چلتے ہو تو چین کو چلیے(4)-عاطف ملک

کھانا کھانے کے بعد کچھ مزید چہل قدمی کی کہ اندورن شہروں میں چہل قدمی شہروں کا چھپا رنگ آشکار کردیتی ہے۔ راہ میں مسلمان نان بائیوں کی دکانیں، مختلف قہوہ فروش، جنرل سٹور، پھل بیچتے خوانچہ فروش، غرض شہر اپنی پرتیں کھول رہا تھا۔ ایک طرف  ایک گاڑی کے پچھلے کھلے حصے میں تربوز اور دوسرے پھل دھرے تھے  اور اس کے سامنے زمین پر بیٹھی پھل فروش عورت سبز گول گول پھل کو خمدار چاقو سے چیر رہی تھی۔ پہلی دفعہ دیکھا کہ اخروٹ کیسے اپنی سبز کھال سے نکالے جاتے ہیں۔

پھل فروش

اب واپس ہوٹل جانے کا مرحلہ تھا۔

ٹیکسی منگوانے کی ایپ کام نہ کرتی تھی۔ ہوٹل کا پتہ انگریزی اور چینی میں تھا، مگر اب ہر ٹیکسی والا چینی نقشے کی ایپ استعمال کرتا اور ان سے بات کرنا بہت مشکل تھا۔ ٹیکسی اور رائیڈ شیئر دونوں چلتی ہیں، مگر مسافر رائیڈ شیئر کو نہ بلا سکتا تھا کہ اس کی ایپ کام نہ کر رہی تھی۔ ٹیکسی کو ہاتھ دیتے تھے، پہلے تو ٹیکسی میں نظر ڈالتے تھے کہ کوئی مسافر بیٹھا ہے یا خالی ہے۔ کچھ دیر میں اندازہ ہوا کہ ٹیکسی پر ایک لائیٹ لگی ہے، جو خالی ہونے پر سبز ہوتی ہے ورنہ سرخ ہوتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے دور میں ہاتھ میں موبائل ہو تو ٹیکسی دوڑی چلی آتی ہے، خالی ہاتھ کی اشارہ بازی پر بات نہیں بنتی۔ ایک کرم فرما کے  مطابق آج کے دور میں عشق بھی ایسا ہی ہو گیا ہے۔

ایک چینی لڑکی سے مدد چاہی، مگر اس سے بھی ٹیکسی نہ منگوائی گئی۔ قسمت سے ایک خالی ٹیکسی آگئی اور آنے سے بڑھ کر ہمارے ہاتھ دینے پر رک بھی گئی۔ اب ڈرائیور کو ہم  کاغذ پر لکھا ہوٹل کا پتہ  دکھاتے تھے مگر اُسے سمجھ نہ آتی تھی۔ اشاروں  کی زبان میں ہر بات سمجھانا واقعی مشکل ہے۔ مسافر کو ایک خیال آیا اور اُس نے موبائل پر یونیورسٹی کے صدر دروازے پر کھنچی اپنی تصویر ڈرائیور کو دکھائی جس  میں یونیورسٹی کا نام نظر آرہا تھا۔  ڈرائیور نے اپنی خوشی سے ظاہر کیا کہ منزل سمجھ گیا ہے۔ مسافر نے زندگی میں یہی دیکھا ہے کہ منزل کی سمجھ آجائے تو سفر طے ہوجاتا ہے، ورنہ تمام عمر آدمی   دائروں کے سفر میں پھرتا رہتا ہے، کبھی ایک جانب کو بھاگا، کبھی دوسری جانب کا رخ کیا اور آخر میں تھک کر گرگیا۔ رزقِ خاک ہونے سے قبل منزل کا تعین بہت ضروری ہے۔

یونیورسٹی کے صدر دروازے سے تھوڑا  آگے ہوٹل تھا، سو ہمارے اشاروں پر ڈرائیور وہاں لے گیا۔ اب نئی مشکل درپیش تھی، چین میں موبائل کے ذریعے ادائیگیاں ہوتی ہیں  اور مسافر کے موبائل  میں کچھ رقم نہ تھی کہ اس کے لیے کسی چینی بینک کا  کارڈ چاہئیے تھا۔ ڈرائیور کو  کرایہ کرنسی نوٹ کی شکل میں پیش کیا تو اُس کے پاس بقیہ دینے کے لیے کھلا نہ تھا۔  قریب کی دکان میں داخل ہوا کہ پیسے کھلے کروائے جائیں۔ اب وہاں بھی زبان آڑے تھی۔ ایسے میں ایک چینی لڑکی دکان میں داخل ہوئی ، اس کو انگریزی میں اپنا  مدعا پیش کیا اور اس کے توسط سے ہمارے پیسے ٹوٹے۔ چین میں لوگوں کو مدد کے لیے بہت تیار پایا، جس  کو روکا وہ رک گیا۔ زبان جانے یا نہ جانے کوشش یہی کرتا کہ  مدد کسی طرح کر پائے۔  مہمان داری بھی بہادری کی طرح ہوتی ہے، کچھ اور نہیں صرف حوصلہ مانگتی ہے۔

انٹرنیٹ پر دیکھا تھا کہ لان زو میں دریائے زرد پر لوہے کا پل دیکھنےکی چیز ہے اور وہاں بہت لوگ آتے ہیں، سو شام کے کھانےکے بعد وہاں جانےکا پروگرام بنایا۔ شیان کی نورتھ ویسٹرن پولی ٹیکنیک یونیورسٹی سے ایک پاکستانی طالبہ بھی کانفرنس میں شرکت کے لیے آئی تھی ، اس نے کہا کہ وہ بھی ساتھ جائے گی۔ یونیورسٹی  کے کیفےٹیریا میں کھانا  کھایا۔  کیفے ٹیریا  میں بوفے  کھانا دیا جاتا ہے۔ ایک جانب دیوار پر حلال کا بورڈ لگا تھا کہ اس کیفے ٹیریا میں تمام کھانا حلال ہے۔ یہ ایک بڑی نعمت تھی کہ کسی بھی ڈش سے کھانا لیتے کسی قسم کی فکر نہ تھی۔ تمام کھانے  مصالحہ دار  اور ذائقہ دار تھے۔ گوشت کی انواع و اقسام اور سمندری خوراک تھی۔

کیفے ٹیریا پر لگا ہلال کا نشان
کیفے ٹیریا پر لگا ہلال کا نشان

کیفے ٹیریا بھی خوبصورت تھا، عمارت  میں  جابجا مصنوعی درخت لگائے گئے تھے جو بالکل قدرتی معلوم ہوتے تھے۔ ان درختوں کے نیچے میزیں رکھی تھیں کہ آپ عمارت کے اندر بھی درختوں کے نیچے بیٹھے کھانا کھائیں۔ یونیورسٹی میں ہریالی ہر جگہ تھی، باہر سرسبز میدان اور راہ کے ساتھ لگے قدرتی درختوں کی بہتات اور عمارت میں نصب مصنوعی درخت ایک دوسرے کو تقویت دے رہے تھے۔  انسان کی سوچ بڑی ہو تو قدرت بھی اس کے تابع رہتی ہے۔

یونیورسٹی کیفے ٹیریا میں مصنوعی درخت
یونیورسٹی کیفے ٹیریا میں مصنوعی درخت

کھانے کے بعد یونیورسٹی کے باہر سڑک پر چلے گئے  کہ دریائے زرد پر لوہے کے پل  پر جاتے ہیں کہ وہاں کی رونق دیکھیں ۔ پتہ لگا تھا کہ بس کا کرایہ بہت کم  ہوتا ہے۔ سامنے سڑک کے درمیان بس سٹاپ تھا، مگر سمجھ نہ آتی تھی کہ کدھر کو جائیں کیوں کہ سڑک کے درمیان   بنا بس سٹاپ ایک عمارت تھی اور اس کے دروازے  خودکار یعنی آٹومیٹک تھے مگر تب ہی کھلتے تھے جب بس سامنے آکر رکتی تھی۔ ہم نے سڑک عبور کی اور  دیکھا کہ کیسے اندر جا سکتے ہیں، تب پتہ لگا کہ بس سٹاپ میں داخل ہونے کے لیے سڑک کی دوسری جانب انڈر پاس بنے تھے سو ہمیں دوبارہ سڑک پار کرنی پڑی۔ ہم  اب بس سٹاپ پر کھڑے تھے اور بسوں  کے اوقات پر نظر ڈال رہے تھے۔ کچھ سمجھ نہ آرہی تھی اور اسی الجھن میں ہم نے ایک دو بسیں چھوڑ دیں۔

اس دن ہماری قسمت میں پریشانی لکھی تھی۔ آسانی سوچی اور کہا کہ  بس چھوڑ دیں اور  ٹیکسی پر چلتے ہیں۔  انسان بعض اوقات آسانی سوچتا ہے اور مشکل میں پڑ جاتا ہے۔

پاکستانی طالبہ نے ٹیکسی کو موبائل فون پر ایپ کے ذریعے بلایا اور پل کا پتہ منزل کے طور پر دیا ۔ تھوڑی دیر بعد ٹیکسی ڈرائیور کا فون آگیا کہ وہ پہنچ گیا ہے مگر ہم کہاں ہیں؟ طالبہ نے ایک چینی کو فون دیا کہ بات کرے ۔ پتہ لگا کہ ٹیکسی سڑک کی دوسری جانب ہے اور اب گھوم کر آئے گی۔ تھوڑی دیر میں گاڑی پہنچ گئی۔ اب ڈرائیور کچھ کہتا تھا جو ہمیں سمجھ نہ آتی تھی۔ بہر حال اس نے گاڑی چلائی اور سفر شروع ہوا۔ کچھ دیر بعد اس نے پھر چینی زبان میں کچھ کہا جو ہمیں سمجھ نہ آیا۔ بہرحال وہ ہمیں دریائے زرد کے ایک عظیم الشان پل پر لے گیا جو گمان ہے کہ نیا بنا تھا۔ یہ پل ہائی وے پر تھا اور گاڑیاں اور ٹرک اس پر رواں دواں تھے۔ گاڑیوں کے علاوہ وہاں کچھ نہ تھا، کوئی لوگ نہ تھے، نہ کوئی رونق، نہ کوئی میلہ تھا ۔  ڈرائیور نے پل پر ایک جانب گاڑی روکی اور کہا کہ یہی آپ کی منزل ہے۔ ہم حیران و پریشان گاڑی سے اترے ۔ اب یہ ایک  ہائی وے تھی جس کے پل پرہم  کھڑے تھے اور ساتھ سے ٹرک اور گاڑیاں تیز رفتاری سے گذر رہی تھیں۔ پل کے ساتھ ایک چلنے کی راہ بنی تھی  مگر مسئلہ یہ تھا پل کے ساتھ اونچا جنگلہ لگاتھا جو ہم سے پھلانگا نہیں جاسکتا تھا۔  عجب مرحلہ درپیش تھا۔

لان زو چین میں دریائے زرد پر نیا پل
لان زو چین میں دریائے زرد پر نیا پل

پل کے ساتھ پیدل راہ پر ایک چینی مٹر گشت کرتا  نظر آیا۔ اس سے بذریعہ ترجمہ ایپ پوچھا کہ کیا یہ دریائے زرد پر واقع لوہے کا پل ہے۔ اب تک چینیوں سے مدد مانگنے کے تجربے کے مطابق وہ فوراً مدد کو آمادہ تھا۔  اس نے بذریعہ ایپ جواب دیا  کہ لوہے کا پل تو یہاں سے چھ سات کلومیٹر دور ہے۔تب ہمیں احساس ہوا کہ  وقت گذر چکا ہے بلکہ ضرب المثل کے مطا بق پلوں کےنیچے سے   بہت پانی گذر چکا ہے اور ہم کہیں اور پہنچ گئے ہیں۔  اچھا تھا کہ بس پر سوار ہو جاتے کہ جملہ مسافران کا ساتھ رہتا۔  شہرِ غیر میں گم ہو جانا شاید برا نہ ہومگر گمشدگی کا آغاز کسی ہائی وے سے کرنا  ایک الگ احساس ہے، خصوصاً جب ساتھ سے گذرتا تیز رفتار ٹرک اپنی رفتار کا پیغام ہوا کے دوش پرایک سیٹی کے ساتھ دے۔ اب سمجھ آئی کہ ٹیکسی ڈرائیور باربار شاید کچھ یوں پوچھتا تھا کہ اس شہرِ باچراغ میں کدھر کو جاتے ہو؟ کہاں کا خیال ہے؟ لگتا ہے کہ ہوش میں ہوتے بھی مدہوش ہو کہ بے خبری کا شکار ہو ، یہ کس جگہ پر اترنے کا نشان لگایا ہے کہ یہ تو راستہ ہے تم اس کو منزل بنائے بیٹھے ہو۔ زبان نہ آتی ہو تو اشارے کام کرجاتے ہیں،  یہاں یہ سمجھ آئی کہ اشارے بازیاں ہر دفعہ کامیاب نہیں ہوتیں۔

اب ہم ٹریفک کے بہاؤ کے ساتھ یا اس کے مخالف چل سکتے تھے، گوگل میپ نہ تھا کہ ہم فیصلہ کرسکتے کہ کس جانب کو پیدل جانے سے جلد اس ہائی وے سے نکل پائیں گے، سو کھڑے تھے رہگذر پر اور  خبر نہ تھی کہ جائیں کدھر کو ہم ۔  ہم نے فیصلہ کیا کہ ٹریفک کے بہاؤ کے مخالف چلیں گے کہ سامنے سے آتی  گاڑیوں کو دیکھ کر اپنا کچھ بچاؤ تو کر پائیں گے۔ سڑک کنارے بنے سیمنٹ  کی تقسیم کرتے بلاکوں سے چمٹے الٹ راہ کو چل رہے تھے۔زندگی میں  بعض اوقات عمومی بہاؤ سے الٹ چلنا ہی درست ہوتا ہے گو یہ ہمت مانگتا ہے۔  سامنے سے آتی گاڑیوں کے ڈرائیور بھی ہمیں حیرت سے دیکھتے تھے کہ یہ کہاں پائے جاتے ہیں۔  کچھ دور پیدل چلے تھے کہ سامنے اب دوراہا تھا۔ بائیں جانب سے پل پر بل کھاتی سڑک نیچے سے اوپر کو آرہی تھی  اور دوسرا راہ سامنے سے آتا تھا۔  دونوں جانب سے گاڑیاں آرہی تھیں۔ ہم نے سوچا کہ بل کھاتا راہ شاید جلدی پل سے زمین پر لے جائے گا سو اس جانب چلتے ہیں۔ بلندی کے خواہش شاید قدرتی ہو مگر  ہم اُس وقت زمین پر پیر دھرنے کے خواہاں  تھے۔

اب نیا مسلہ درپیش تھا کہ بل کھاتی سڑک پر چلتے تھےتو خم کی بنا پر آتی گاڑی کو ہم نظر نہ آتے تھے اور نہ ہی ہمیں گاڑی  نظر آتی تھی۔ ڈر تھا کہ یہ بے خبریاں کل کے اخبارکی خبر نہ بن جائے۔  سو بل کھاتی سڑک پر دوڑ لگائی کہ خم  سے جلد نکل جائیں اور سامنے دیکھ پائیں۔ بہت سے حادثات سامنے سے سامنا نہ کرپانے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

اب گھوم کر کچھ نیچے پہنچے تھے تو دیکھا کہ وہی پل پر ملنے والا چینی اب اتر کر  ساتھ کی راہ پر تھا۔ راہ ساتھ ہی تھی مگر سڑک کے ساتھ نصب اونچا جنگلہ ہماری راہ بدلنے میں  رکاوٹ تھا۔ وہ چینی دوبارہ ہم سے مخاطب ہوا۔ اُس نے اپنے موبائل پر نقشہ لگا یا اور کہا کہ  بہتر ہے کہ آپ بل کھاتی سڑک پر واپس  جائیں اورواپس  دوراہے پر پہنچ کر دوسری طرف کی راہ لیں۔ اُس طرف امکان ہے کہ آپ جلد ہائی وے سے نکل پائیں گے۔  یہ راہ جس پر آپ چل پڑے ہیں یہ تو کئی میل ایسے ہی چلے گی۔

اندھیرا تھا اور  ہم واپس بل کھاتی سڑک پر پل کی جانب بھاگے، بھاگے کیوں  کہ اب تیز رفتارگاڑیاں ہمارے پیچھے سے آرہی تھیں   اور کوشش تھی کہ جلد از جلد دوراہے پر پہنچ جائیں کہ اس سے آگے کم از کم ٹریفک کی دوسری جانب چلیں گے کہ سامنے سے آتی گاڑیاں نظر آئیں گی۔  پھولی سانسوں کے ساتھ دوراہے پر پہنچے اور راہ بدلی۔ اب دوسری جانب کو جارہے تھے۔ سڑک سیدھی ہونے کی بنا پر کم از کم ہم گاڑیوں کو آتا دیکھ پارہے تھے اور شاید گاڑیوں کی بھی ہمارا اندازہ ہورہا تھا۔ پل سے سڑک اتر رہی تھی اور ہم بھی اس کے ساتھ اتر گئے مگر ہائی وے کے ساتھ لگے اونچے جنگلوں کا ابھی بھی ساتھ تھا۔ ان جنگلوں کا مقصد شاید باہر سے اندر کسی کو نہ آنے دینا تھا، مگر ہم ایسے شکار تھے کہ اندر سے باہر نہ جاسکتے تھے۔

خدا خدا کرکے ان جنگلوں میں ایک پھاٹک نظر آیا جو شاید کسی سرکاری محکمہ کا علاقہ تھا، گمان ہے کہ محکمہ انہار ( کہ دریا ساتھ تھا) یا محکمہ  جنگلات کا ہوگا۔ ہم نے پھاٹک کی کنڈی کو زور لگا کر کھولا اور کچھ جھجک  اور ڈر کے ساتھ اس  میں داخل ہوگئے۔  ایک راہ دریا کو جاتا تھا اور اس راستے میں کچھ پرانی گاڑیاں اور زنگ آلود موٹر سائیکل اپنی زندگی کے دن  گذار رہے تھے۔ ہم  ان کے ساتھ سے گذر کر دریا پر پہنچ گئے۔ آگے چلے تو پل ہمارے اوپر تھا، وہی پل جو دو کناروں کو جوڑ رہا تھا اور جس پر ہم نے کانوں کو ہاتھ لگائے  اوردونوں  ہاتھوں کو جوڑا تھا۔

موسم اچھا تھا، ہوا میں خنکی تھی، دریائے زرد کا پانی اپنی چمک کے ساتھ  مسافر کے پاس سے گذر رہا تھا اور  مسافر کی کہانیوں میں ایک کہانی کا اضافہ ہوچکا تھا۔ مسافر نے ساتھ گذرتے دریا سے پانی اپنے ہاتھ میں بھر کر واپس اچھال دیا۔ ایسے لگا کہ  دریا نے بڑھ کرپانی  کوتھام لیا۔ ایک لمحہ کے لیے پانی کی سطح پر ایک نقش بنا ، وہ نقش جو اُس لمحے میں منفرد تھا سب سے الگ، وہ نقش جو  شاہرائے ریشم  سے گذرتے کئی مسافروں نے اس مسافر سے قبل بنائے ہوں گے۔وہ پانی پل کے نیچے سے گذرگیا۔کیا خبر کبھی  یہ پانی کسی اور  زمان اور مقام  میں مسافر سے دوبارہ  ملاقات کے لیے کسی بادل سے ٹپکے۔راہ نشانوں سے اٹے ہوتے ہیں ،  دیکھنے کی نگاہ اور محسوس کرنے کے لیے احساس چاہیئے ، کسی درخت پر چاقو سے نام کھودنے یا عمارت پر نام لکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔

رات بھیگ چکی تھی۔ کوئی راہی نہ تھا مگر دریا کے ساتھ چلتا راہ  جنگل میں جا گھسا تھا۔ درخت گھنے تھے اور روشنی کم تھی۔ پاکستا نی طالبہ نے مسافر کو بتایا  کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔  ملک چین  بہت محفوظ ہے،  اپنے ملک میں دن میں بھی پھرتے ڈر ساتھ چلتا تھا، مگر چین میں رات گئے کہیں بھی پھرتے اُسے ڈر نہیں لگا۔

julia rana solicitors london

دورکہیں سے  ہنسی کی آواز آرہی تھی، ایک جوڑا کہیں دور دریا کنارے موسم سے لطف اندوز ہو رہاتھا۔ ہم  تھک چکے تھے مگر راہ چل رہا تھا اور مسافر بھی چل رہے تھے۔ بائیں جانب ایک سڑک گذرتی نظر آرہی تھی مگر اس تک پہنچنے کا راستہ کہیں نہ تھا کہ درمیان میں خودرو جھاڑیوں اور درختوں کی بہتات تھی۔ بالآخر ایک پگڈنڈی  بائیں جانب جاتی نظر آئی، موقع جان کر اُس  پر ہولیے۔ درختوں اور جھاڑیوں سے ہوتے یہ راہ ہمیں سڑک پر لے آئی۔  مگر وہاں بھی وہی پرانا مسلہ درپیش تھا کہ سڑک بل کھاتی آرہی تھی اور گاڑیاں تیز آرہی تھیں۔ سو سڑک کے ساتھ چلتے رہے ، انتظار تھا کہ سیدھی راہ  مل جائے۔ ایک جگہ مناسب مقام پہنچ کر موبائل ایپ کے ذریعے ٹیکسی منگوائی اور تھکے ہارے ہوٹل پہنچے۔ شکر کیا کہ خیریت سے واپس پہنچے ہیں اور بستر پر لیٹنے کا کیا، نیند ہمارے انتظار میں پہلے ہی کمرے میں تھی۔

Facebook Comments

عاطف ملک
عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں پڑھاتے ہیں۔ پڑھانے، ادب، کھیل، موسیقی اور فلاحی کاموں میں دلچسپی ہے، اور آس پاس بکھری کہانیوں کو تحیر کی آنکھ سے دیکھتے اور پھر لکھتےہیں۔ اس بنا پر کہانیوں کی ایک کتاب "اوراقِ منتشر" کے نام سے شائع کی ہے۔ کچھ تحاریر درج ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہیں۔ www.aatifmalikk.blogspot.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply