مجھے صوبہ پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں کام کرتے ہوئے کافی عرصہ ہو چکا ہے ۔ ایک بات جو میں نے نوٹ کی ہے وہ یہ کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے مریض یا ہسپتال کے ملازم ڈاکٹروں کا زیادہ عزت کرتے ہیں ۔
ایمرجنسی میں اگر کوئی غیر مسلم مریض سریس حالت میں لایا جائے، اسکے لواحقین کم از کم ڈاکٹروں پر حاوی ہونے کی کوشش نہیں کرتے، بدتمیزی نہیں کرتے، ڈاکٹر کی نصحیت پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ تشویشناک حالت والے مریضوں کا غصہ ڈاکٹروں پر نہیں نکالتے ،ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں توڑ پھوڑ نہیں کرتے ۔ ڈاکٹرز و پیرا میڈیکل سٹاف سے بدتمیزی نہیں کرتے۔ ہسپتال کی چیزوں کی قدر کرتے ہیں ۔ کسی کام میں دیر سویر ہو جائے تو لڑتے نہیں ہیں۔
یہی حال اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے درجہ چہارم کے ملازمین کا ہے۔ یہ لوگ کم از کم اپنا کام لازمی کرتے ہیں، کام چوری ان میں مسلمان ملازمین کی بانسبت کم ہے۔ ایک اور چیز میرے لیے بڑی حیران کن کہ جو میں نے غور کی، اگر آپ اقلیتی برادری والے ملازمین سے کوئی چیز منگوائیں، جو دس بیس روپے بچتے ہیں، یہ لوگ واپس لازمی کرتے ہیں۔ یہ بات میں نے بارہا بار آزمائی ہے، میں اپنی زات کی حد تک ان سے یہ پیسے نہیں لیتا ۔
لیکن جو ہمارے مسلمان بھائی ہیں، انکی شان ہی نرالی ہے۔ اگر خدانخواستہ کوئی مریض تشویشناک حالت میں ایمرجنسی لایا جائے، تو لواحقین جتھہ بند ہو کر ایمرجنسی میں گھس جاتے ہیں، ڈاکٹروں سے بحث کرتے ہیں، ایمرجنسی خالی نہیں کرتے، اور تو اور ڈاکٹروں کے طریقہ علاج میں سو نقص نکالتے ہیں، اگر انہیں ایمرجنسی خالی کرنے کا کہہ دیں، تو آگے سے لڑتے ہیں ۔ اگر مریض کو کچھ ہو جائے تو سیدھا الزام ڈاکٹروں پر ۔
مسلمان ملازمین پر کام چوری ختم ہے، کچھ صاحب جو درجہ چہارم میں بھرتی ہوئے یا خاکروب کی سیٹیوں پر آئے، وہ یہ کام کرنا پسند نہیں کرتے، انہوں نے مل کر آگے ملازم رکھے ہوئے (جو زیادہ تر اقلیتی برادری سے ہیں ) اور انہیں اپنی جیب سے تنخواہ دیتے ہیں، بندا پوچھے کہ اگر اتنے نفاست پسند ہو تو یہ نوکری لی کیوں؟؟؟ یہی حال مسلمان نرسز اور وارڈ بوائز کا ہے، کام چوری ،ہڈ حرامی ان پر ختم ہے۔
آپ کسی بھی سرکاری ہسپتال کے درجہ چہارم کے ملازم سے کوئی چیز منگوا مت دیکھیں، جو دس بیس روپے باقی بچے ہوں،یہ لوگ کھبی واپس نہیں کرتے ۔ الٹا اسکو اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ ہسپتال میں کام کرنے والی نوے فیصد آپا مسلمان ہیں اور یہ طبقہ کوئی بھی کام بنا رشوت لیے نہیں کرتا۔
مریض کیساتھ آئے لواحقین کو ہر جگہ یہ لوگ ہراساں کرتے ہیں اور ان سے ہے جگہ کام کروانے کے لئے پیسے لیے جاتے ہیں ۔ اگر آپ انکو کنفرنٹ کریں تو یہ لوگ آگے سے مسلمانیت کا کارڈ کھیلنا شروع کر دیتے ہیں ۔
بدقسمتی سے یہ مسئلہ تقریباً سرکاری ہسپتال کا ہے، ہر ہسپتال انتظامیہ ان مسائل کے حل کے لئے بلکل بھی کسی قسم کی کوئی صلاحیت نہیں ہے۔ ان درجہ چہارم کام چور ملازمین کی آپس میں اتفاق اس قدر زیادہ ہے کہ یہ لوگ اپنے کسی بھی ساتھی کے خلاف ہسپتال کی انتظامیہ کو کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کرنے دیتے ،یہی رونا ہے۔ ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے،انجام گلستاں کیا ہو گا۔
اب مجھ پر کفر کے فتوے لگانے سے گریز کریں، یہ وہ واقعات ہیں جنکا میں عینی شاہد ہوں، اور جو میں روازانہ کی بنیاد پر آبزرو کرتا ہوں۔ زیادہ تر تو یہ باتیں بری لگیں گی، لیکن اگر نیوٹرل ہو کر سوچیں تو آپکو یہ باتیں سو فیصد ٹھیک لگیں گی، لیکن سب کو اپنی جان اور عزت پیاری ہے ،اسی لیے سب خاموش تماشائی بن کر اپنا ٹائم وقت گزار رہے ہیں ۔
Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں