مستنصر حسین تارڑ میرے پسندیدہ لکھاری رہے ہیں، ان کے سفرنامے میں بڑے شوق سے پڑھتی رہی ہوں ۔بیشک فنی اور ادبی لحاظ سے انکا قد بہت بلند ہے ۔ مگر جوں جوں شعور بڑھا تو اندازہ ہوا کہ ہم غلام کیوں ہیں، ہمارے اعلیٰ پائے کے دانشور بھی internalized colonialism کا شکار ہیں۔
سب سے پہلے تو جیسا کہ صباحت زکریا صاحبہ نے ایک جگہ یہ اہم نکتہ اجاگر کیا کہ ہمارے دانشوران اس ” ہم ” سے کیا مراد لیتے ہیں ۔ جب بھی یہ صیغہ برتا جاتا ہے تو” ہم” سے مراد صرف بے زمین ، مقامیت سے کٹی ہوئی مسلمانیت ہی کیوں ہے ؟
حالانکہ ہماری جڑیں ہندوستان کی سرزمین اور اس دیسی ورثے سے بھی تو جڑی ہیں جسے نوآبادیات نے کاٹنے کی کوشش کی۔ اور اگر انگریز نو آباد کار ایسا نہ کرتا تو کیا آج ہم ہندوستانی قوم ہی نہیں ہو سکتے تھے ؟۔ کیا ہم ہندوستانی مسلمان نہیں تھے ؟
سوال یہ ہے کہ ہمارے دانشور اس حقیقت کو کیوں نظرانداز کرتے ہیں اور کیوں وہ اس “ہم” کو صرف مذہبی فتوحات تک محدود کر دیتے ہیں؟
پھر جیسے تارڑ کا کہنا کہ ہم ماضی کی گٹھڑی ڈھوتے ہیں اور پرانی فتوحات کے قصوں میں زندہ ہیں، دراصل اسی نوآبادیاتی بیانیے کی بازگشت ہے جس نے مقبوضہ قوموں کی تاریخ کو قصہ کہانی اور فرسودہ قرار دیا۔ انگریز آج بھی اپنے سامراج پر فخر کرتے ہیں، انگریز نے اپنی سامراجی سلطنت کے تجربے کو کبھی “شرمندگی” کے طور پر دفن نہیں کیا بلکہ آج تک اس کی یادگاریں، عجائب گھر، نصاب، اور سیاسی بیانیے میں اسے “فخر” کے طور پر برتا جاتا ہے۔
تمام ترقی یافتہ اقوام اپنے ماضی اور روایتوں کو محفوظ رکھتی اور سیلیبریٹ کرتی ہیں لیکن ہمیں اپنے ماضی کی یاد کو کمزوری کہہ کر شرمندہ کیا جاتا ہے۔ نوآبادیاتی قوموں کا ماضی چھینا گیا، ان کی زبانیں، ادارے، علم کی روایتیں دبائی گئیں۔ اس لیے ان کا ماضی کو یاد رکھنا صرف رومان پرستی نہیں بلکہ شناخت کی بازیافت اور مزاحمت کا عمل ہے۔غلامی اور استحصال کے خلاف مزاحمت کی تحریکیں اکثر تاریخی ہیروز، قصوں اور روایات سے طاقت لیتی ہیں۔
پھر تارڑ کی تحریر میں یہ مفروضہ چھپا ہوا ہے کہ ماضی کی عظمت صرف ایک بوجھ ہے اور اس کے ذکر کا مطلب غیر ترقی پسند سوچ ہے۔ یہ بیانیہ خود انگریزی نوآبادیاتی ڈسکورس سے ملتا جلتا ہے، جس نے ہمیشہ مقبوضہ قوموں کی تاریخ اور تہذیبی ورثے کو “فرسودہ”، “قصے کہانیاں”، اور “پسماندگی” کہا تاکہ حالیہ غلامی کو فطری اور مستقبل کو مغربی رہنمائی کا محتاج ثابت کیا جا سکے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ماضی کے قصے کہانیاں ہی وہ بیانیہ فراہم کرتے ہیں جس سے محکوم قومیں “possibility of alternative futures” یعنی متبادل مستقبل تخلیق کرتی ہیں۔
تارڑ کے بقول ہمارے دشمن خیالی ہیں، مگر کیا عالمی مالیاتی ادارے، نیو کالونیل نظام اور ثقافتی یلغار خیالی ہیں؟ یہ بیانیہ دراصل ماضی کی نفی کر کے ہمیں ہمیشہ مغرب کے ترقیاتی ماڈل کا تابع بناتا ہے۔
ایڈورڈ سعید، ہومی بھابھا، اسپِوَک وغیرہ کا کہنا ہے کہ “ماضی کی طرف رجوع” ہمیشہ رجعت پسندی نہیں ہوتی۔ یہ کبھی کبھی نوآبادیاتی غلبے کے خلاف “counter-memory” اور شناخت کی تعمیر کا ہتھیار بنتی ہے۔ اور اس عمل (اپنے ماضی اور روایت کی تحقیر )سے نہ تو “حقیقی ترقی” آتی ہے اور نہ ہی اپنی شناخت کی بحالی، بلکہ ایک cultural vacuum یعنی ثقافتی خلا پیدا ہوتا ہے۔

میری دانست میں مسلہ ماضی ، روایت اور ان سے جڑی شناخت میں نہیں ، بلکہ اس ” ہم ” کو مقامیت سے کاٹ کر ایک ایسے خلا میں دھکیلنا ہے جسکو نو آباد کار طاقتیں اور استماری قوتیں اپنی مرضی سے بھرتی چلی آی ہیں ۔
Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں