بھارت میں آٹھ ماہ کی بچی کا ’ریپ‘

خیال رہے کہ بھارت میں خواتین اور بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات کے اعداد وشمار انتہائی خطرناک تصور اختیار کرچکے ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق جب متاثرہ بچی کے والدین کام کے بعد گھر پہنچے اور زندگی موت سے جنگ لڑتی آٹھ ماہ کی بیٹی کو فوراً   فوراً ہسپتال منتقل کیا جہاں بچی کا تین گھنٹے تک آپریشن ہوا۔

پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق پولیس نے متاثرہ بچی کے 27 سالہ کزن کو حراست میں لے کر مقدمہ درج کرلیا، جس کے تحت جرم ثابت ہونے پر ملزم کو عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

دہلی میں وویمن کمیشن کی سربراہ سواتی مالیوال نے ہسپتال کا دورہ کرنے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کیا کہ ‘بدترین واقعہ پیش آیا ہے’۔

انہوں نے لکھا کہ ‘دارالحکومت میں آٹھ ماہ کی بچی کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا تاہم اب وہ اپنی زندگی کی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے’۔

اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے چائلڈ رائٹس کے مطابق بھارت میں جنسی استحصال کا نشانہ بنے والے ہر تین متاثرین میں ایک کیس کم عمر بچی کا ہوتا ہے۔

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق بھارت میں 2015 میں تقریباً 11 ہزار بچوں کے ساتھ ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے۔

واضح رہے کہ دنیا میں سب سے بڑی جمہوری ریاست کے دعویدار بھارت میں خواتین کا تحفظ تاحال ایک مسئلہ ہے جہاں 16 دسمبر 2012 کو نئی دہلی میں ایک طالبہ کو چلتی بس میں گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا اور وہ بعد ازاں کئی روز تک ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد دم توڑ گئی تھی۔

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک بھارت میں ’ریپ‘ کیسز کی شرح کئی ممالک سے زیادہ ہے، صرف 2015 میں ہی ہندوستان بھر میں ’ریپ‘ کے 34 ہزار سے زائد واقعات رپورٹ کیے گئے تھے جبکہ درج نہ ہو پانے والے واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 2015 میں ریپ کے 34 ہزار 651 کیسز ریکارڈ کیے گئے، تاہم جنسی استحصال کے خلاف مہم چلانے والوں کا کہنا تھا کہ اصل اعداد و شمار اس سے کئی گنا زیادہ ہے اور کئی کیسز بدنامی کے ڈر کی وجہ سے ریکارڈ نہیں ہوتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اعداد و شمار کے مطابق 2015 میں ریاست مدھیا پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں ریپ کے 4 ہزار 500 کیسز رجسٹر ہوئے جو کسی بھی بھارتی ریاست میں ریپ کے رپورٹ ہونے والے سب سے زیادہ کیسز ہیں۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply