ہندوستانی یونیورسٹیوں میں فارین لیگنویجز کے شعبوں میں ایڈمیشن لینے کا رجحان اس تأثر کے تحت پروان چڑھا کہ غیر ملکی زبان سیکھنے سے اچھی ملازمت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ خصوصی طور پر ان طلباء کے لئے جو کسی وجہ سے ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بن سکتے ہیں۔ تین سال کے گریجویشن کے بعد وہ اس کے اہل ہوجاتے تھے کہ کسی اچھی کمپنی میں نوکری حاصل کرلیں۔ بہت سارے بچے مدارس سے نکل کر آئے۔ جرمن، فرنچ، رشین، عربی جیسی زبانیں سیکھیں، اور ٹرانسلیشن اور انٹرپریٹیشن کے فلیڈ میں اپنا کیرئر بنایا، اور بہت اچھا پیسہ کمایا۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ان کی ہائرنگ ہوئی۔ مصنوعی ذہانت کے انقلاب کا سب سے کاری ضرب اسی فیلڈ پر ہوا ہے۔ کمپنیوں نے مشین لرننگ پر کام کرنا شروع کیا، اور دھیرے دھیرے اپنا سارا کام مشینوں کو سونپ دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بس ایک کلک اور پورا کا پورا پیج ٹرانسلیٹ، یہاں تک کہ تصویریں اور دھندلے ٹیکسٹ بھی۔ ترجمے سے لے کر Content Moderation، پروف ریڈنگ، تجزیہ نگاری اور کسٹمر ہینڈلنگ تک، کوئی شعبہ ایسا نہ رہا جو اس کی لپیٹ میں نہ آیا ہو۔ ایک لے دے کر کسٹمر سروس کا شعبہ بچا جہاں انٹرپریٹیشن کے لئے انسان کی ضرورت محسوس ہوئی، اب گوگل کی نئی ایجاد سے وہ بھی ختم۔ اب ڈائرکٹ کال پر ہی آپ کی باتیں ٹرانسلیٹ ہوسکتی ہیں۔ یعنی سامنے والا فرنچ میں گفتگو کرے اور آپ انگلش میں، ایک کلک دبائیں اور آپ کی باتیں بھی مقابل کو فرنچ میں سنائی دینے لگے۔ سو نتیجہ یہ ہوا کہ پچھلے دو سال سے لوگ اپنی جاب کھوتے چلے جارہے ہیں۔ یکے بعد دیگرے کمپنیاں Lay off کا اعلان کر رہی ہیں۔
ظاہر سی بات ہے جب ان کا کام مشین کے ذریعہ ہوسکتا ہے تو Human Support کی کیا ضرورت ہے؟ کتنے ایسے لوگ تھے جو ایک کمپنی میں دس دس پندرہ پندرہ سال سے اپنی خدمات انجام دے رہے تھے، اور وہ راتوں رات فارغ کردئیے گئے۔ خود ہمارے کتنے ساتھی اس بلا کا شکار ہوئے۔ اب حال یہ ہے کہ کہیں کوئی جاب ہی نہیں، یا ہے بھی تو معاوضہ بس اسی قدر ہے کہ مہینہ بھی مشکل سے گزرے۔
ان سب چیزوں کو دیکھتے ہوئے ایک سوال بہت شدت سے ذہن میں اٹھتا ہے کہ مستقبل میں ان فارین لینگویجز نامی کورسوں کا کیا فائدہ ہوگا؟ لوگ آخر ان شعبوں میں کیوں ایڈمیشن لیں گے جب مارکیٹ میں سپلائی ہی نہیں ہوگی؟ کیا یونیورسٹیوں کو اب اپنے نصاب پر پھر سے غور کرنے کی ضرورت ہے، اور مارکیٹ کے مطابق اسے مزید ریلیونٹ بنانے کی ضرورت ہے؟ کیونکہ اب صرف زبان کا جاننا کافی نہیں رہا؟ یا پھر سرے سے اس فیلڈ میں جانا ہی نہیں چاہیے؟

بشکریہ فیس بک وال
Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں