چلتے ہو تو چین کو چلیے(3)-عاطف ملک

مسافر کو کمرہ نئی عمارت میں دیے جانے کی آمادگی ہوئی مگر اب نیا مسئلہ آگیا کہ ویزہ کارڈ اور دوسرے کارڈ نہ چل رہے تھے۔ پتہ لگا کہ چین میں یہ کبھی چلتے ہیں، کبھی نہیں چلتے، اپنی ایک پرانی گاڑی کی یاد تازہ ہوگئی۔ اس اثناء میں ہوٹل میں مسافر کا شاگرد بھی آگیا۔ وہ چینی طالب علم جس نے اس تحقیقی مقالے پر کام کیا تھا، وہ اپنی پرانی یونیورسٹی  جوکہ شیان شہر میں واقع تھی وہاں گیا تھا اور اب وہاں سے لان زو کانفرنس کے لیے پہنچا تھا۔ اب چین میں کارڈز سے بڑھ کر وی چیٹ اور علی پے سے ادائیگیاں ہوتی ہیں۔ مسافر اُس کا قرض بار ہوا  کہ  اس نے کمرے کی ادائیگی کی ۔ اس معرکہِ تبدیلی کمرہ و ادائیگی میں شام شہر پر  اور بھوک مسافر پر اتری تھی۔

ایک پاکستانی لڑکی بھی جو شیان کی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہی تھی، اپنا مقالہ پیش کرنے لان زو  آئی تھی، اس سے بھی ہوٹل کی ریسیپشن پر ملاقات ہو گئی۔ سو ہم سب کھانے کے لیے نکل پڑے۔ بتانے والوں نے بتایا کہ یونیورسٹی کے ساتھ ہی کئی حلال کھانے کی دکانیں  ہیں کہ لان زو  میں ہوئی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد  رہتی ہے۔ وہ کھانے کی دکانیں جن میں کام کرنے والے سفید ٹوپیاں پہنتے ہیں، وہ مسلمانوں کی ہیں، نیز ان پر گو چینی الفاظ میں حلال لکھا ہوگا ( تو پڑھ نہ پائے گا) مگر وہ الفاظ سبز رنگ میں ہوں گے، سو جان جائے گا۔ ایک اور فائدہ تھا کہ مسافر کا شاگرد چینی تھا سو زبان کا مسئلہ بھی حل تھا۔

مسافر یونیورسٹی سے نکلا تھا کہ پہلے موڑ پر ہی کئی دکانیں صدائیں دیتی تھیں کہ رک، کھانے کے لیے یہیں رک، سو ہم نے بھی پہلی ہی مسلم دکان کا چناؤ کیا۔ مینو کی تصویر کھینچی اور ترجمے کی ایپلیکیشن سے رہنمائی چاہی۔ اب ایپلیکیشن نے دکھایا کہ یہاں تو پورک یعنی سور  بھی ملتا ہے۔ ہم تو اپنی جگہوں سے اٹھ پڑے۔ چینی طالب علم نے دکاندار  سے بات کی تو پتہ لگا کہ یہ تو سب ترجمے کی غلطی ہے اور اس دکان میں کوئی سور نہیں پکتا بلکہ بقول دکاندار  یہ تو ترجمے کا سور پن ہے۔   مسافر کو اپنے دیس کا خیال آگیا جہاں کئی مترجم  غلط ترجمہ بیان کرکے سلامتی کو فساد سے  ایسے تبدیل کیے ہیں کہ کوئی طالب علم ان سے سوال بھی نہیں کرسکتا۔

کچھ پوچھ پچھا کر کھانے کا  آرڈر دیا۔  آرڈر دیا   ہی تھا کہ قہوے کے پیالے اور ایک پلیٹ سورج مکھی کے بیجوں  سے بھری ہمیں پیش کردی گئی۔  اُدھر کھانے میں پانی کی بجائے  گرم قہوہ دیا جاتا ہے۔ اُدھر قہوہ ختم ہوا، اِدھر کوئی دوبارہ بھر دے گا۔ سورج مکھی کے بیج آغازیہ یعنی سٹارٹر ہیں۔  مسافر نے بعد میں بازاروں میں سورج مکھی کے بہت بڑے بیجوں سے بھرے پھول بکتے دیکھے۔  ہم نے بیف اور بکرے کے گوشت کی سیخیں منگوائی تھیں۔ یہ سیخیں سائیکل کے پہیے کی تاروں کی مانند تھیں اور ان پر گوشت بھی مقابلتاً پتلا لگتا ہے، مگر ذائقہ خوب اچھا تھا۔  نیز  ایک ڈش   اور منگوائی تھی۔
Dapanji (大盘鸡)        ڈش کا نام ہے ترجمہ کریں تو کہتے ہیں مرغ کی بڑی قاب۔  ایسے ذائقہ دار قاب مسافر نے پہلے نہ کھائی تھی۔ شوربہ ذائقہ دار، مرغی کا کھال اور پنجوں سمیت گوشت ، آلو،  شملہ مرچ اور شوربے کے اندر ڈوبے نان کے ٹکڑے،  ذائقہ ایسا  کہ مسافر اب صدائیں دیتا ہے، ایک دفعہ کھایا ہے دوسری دفعہ کھانے کا اشتیاق ہے۔

کھانا بچ گیا جو ہم نے پیک کروالیا۔ تھکن انتہا کی تھی سو کمرے میں پہنچتے ہی  سوگیا۔

جمعہ کا دن  کانفرنس کا پہلا دن تھا۔ صبح کا پہلا سیشن صرف چینی زبان میں تھا سو اس سے فائدہ اٹھاتے مسافر اپنے چینی طالب علم کے ہمراہ چائنہ موبائل کی سم لینے چلا گیا۔ شام پانچ بجےکھانےپینے کے علاوہ تمام دکانیں بند ہو جاتی ہیں سو یہ کام ہم نے اگلی  صبح کے لیے رکھا تھا۔ چائنہ موبائل کی دکان پر کہا کہ کوئی کم دنوں کا پیکج  دو۔ پتہ لگا کہ سب سے کم عرصے کا پیکچ بھی چھ ماہ کا ہے۔ ہمیں سم چلانی تھی کیوں کہ ہمارا بنک کارڈ چین میں نہیں چل رہا تھا اور   چین میں تمام ادائیگیاں موبائل پر وی چیٹ یا علی پے کے ذریعے سے ہوتی ہیں۔ ٹیکسی منگوانی ہو تو وہ بھی وی چیٹ کے ذریعے ہوتی ہے۔ سو ہمیں دنیا یعنی چین میں چلنے کے لیے انٹرنیٹ اور دوسری ایپلیکیشنز چلانی تھیں اور اس کے لیے سم بہت ضروری تھی۔

دکان پر ہمارے علاوہ کوئی گاہگ نہ تھے۔ دو خواتین دکان چلا رہی تھیں، انہوں نے ہمیں پوری توجہ دی، مگر پھر بھی ایک گھنٹہ لگ گیا۔ تصاویر اور انگلیوں کے نشان لینے کے بعد درخواست فارم پر دستخط کرائے۔ پھر اُس دستخط شدہ درخواست فارم کو  پوری طرح کیمرہ کو دکھاتے ہوئے مسافر کی تصویر کھینچی گئی ، سو اس تصویری ثبوت کے بعد بندہ ناچیز ایک عدد سم کا مالک بنا۔

اب دوپہر بارہ بجے کے لگ بھگ وقت تھا اور مسافر جمعہ کےلیے مسجد جانا چاہتا تھا۔اس سلسلے میں انٹرنیٹ کی مدد سے نینگوان مسجد کا پتہ لگا تھا کہ یہ مسجد منگ سلطنت کے وقت تیرہ سو اڑسٹھ عیسوی میں بنائی گئی تھی۔ مسافر خواہش مند تھا کہ ایسی تاریخی مسجد میں سر جھکائے جہاں صدیوں سے عبادت گذارسجدہ ریز ہوتے رہے ہیں۔اب نینگوان مسجد ہمارے ہوٹل سے کافی دور تھی۔

اب تک وی چیٹ اور دوسری ایپلیکیشن نہ چلی تھیں سو چینی شاگرد نے مسجد کے لیے ٹیکسی منگوادی۔ مسجد دور تھی سو تقریباً  چالیس منٹ کا سفر رہا۔ ٹیکسی والے نے ایک چوک پر اتارا اور ایک جانب کو اشارہ کیا۔ اس کا مطلب یہ جانا کہ مسجد اس جانب ہے۔

ہم ساتھ کے  بازار میں داخل ہوگئے، لگتا تھا کہ جیسے فوڈ سٹریٹ ہے گو زیادہ دکانیں بند تھیں۔ پہلی دو دوکانیں مسلمانوں کی تھیں کہ سبز سائن بورڈ تھے۔ یہ دیکھا کہ حلال دکانوں پر یا تو کچھ الفاظ سبز رنگ میں ہوتے ہیں جو حلال چینی زبان میں لکھا ہوتا ہے، ورنہ پورا سائن بورڈ سبز ہوتا ہے۔ ہم آگے چلے تو سامنے سے ایک حجابی چینی عورت اپنا موٹر سائیکل موڑ رہی تھی۔ اس سے گفتگو کا آغاز سلام سے کیا اور مسجد کا پوچھا۔ اس نے قریب کی  ایک عمارت کی جانب اشارہ کیا کہ یہ مسجد ہے۔

ایک خوبصورت چینی پکوڈا سٹائل کی  عمارت تھی ایسی کہ  دیکھنے پر ہم غیر مقامیوں کو علم نہ ہو کہ مسجد ہے۔ غور کیا تو اوپر چاند لگے نظر آئے سو علم ہوگیا کہ مسجد ہے۔ مسافر اندر داخل ہوگیا۔  داخلی دروازے کے بعد چھوٹا سا صحن تھا جس کے بعد کئی منزلہ عمارت تھی۔ نیچے وضو خانہ اور ٹوائلٹ تھے۔ ٹوائلٹس پیروں پر بیٹھنے والے سٹائل  کے تھے، جن کے ساتھ پانی کا انتظام بھی تھا۔ مسجد کے باہردو تین لوگ زمین پر چادر بچھا کر کچھ فروخت کر  رہے تھے۔

صحن میں دو تین لوگ تھے، ان سے نماز کی جگہ کا پوچھا مگر انہیں انگریزی نہ آتی تھی۔  ایک نے سیڑھیوں کی طرف اشارہ کیا سو  مسافر سیڑھیاں چڑھ کر پہلی منزل چلا گیا۔ سیڑھیوں کے سامنے برآمدے میں کچھ بینچ پڑے تھے جن پر دو تین لوگ بیٹھے تھے۔ ایک چینی بیٹھا قرآن کی تلاوت کررہا تھا۔ اس نے مسافر سے انگریزی میں بات کرنا شروع کردی۔ اس کی انگریزی اور  تلفظ اچھا تھا۔ کہنے لگا میں ان چینی لوگوں کے لیے پیغمبر ہوں۔ اب یہ بات مسافر کو سمجھ نہ آئی، کیا یہ بھی ترجمے کی کوئی غلطی تھی یا کچھ ذہنی خلفشار یا مسئلہ تھا۔ کہنے لگا میں نے اردن میں عربی سیکھی تھی اور اب ہر جمعہ کو یہاں آتا ہوں اور یہاں کے باسیوں کو عربی میں قرآن پڑھ کر سناتا ہوں۔ وہ دوبارہ قرآن پڑھنے لگ گیا تھا۔ ابھی جمعہ میں وقت تھا سو بہت لوگ نہ تھے مگر لاؤڈ سپیکرپر کچھ آواز مسلسل آرہی تھی۔ گمان ہے کہ ذکر ہو رہا تھا مگر اس کا انداز بالکل فرق تھا سو کچھ دیر لگی سمجھنے میں کہ ذکر ہورہا ہے۔

مسافر نے وضو کیا۔ مسجد میں اپنے علاوہ صرف ایک غیر ملکی جو شاید عرب تھا نظر آیا۔ مسجد میں امام کی منبر بھی چینی طرز تعمیر میں بنی تھی۔ اس کے علاوہ بھی مسجد تمام چینی طرز تعمیر سے سجی تھی۔ اسلام کی یہ خوبی ہے کہ اس میں علاقائی رنگارنگی بھی سمو جاتی ہے۔

بعض متعصب اس رنگارنگی کو غلط بلکہ کفر کی طرف لے جاتے ہیں۔ اب کوئی ان کو سمجھائے کہ ہم سمجھائیں کیا؟

جمعہ ہوا، امام ایک نوجوان چینی تھا، کافی لمبی تقریر کی جس کے بعد عربی میں خطبہ ایک نوعمر چینی نے لکڑی کی ایک عصا تھامے دیا۔ نماز کے بعد اس سے مسجد سے باہر ملاقات ہوئی تو مسافر نے پوچھا کہ کس زبان میں تقریر کی تھی تو پتہ لگا کہ چینی زبان کا ہی کوئی لہجہ تھا۔ ایک مختلف بات  دیکھی کہ مسجد میں نماز کی صفیں گو قالین تھیں مگر ان کی چوڑائی کم تھی کہ نمازیوں کا سجدہ  قالین سے باہر فرش پر ہوتا۔  مسجد کے بنیادی ہال کے ساتھ ایک کمرہ مدرسے کے طور پر تھا  جس میں وائیٹ بورڈ پر عربی لکھی تھی اور ساتھ میں چینی طرز تعمیر کے لکڑی کے دو ڈھانچے خوبصورتی کے لحاظ سے رکھے گئے تھے۔

نماز پڑھ کر مسجد کی ساتھ کی سڑک پر کچھ چہل قدمی کی۔ عمارتوں  کا ڈیزائن میں کچھ پرانی طرز تعمیر تھی اور کچھ نئی طرز تعمیر تھی۔  مسجد کے ساتھ کی مسلمان کھانے پینے کی دکانوں میں نظر دوڑائی کہ دوپہر کے کھانے کا وقت تھا۔

ایک چینی ادھیڑ عمر مسلمان نے اشارے سے کہا کہ دکان کے اندر آجائیں۔ مسافر ابھی دکان کے اندر کے بورڈ پر لگے مینو کو دیکھ رہا تھا کہ  سمجھے کیا کچھ ہے۔ اب چینی لکھا تو پڑھ نہ سکتا تھا سو کھانے کی لگی  تصویروں سے کچھ سمجھنے کی کوشش کررہا تھا۔ اتنی دیر میں چینی بابا جی نے دکاندار کو کچھ کہا اور چلے گئے۔ ابھی مسافر کچھ فیصلہ نہ کرپایا تھا کہ ایک نوجوان چینی لڑکی آگے بڑھی اور صاف انگریزی میں کہنے لگی کہ کھانا اس دکان سے کھائیں کہ آپ کے کھانے کے پیسے وہ بابا جی دے کر جاچکے ہیں۔ بابا جی جاچکے تھے اور  مسافر کے سامنے اقبال کے شعر  آگئے تھے۔

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار

قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری

اس چینی لڑکی کے ماں باپ بھی ساتھ تھے۔ لڑکی  نے ابھی یونیورسٹی شروع کی تھی۔ مسافر نے اُسی سے پوچھا کہ کیا آرڈر کیا جائے؟  اس کے کہنے پر نیوڈلزسوپ بمعہ سبزی اور گوشت کی پرتوں کا آرڈر کیا۔ سڑک پرہی دکان دار نے نیچی میزیں لگائی تھیں اور ان کے ساتھ چھوٹے چھوٹے سٹول تھے۔ مسافر نے اپنا کمر کا بیگ یعنی  رُک سیک زمین پر رکھا اور ایک سٹول پر بیٹھ گیا،بیٹھے ہیں رہ گذر پرکوئی ہمیں اٹھائے کیوں۔ لڑکی کا باپ فوراً لپکا اور مسافر کا رک سیک اٹھا کر ساتھ کے سٹول پر رکھ دیا۔ دنیا میں مختلف مقامات پر عزت اور محبت کے اپنے پیرائے ہیں۔ خوبصورت بات یہ ہے کہ آپ اُنہیں جانتے نہ بھی ہوں تو بھی جان جاتے ہیں کہ دل سے نکلی بات اپنا اثر لانے کے لیے کسی بیساکھی کی محتاج نہیں ہوتی۔

نیوڈلز سوپ ذائقہ دار تھا۔ مسافر چمچہ بہ چمچہ اس سے لطف اندوز ہورہا تھا  اور ان کے بیچ میں وقفہ لے کر دکاندار کی طرف سے دی گئیں دو چاپ اسٹک کے ذریعے بیف کے گوشت کی پرت اٹھانے کی کوشش کرتا تھا۔   کچھ ساتھ سٹولوں پر بیٹھےچینی اس کوشش کو دیکھ کر ہنستے تھے۔ لان زو کی سڑک پر بیٹھا مسافر ایک لمحہِ محبت کا اسیر تھا۔ ایسے میں ساتھ کے سٹول پراُسی چینی لڑکی کے باپ نے ایک شاپنگ بیگ رکھ دیا۔ دیکھا کہ سڑک پر  قریب کھڑے ایک کھلے رکشے پر ایک خاتون آڑو بیچ رہی تھی جس سے ان صاحب نے آڑو خرید کر اجنبی مسافر سے اپنے تعلق کا اظہار کیا تھا۔ اقبال پھر مسافر کے خیال میں اپنے اشعار کے ساتھ تھا۔

مسافر نے سوچا کہ دنیا رنگ و رنگ کی ہے۔  مختلف مقام اور وقت پر  لوگ مختلف طرح سے پیش آتے ہیں۔

انسان بڑا گنجلگ ہے۔ کبھی اجنبی تعلق دار  ٹھہرتے ہیں اورکہیں تعلق دار اجنبی ٹھہرتے ہیں۔

مسافر کو ایک واقعہ یاد آگیا۔ مسافر ایک چھوٹے شہر میں بوجہ روز گار رہائش پذیر تھا۔ بیٹی کے دانتوں کے علاج کے لیے ایک بڑے شہر جانا پڑتا تھا۔ ایک دفعہ اُس  بڑے شہر دو  دوسرے کم سن بچے بھی ساتھ  گئے۔ ماں  بھی بچی کے علاج کے لیے  ساتھ گئی تھی کہ ورنہ ماں  کو چین نہ پڑتا تھا۔کیونکہ علاج میں وقت زیادہ لگتا تھا سو ایک پرانے دوست کے گھر دونوں کم سنوں کو چھوڑا۔  چار پانچ گھنٹوں بعد ان بچوں کو دوست کے گھر سے لیا۔ بچوں کو دوست کے گھر لینے آئے تو دوست کی اہلیہ نے بتایا کہ ان کے ہاں کوئی بڑی دعوت ہے، سو کھانا اس کے مطابق پک رہا تھا، اس لیے بچوں کو کچھ نہیں دیا تھا۔ مسافر تو چپ رہا مگر بچوں کی ماں تو جیسے سُن ہی ہوگئی۔ فوراً  اُس گھر سے نکلنے کا کہا۔ بچے   کئی گھنٹوں کے بھوکے پیاسے تھے انہیں لے کر فوراً قریبی بازار کا رُخ کیا کہ بچوں کی بھوک ان کی ماں کو زیادہ تکلیف دے رہی تھی۔

مسافر کو اپنی ماں اور ساس یاد تھیں، متوسط طبقے کی عورتیں جن  کے لحاظ سے مہمان رحمت ہوتے ہیں، اور بچے اس رحمت کا بھی اونچا درجہ رکھتے ہیں۔ مہمان نوازی شاید بتائی نہیں بلکہ سکھائی جاتی ہے۔ وہ گھر جہاں مہمان اپنے معاشرتی رتبے کے قطع نظر مہمان ہوتا ہے، جہاں کوئی مزدور بھی آئے تو پانی اور چائے پیش کی جاتی ہے، ان گھرانوں کے بچے نفسا نفسی کے دور میں بھی اقدار سیکھ جاتے ہیں۔

انسان بڑا گنجلگ ہے۔  کہیں اجنبی تعلق دار  ٹھہرتے ہیں، کہیں تعلق دار اجنبی ٹھہرتے ہیں۔ مسافر سمجھ گیا کہ یہ چینی بچی جس کے باپ نے آڑوں کا ایک شاپنگ بیگ رکھا تھا، اپنی زندگی کا ایک بہت بڑا سبق لے کر جارہی ہے، وہ سبق جو قیمت کے ترازو میں نہیں تولا جا سکتا۔

Facebook Comments

عاطف ملک
عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں پڑھاتے ہیں۔ پڑھانے، ادب، کھیل، موسیقی اور فلاحی کاموں میں دلچسپی ہے، اور آس پاس بکھری کہانیوں کو تحیر کی آنکھ سے دیکھتے اور پھر لکھتےہیں۔ اس بنا پر کہانیوں کی ایک کتاب "اوراقِ منتشر" کے نام سے شائع کی ہے۔ کچھ تحاریر درج ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہیں۔ www.aatifmalikk.blogspot.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply