• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان میں ڈاکٹروں کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں /ڈاکٹر محمد شافع صابر

پاکستان میں ڈاکٹروں کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں /ڈاکٹر محمد شافع صابر

فون کی گھنٹی بجی، میں نام دیکھ کر خوش ہو گیا۔ فیصل آباد سے ایک سینئر کا فون تھا۔ میں نے فون اٹھایا، پھر ہماری بات چیت شروع ہوئی۔ بولے، پارٹ ٹو کا تحریری امتحان بھی پاس ہو گیا ہے۔ اب viva جلد دینا ہے۔۔ میں نے کہا گڈ ہے۔ بولے کیا گڈ ہے، پی پی ایس سی کی سیٹ ہے نہیں، ایک قسم کی بیروزگاری ہی ہے۔
اگر تیرا کوئی جاننے والا ہے، تو میرے لیے پرائیویٹ میڈیکل آفیسر جاب کی بات چلا۔ جب میں نے ایک دو جاننے والوں سے کہا، دو دن بعد جواب موصول ہوا کہ آجکل ریٹ چل رہا ہے پنتیس ہزار روپے. انکی ٹریننگ ختم ہو چکی ہے تو ہم چالیس کر دیتے، اس سے زیادہ نہیں ۔ آگے سے یہ بھی کہا گیا کہ جلدی بتاؤ کہ ڈاکٹر صاحب کا کیا ارادہ ہے۔کیونکہ ہمارے پاس امیدواروں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ اللہ اکبر ۔
ایک بندہ جسکی پوسٹ گریجویٹ ٹرینگ مکمل ہو، بس کنسلٹنٹ بننے کی راہ میں ایک viva حائل ہو۔ اسکو چالیس ہزار پر ایم آو کی جاب مل رہی ہو تو آپ حالات کی سنگینی کا اندازہ کر سکتے ہیں۔
آجکل ینگ ڈاکٹرز بس ایک ہی خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ بس کسی طریقے ٹریننگ مل جائے تو آگے سکون ہی سکون ہے، یہ خوش فہمی تب غلط فہمی میں تبدیل ہو جاتی ہے، جب آپکی ٹریننگ ختم ہو گئی ہو، پارٹ ٹو بھی پاس ہو، لیکن ہاتھ میں کوئی جاب نا ہو۔ تب ایف سی پی ایس،ایم ایس / ایم ڈی کی کوئی ویلیو نہیں رہتی۔ پنجاب میں ایسے کتنے ڈاکٹرز موجود ہیں، جنکی ٹریننگ ختم ہو چکی لیکن جاب نہیں، کچھ کنسلٹنٹ بن کر بھی بیروزگار ہیں کیونکہ آگے جاب ہے ہی نہیں، پرائیویٹ سیٹ اپ میں نئے کنسلٹنٹ کے پاس لوگ جلد آتے بھی نہیں ۔
ہر طرف مایوسی ہی نظر آ رہی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ٹریننگ میں ہی بیرون ملک جانے کی تیاری کریں، سوال یہ ہے کہ ایک پی جی آر کی تنخواہ سے ایک عام ڈاکٹر باہر کے امتحانات کی فیس کیسے بھرے؟
اس افراتفری کی اہم وجہ وطن عزیز میں پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی بھرمار ہے۔ ہر گلی محلے میں ایک میڈیکل کالج کھلا ہوا ہے۔ جنکی ٹریننگ کے لئے ہسپتال تو موجود ہے لیکن ان میں مریض نا ہونے کے برابر ہیں۔ اب ہماری بدقسمتی سمجھیے کہ وہی ہسپتال جن مریض ہیں ہی بہت کم، انہیں کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان (سی پی ایس پی) نے ٹریننگ کے کے recognize کیا ہوا ہے۔ اب ڈاکٹر جاب نا ہونے کی وجہ سے،فوراً پارٹ ون نکال کر ایسے ہسپتالوں میں جلد از جلد پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ حاصل کر لیتے بھی ( وہ بھی تگڑی سفارش اور بنا کسی معاوضے کے). چار پانچ سال بعد کنسلٹنٹ بنکر، دوبارہ فیلڈ میں آ جاتے ہیں اور چل سو چل۔ کمپٹیشن کا ایک ایسا سائیکل شروع ہو جاتا ہے،جس سے چھٹکارا ممکن نہیں ۔
ٹرینگ حاصل کرنا مشکل ترین ہے، ٹرینگ کر کے کامیاب کنسلٹنٹ بننا اس سے بھی کھٹن مرحلہ ہے۔ کسی کے پاس اس دلدل سے نکلنے کا علاج نہیں ۔ فری ٹرینگ تو لوگ بادل نخواستہ کر لیتے ہیں کہ بعد میں عیاشی ماریں گے، پتا تب چلتا ہے کہ ٹرینگ مکمل کر کے بھی وہ حاصل نہیں ہو پاتا، جسکے لیے اتنے پاپڑ بیلے تھے۔
حالات اس قدر خراب ہیں کہ کنسلٹنٹ بننے کے بعد،مریض بنانا آسان ہیں۔ کوئی بھی اچھا پرائیویٹ ہسپتال فریش کنسلٹنٹ رکھنے کو تیار ہی نہیں،وہ انہیں او پی ڈی کرنے کے لئے سلاٹ دینے کو بھی تیار نہیں ۔ جبکہ مریض بھی فریش کنسلٹنٹ کے پاس جانے سے ہچکچاتا ہے ،تو اب ایک عام کنسلٹنٹ بیچارے کرے تو کرے کیا؟؟
تو اگر آپ پاکستان میں ڈاکٹر ہیں یا پھر کنسلٹنٹ، ہر مرحلے پر آپکو سخت محنت کرنی ہو گی وگرنہ آپ اس ریس میں بہت پیچھے رہ جائیں گے کیونکہ مقابلہ اتنا سخت ہے کہ اگر آپ اپنی جگہ چھوڑیں گے تو سو لوگ آپ کی جگہ لینے کو تیار ہوں گے ۔
دُم: اسکا آسان حل یہ ہے کہ ٹریننگ کے دوران ہی اپنا کلینک بنائیں ،مہینے میں ایک دو دفعہ آو پی ڈی کرنے جائیں اور اپنے مریض بنائیں،تاکہ ٹریننگ ختم ہونے کے بعد آپکو زیرو سے شروع نا کرنا پڑے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply