اریتھون کا گیارہواں روپ/مسلم انصاری

اَریتھون سَسیارَس کے گیارہ روپ تھے، مائی ہیجی اور سَسیاندا اس کے ماں باپ مانے جاتے ہیں
اریتھون جب چھوٹا تھا تو مائی ہیجی نے اسے بتایا : “انسانوں کی ساری زندگی ان کے خوابوں کی گڑھت ہے، وہ ان خوابوں کے لئے جیتے اور جوان ہوتے ہیں، ان ہی کے پیچھے دوڑتے اور مارے جاتے ہیں!”
اریتھون پر اس بات نے اثر کیا اور پہلی بار وہ خواب بنا، وہ خواب بن کر ایک ایسے چھوٹے بچے کو آیا جس کی آنکھیں نہیں تھیں، ایک ٹانگ دوسری ٹانگ سے چھوٹی، ایک ہاتھ بنا انگلیوں کے جبکہ دوسرا ہاتھ سات انگلیوں پر مشتمل تھا

“اہومی” کے مطابق اریتھون خواب بننے سے پہلے ایک ذرہ تھا جو فقط سورج کی ہلکی شعاعوں میں اڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا مگر جب وہ خواب میں بدل کر اس بچے کو آیا تب لڑکھڑا کر چلنے لگا

ایسا مانا جاتا ہے کہ اس بچے کو اریتھون کے جا لینے کے بعد وہ بچہ جس چیز کو چھوتا اس میں رنگ بھر جاتے، اس بچے نے جب خود اپنا جسم چھوا تو اریتھون نے اسے خاکی رنگ میں لپیٹ دیا، اس بچے کے چھونے سے درخت سبز ہوئے، پھولوں کو لالی ملی یہاں تک ایک بار اس بچے نے خلا میں کسی چیز کو تیزی سے پکڑنے کے لئے ہاتھ گھمایا تو اریتھون نے آسمان میں سات رنگ بکھیر دئے جسے اب “قوس قزح” کہا جاتا ہے

اہومی کہتا ہے : “یہاں موجود سبھی رنگ اریتھون کی دین ہیں، اس سے قبل ہر چیز بے نور اور بے رنگ تھی!”

اریتھون ذرے سے خواب، خواب سے رنگ میں تبدیل ہوا، یہ بدلاؤ اتنی تیزی سے ہوا کہ اریتھون خود نہیں جان سکا کہ رنگوں سے موسم بنتے ہیں سو وہ کب موسم بنا یہ خبر اسے بھی نہ ہوئی (مگر تب تک فقط ایک ہی موسم تھا)

“دالیدا دریوم” کے مطابق اریتھون اتنا تو جان گیا تھا کہ اس نے جانے انجانے میں کچھ ایسا بنا دیا ہے جسے دیکھے بنا اریتھون خود بھی نہیں رہ سکتا سو وہ اس بچے کی آنکھیں بن گیا اور اس نے ایسے مبہوت کردینے والے رنگوں کا نظارہ کیا جو خود اس کی سوچ سے پرے کی چیز معلوم ہوتی تھی
اریتھون خوشی سے جھوم اٹھا اور اس نے خوشی کی کیفیت ہر طرف پھیلا دی

اہومی یہاں آکر کہتا ہے : “ذرہ، خواب، رنگ، موسم، آنکھ، یہ سب بننے کے بعد خوشی یا کیفیت اریتھون کا وہ واحد مرحلہ تھا جسے اریتھون نے ہمیشہ جینا چاہا مگر کاش اس سب سے خوبصورتی نے جنم نہ لیا ہوتا!”

دالیدا دریوم کہتا ہے : “خوبصورتی اپنی جگہ بنا چکی تھی مگر خوبصورتی کے دوام کو چھیننے میں کاش خود اریتھون کا اپنا ہاتھ نہ ہوتا!”

اس بچے/لڑکے نے جب پہلی بار رنگوں کے ملاپ سے بنی اوڑھنی میں لپٹی اپنے جنس مخالف میں سے “امندہ” نامی لڑکی کو دیکھا تب وہ منظر اس قدر پُر نگاہ تھا کہ اریتھون اس بچے کے اندر محبت میں بدل گیا
اریتھون کا یہ روپ اعداد و شمار میں ساتواں روپ ہے

اریتھون نے اس روپ میں ہر طرح کی چمکدار اشیاء بنا ڈالیں، سونا اور جواہرات فقط اسی لئے تھے کہ اریتھون محبت کو خوبصورتی کے ساتھ ساتھ زیادہ روشن اور بارونق اشیاء سمیت جینا چاہتا تھا

اریتھون نے اس لمحے اپنے سارے خیالات اس بچے کو سونپ دئے اور اس بچے نے ایک انگوٹھی کا اختراع کیا مگر دوسری سمت “امندہ” خوبصورتی کی اس قدر فراوانی سے اوب جانے کی کیفیت میں مبتلا تھی سو اریتھون ارتقاء کے سفر میں اپنے روپ کے اس حصے میں جا پہنچا جسے “بدصورتی” کہتے ہیں

گوکہ تاریخ دان “اہومی” اور “دالیدا دریوم” دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ بدصورتی بھی خوبصورتی کے ایک ہی سکے کا دوسرا رخ ہے مگر یہ بھی درست ہے کہ اریتھون نے اس روپ میں ہر شے اتھل پتھل کردی اور تب خواب کے ساتھ حقیقت، موسمِ بہار کے ساتھ خزاں، آنکھ کے ساتھ نابینا پن، رنگ کے ساتھ اندھیروں اور محبت کے ساتھ نفرت نے جنم لیا، بدصورتی اریتھون کا آٹھواں روپ تھی جس میں اثبات کے ساتھ انکار کا جنم بھی لازمی تھا سو “امندہ” کا انکار اس بچے یا لڑکے کے لئے ایک موہوم کیفیت بن گئی جس کیفیت کو بعد میں’اذیت” کا نام دیا گیا

“امندہ” کا انکار بھی اسی سکے کا دوسرا روپ ہے مگر وہ بچہ یا وہ لڑکا یا وہ مرد یا وہ انسان، وہ جو بھی تھا جسے اریتھون نے جا لیا تھا، چیخنا چاہا تب اریتھون آواز اور زبان بن گیا

اہومی کہتا ہے : “ہمیں کیا معلوم آوازیں اور بولیاں کس کرب اور اذیت کی دَین ہیں! ہم تو اس قدر فراوانی میں ہیں کہ اب جب چاہیں اور جیسی چاہیں صدا کشید کرلیں، نیا لفظ اور تازہ زبان گھڑ لیں!”

دالیدا دریوم اس حصے کے آخری باب میں کہتا ہے : “اریتھون کے اس نویں روپ (چیخ، آواز اور بولیاں) میں جس قدر شدت آتی گئی اتنا بدلاؤ آیا، یہاں تک کہ آنکھ نے آنسو بننا گوارہ کرلیا، پتھر پانی نکال بیٹھے اور بہت سی جامد چیزیں مائع بن کر بہنے لگیں!”

julia rana solicitors

کیا سب کچھ مکمل ہوچکا تھا؟ اریتھون کا یہ سفر دس روپ بن جانے پر کیسے تمام ہوگیا جب کہ اس کے تو گیارہ روپ ہیں؟ اس سے آگے کیا؟ یہ سب وہ سوالات ہیں جن کے جوابات کے لئے ایک بار اہومی نے کہا تھا :
“جب یہاں تک سب کچھ بن چکا یا بنایا جا چکا تھا تب اچھے خیالات کے دوسرے رخ برے خیالات نے، محبت کے دوسرے رخ ڈر اور نفرت کی مدد سے پہلی بار ایک دھات “لوہے”، یا کسی اور دھات کو ہتھیار میں بدل دیا، وہ ہتھیار کیا تھا؟ ایک گولی؟ ایک چاقو؟ مگر جب اس کا پہلا استعمال ہوا تب اریتھون لرز اٹھا اور اس ایک ذرّے جس کا نام کبھی اریتھون سسیارس تھا، اپنے اربوں کھربوں ٹکڑے دھنگ ہوتا دیکھتا رہ گیا، اریتھون فنا ہو رہا تھا، غالبا اس لمحے پہلی بار اسے احساس ہوا ہو کہ اس کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ اس نے اپنے خیالات انسان کو سونپ دئے تھے سو وہ “امندہ” کے قتل پر بکھرتا چلا گیا، اریتھون نے اپنے آخری لمحے میں تیزی سے اپنے سارے حصے جمع کرنا شروع کئے تاکہ وہ پھر سے اپنے بدلاؤ کے بہترین روپ جی سکے، اب کی بار ایک انسان کو نہیں سبھی کو یہ سب کچھ مہیا کرسکے اور دیکھے کون کس طرح جیتا ہے؟ اریتھون ہی خود کو دوبارہ جمع کر سکتا تھا مگر اس صورت میں وہ اپنی ہر کیفیت، ہر خیال اور بدلاؤ اپنے آپ میں کھودیتا، اس نے جانتے بوجھتے بھی اپنے سب حصے جمع کئے مگر اتنا کچھ تخلیق کرلینے پر وہ دوبارہ محض ایک ذرے میں کیسے سمٹ سکتا تھا؟ سو وہ بڑا ہوتا گیا، اتنا بڑا اور اتنا وسیع کے اس نے اپنا اکلاپا کھودیا، وہ سب کچھ اپنے اندر سمیٹتا گیا، اریتھون اپنے آخری بدلاؤ میں جب ایک جگہ جا تھما تو انسان اس ذرے کو بھول چکا تھا جس کا نام کبھی “اریتھون” تھا!”

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply