تاریخ ہمیشہ ایک سوال چھوڑ جاتی ہے: کیا دین طاقت کے سائے میں پنپتا ہے یا صداقت کے نور میں؟ اور جب بھی یہ سوال اٹھتا ہے تو دنیا کے ہر دور میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جو حق کی تعبیر کو اقتدار کی مصلحت کے مطابق بدل دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ “وقت کی ضرورت یہی ہے”، مگر دراصل یہ وقت نہیں، ضمیر ہوتا ہے جو جھک جاتا ہے۔
اسی تلخ حقیقت کو محترم ہمدرد حسینی نے چند الفاظ میں سمو دیا:
“مفتی عبد الرحیم وہ ساقی ہے جو جامعہ الرشید نامی مے خانے میں عسکری شراب مذہبی پیمانے میں فروخت کرتا ہے۔”
یہ جملہ محض طنز نہیں تھا بلکہ ایک عہد کی فکری تصویر تھی۔ اس پر ہمارے محترم دوست عالم فاضل محمد عدنان نے کہا:
“یہ بات کچھ مناسب نہیں۔ عسکری ادارے وقت کی ضرورت کے پیشِ نظر مفتی عبد الرحیم صاحب سے عوام کی ذہن سازی کا کام لے رہے ہیں۔ اس کا مفاد تو عوام و خواص دونوں کا مشترک ہے۔ ان کا فتنۂ خوارج پر موقف درست ہے، تو ایسے ماحول میں ان کو قبول کرنے میں کیا حرج ہے؟”
فتنہ خوارج سے متعلق ہمارا بھی وہی موقف ہے جو ریاست کا ہے لیکن دراصل بات آج کے دینی منظر نامے کی ہے جہاں مصلحت کو بصیرت سمجھ لیا گیا ہے اور ریاستی مفاد کو دینی فریضہ بنا دیا گیا ہے۔
“وقت کی ضرورت” یہ جملہ بہت معصوم لگتا ہے مگر یہی جملہ دین کی روح کے گلے پر چھری بن جاتا ہے۔ اسلام کا پیغام ابدی ہے، وہ کبھی “وقت” کا پابند نہیں بلکہ “حق” کا پابند ہے۔ مگر جب مذہب کے نمائندے اپنے فکری وزن کو اقتدار کے پلڑے میں رکھ دیتے ہیں تو ان کے الفاظ وحی نہیں رہتے بلکہ ریاستی ہدایت نامہ بن جاتے ہیں۔
ایسی مصلحت بظاہر دانش کی بات لگتی ہے مگر درحقیقت یہ اصولی کمزوری، فکری غلامی اور ایمانی زوال کی علامت ہے۔ اگر کوئی مذہبی یا فکری شخصیت ریاستی یا عسکری اداروں کے مفاد کے تحت عوام کی ذہن سازی کرے تو یہ دین نہیں بلکہ میں اسے ریاستی بیانیہ سازی، فجری انحراف، طاقت کے مفاد کی تبلیغ، شعور کی مسخ کاری، فکر و نظر کی آلودگی، تعبیر دین کی سودے بازی یا پھر فکری جبر کہوں گا۔
مفتی عبدالرحیم ہوں یا کوئی اور، اگر ان کے فکری و دینی مؤقف کی بنیاد قرآن و سنت پر نہیں بلک ہ اداروں کی ترجیحات پر ہے تو وہ عالمِ دین نہیں بلکہ مفاد پرست مبلغ ہیں۔ وہ منبر پر نہیں، دربار کے دروازے پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان کا وعظ عبادت نہیں بلکہ اجازت نامہ ہوتا ہے۔
یہ کہنا کہ “فتنۂ خوارج پر ان کا موقف درست ہے” دراصل ایک فکری چال ہے۔ ایک صحیح بات کہنا باقی تمام خاموشیوں اور سمجھوتوں کو درست نہیں کر دیتا۔ اگر دین کو ٹکڑوں میں بانٹ کر پیش کیا جائے کہ کچھ حصہ حق کے نام پر اور باقی طاقت کے حکم پر تو یہ دین نہیں، دربار کا مسلک ہے۔
اسلام نے کبھی طاقت کے سائے میں نشوونما نہیں پائی۔ نبیوں نے کبھی بادشاہوں کی مرضی کے مطابق وعظ نہیں کیے۔ انہوں نے قصرِ اقتدار کے فرش پر نہیں، کوڑھ کے مریضوں کے درمیان، مظلوموں کے خیموں میں اور دھول اڑاتے میدانوں میں حق کا علم بلند کیا۔ ان کی زبان آزاد تھی نا کہ کسی جرنیل کی پابند، نہ کسی دفتر کی محتاج۔ آج جب دین کے نام پر بیانیہ گھڑا جاتا ہے تو یہ دین نہیں، حکومتی منصوبہ ہوتا ہے۔ اور جو عالم اقتدار کے دربار میں بیٹھ کر “اصلاحِ امت” کے نام پر اقتداری مصلحت کی تبلیغ کرے وہ دراصل حق کا نہیں، حاکمِ وقت کا نمائندہ ہے۔ ایسے علما کو قبول کرنا ضمیر کی شکست اور ایمان کی سودے بازی کے مترادف ہے۔ ان کے وعظ میں روح نہیں صرف ریہرسل شدہ بیانات کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ وہ جب بولتے ہیں تو لفظ قرآن کے لگتے ہیں مگر مفہوم پالیسی نوٹ کا ہوتا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ان کے پاس علم کتنا ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ کس کے حکم پر بولتے ہیں؟ کیا وہ اس خدا کے ترجمان ہیں جو آسمانوں کا رب ہے؟ یا اس کے جو زمین پر ۔۔۔ہاں آپ درست سمجھے ۔
عبد الرحیم صاحب جو کہتے ہیں وہ آسمانی وحی نہیں بلکہ وہ زمینی حکم کی بازگشت ہے۔ ان کی تقریریں ایمان کو مضبوط نہیں کرتیں بلکہ شعور کو مدہوش کرتی ہیں۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں مصلحت، ایمان کے جگر پر خنجر بن جاتی ہے۔ آج کے دور میں فتنہ خوارج کے ساتھ ساتھ وہ طبقہ بھی عظیم فتنہ ہے جو اقتدار کے لیے دین کی آیات کو تاویل کے ترازو پر تولتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے “جہاد” کو نعرہ بنا کر “اطاعت” کو دین کا جزوِ لازم قرار دے دیا ہے اور پرائی جنگ میں اسلام اور مذہب کے نام والدین کو بے سہارا کیا۔ جن کے نزدیک اختلاف بغاوت ہے اور سوال گستاخی۔ جن کے ہاں دین کا مقصد خدا سے تعلق نہیں بلکہ ریاست سے وفاداری بن گیا ہے۔

اسلام میں مصلحت ہے مگر مصلحت ایمان کے تابع ہے؛ اور جب مصلحت ایمان پر حاوی ہو جائے تو باقی سب کچھ رہتا ہے بس اسلام نہیں رہتا۔
یہ تحریر کسی فرد پر تنقید نہیں بلکہ ایک سوچ پر اعتراض ہے۔ وہ سوچ جو دین کو اقتدار کے رنگ میں رنگنا چاہتی ہے۔ جب منبر سے ضمیر کی آواز نہیں بلکہ طاقت کا فرمان گونجے تو سمجھ لیجیے کہ ایمان کا چراغ بجھ چکا ہے اور روشنی کے نام پر صرف فریبِ مصلحت باقی ہے۔
ہمیں ایسے دین کی ضرورت نہیں جو “ریاست کی ضرورت” سے جنم لے۔ ہمیں اس دین کی تلاش ہے جو “وحی کی صداقت” سے ابھرے۔ کیونکہ جب خدا کے نام پر حاکم بولنے لگے تو خدا خاموش ہو جاتا ہے اور یہی خاموشی سب سے بڑا ظلم ہے۔
Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں