واپس اپنے نقطہ آغاز پر پہنچا۔ سائنسدان تحقیق میں مصروف ہیں کہ پتہ لگائیں کہ پرندہ کیسے اپنے مقام اور راہ کا تعین اتنی درستگی سے کر پاتا ہے۔ پرندوں کے علاوہ پروفیسر می کاوا نے ریچھوں پر لگے آلات سے حاصل کردہ معلومات پر بھی گفتگو کی۔ موسمیاتی تبدیلی اور انسانی آبادیوں کی بڑھوتی سے جانوروں اور پرندوں پر پڑنے والےاثرات بھی موضوعِ گفتگو تھے۔ پتہ لگا کہ حیوانات کے رویوں پر بھی حیوان ناطق اثرانداز ہے۔
جاری ہے
Facebook Comments


بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں