بصارت اور بصیرت کا دھوکا ۔ محمد فیصل ۔ حصہ اول

ایک چیز نظر بندی بڑی مشہور ہے… سامنے چیز موجود ہوتی ہے مگر نظر نہیں آتی… اس کی مثال دیکھنا ہو تو ڈچ نژاد مصور ایچر (Escher) کی یہ پینٹنگز دیکھ لیجیے…!

پہلی تصویر جس کا نام ہے اکیس گھڑسوار، اس میں اگر ہم میں سے کچھ لوگ پہلی نظر میں ایک طرف جاتے ہوئے گھوڑے دیکھتے ہیں تو کچھ دوسری طرف جاتے ہوئے… جب کہ کچھ پہلی ہی نظر میں دونوں طرح کے گھوڑے دیکھ لیتے ہیں…

f1

درمیانی تصویر میں مختلف جہتوں میں جاتی ہوئ سیڑھیاں نظر آ رہی ہیں… جن پر لوگ بھی موجود ہیں۔ مختلف جہتوں میں جانےوالے لوگوں کو ایک ہی فریم میں موجود چیزیں ایک جیسی نہیں نظر آئیں گی… یہ تو ہم اندازہ کر سکتے ہیں، لیکن مشکل بات یہ ہوتی ہے کہ ہم ایک جہت کی سیڑھیاں چلنے کے بعد اگر دوسری جہت کی سیڑھی پہ قدم رکھیں تو ہمیں کتنا وقت لگے گا کہ ہم پچھلی جہت کے سمتی اثر سے باہر نکل پائیں اور اگر ہمیں دوسری جہت کی سمت کی سیڑھیاں چلنے کا طبعی موقع نہ مل پائے تو کیا ہم اتنی اہلیت رکھتے ہیں کہ محض اپنے تخیل سے اس دوسری جہت میں جاکر اسی فریم کو اس جہت کے حساب سے دیکھ سکیں؟

f2

یہ دراصل تناظر اور تخیل کا مسئلہ ہے… ہم میں سے ہر ایک الگ الگ تناظر میں کسی بھی واقعے، کسی بھی شخص یا کسی بھی فعل کو دیکھتا ہے… ہم اکثر لوگوں سے سنتے رہتے ہیں:

’’ آپ کے لیے صحیح ہو سکتا ہے، میرے لیے نہیں!‘‘

’’خوبصورتی دیکھنے والے کی نظر میں ہوتی ہے!‘‘

جی ہاں ہم میں سے ہر شخص کی بینائی تو ایک ہی ہوتی ہے مگر ’’دکھائی‘‘ ہر ایک کو اپنے مخصوص تجربات، مشاہدات اور علم کے مطابق ہی دیتا ہے… مگر وہ ’’غیر جانبداری‘‘ کا دعویٰ کرتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے!

سو جو آپ کے لیے سچ ہے، وہ سب کے لیے سچ نہیں ہو سکتا…جب تک سچ آفاقی یعنی مطلق نہ ہو… مثال کے طور پر سورج سے روشنی کا پھوٹنا ایک آفاقی سچ ہے جب کہ سورج کا مشرق سے طلوع ہونا نگاہوں کا سچ تو ہے مگر درحقیقت سچ نہیں…یعنی اسے ہم زمینی سچ کہہ سکتے ہیں!

قصہ مختصر مطلق سچائی کا تو وجود ہے… لیکن اس بات کی اہلیت بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے کہ اسے پاسکیں… بلکہ ہمارے خیال میں یہ اہلیت کی بات ہی نہیں… یہ تو محض عطا ہوتی ہے ! دنیا کے لوگوں کے بہرحال اپنے سچ ہوتے ہیں جن میں کوئی مضائقہ بھی نہیں کہ بہرحال ہم حواس مختصر اور محدود رکھتے ہیں… بس ہونا یہ چاہیے کہ ہم اپنے سچ دوسروں پر نافذ نہ کریں… البتہ بتانے اور محبت سے آگاہ کرنے میں کوئی حرج نہیں جسے مکالمہ بھی کہتے ہیں۔

دانشوروں کا یہ قول کہ غیر جانبدار نظرایک امر محال ہے، واقعی ٹھیک ہے… کیوں کہ غیر جانبدار ہونے کے لیے انسان کو ہر قسم کےذہنی اور فکری تعصبات سے آزاد ہو کر سوچنا پڑتا ہے مگر یہ ناممکن کی حد تک مشکل ہے… یہ تب ہی ممکن ہے کہ آدمی خود اپنی ذات کو بھی اپنے سے الگ کر کے سوچے! یہی وجہ ہے کہ جب ہم دوسروں کے کسی فعل کے حسن و قبح کا فیصلہ کرتے ہیں تو انسانی فطرت کے عین مطابق اپنے علم، اپنے ماحول، اپنی روایات و ثقافت کی روشنی میں فیصلہ کرتے ہیں… اور یہ کوئی بری بات بھی نہیں… کہ یہی انسانی فطرت ہے مسئلہ مگر تب بنتا ہے جب ہم اپنی نگاہ میں کسی برے فعل کے فاعل کو بھی برا سمجھنا لازم سمجھ لیتے ہیں…جو ہر گز لازم نہیں!

یاد رکھیں، آپ دوسروں کی سوچ کو، روایات و ثقافت کو اپنے معیار سے جانچ ہی نہیں سکتے… آپ کے نزدیک، آپ کے اپنے معیارات کی روشنی میں، ایک بالکل الگ ہی ماحول، ثقافت اور اعتقادات رکھنے والا آدمی بے حیا ہو سکتا ہے، بے غیرت ہو سکتا ہے اور نجانے کیا کیا ہو سکتا ہے… بالکل اسی طرح اُس کے نزدیک، اُس کے معیارات کی روشنی میں آپ تنگ نظر، جاہل، غبی وغیرہ ہو سکتے ہیں۔

دنیا کی مختلف ثقافتوں کا ایک تقابلی جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ کس طرح ایک ثقافت میں رائج العام چیز دوسری ثقافت میں اپنے ماحول اور ضروریات کے حساب سے ایک بالکل مختلف تناظر میں لی جاتی ہے۔

ایک دلچسپ مثال اسکیمو ہیں جو دنیا کے سرد ترین مقام آرکٹک یعنی بحر منجمد شمالی( گرین لینڈ، آئس لینڈ وغیرہ) میں آباد ہیں…یہ سارا سال برف سے ڈھکے رہنا والا وہ مشکل مقام ہے جہاں میلوں آبادی کے آثار نہیں ہوتے… اسکیمو برف کے بنے ہوئے گھروں میں رہتے ہیں جنہیں اگلو کہا جاتا ہے… ان کے ہاں مہمان نوازی کی صدیوں پرانی روایت ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی مسافر بھٹکتا ہوا پہنچ جائے تو وہ اسے گرم کمرہ، کھانا پینا اور وقت گذارنے کے لیے اپنی بیوی بھی دیتے ہیں۔ اب مہمان مسافر کی خاطر مدارات میں یہ مبالغہ کرنا ان کی روایت ہے، جو ہمارے نزدیک ہرگز قابل قبول نہیں کہ یہ مسافر کا اکرام نہیں بلکہ بے غیرتی کی انتہا ہے… مگر وہ اپنی صدیوں سے قائم اس روایت پر فخر کرتے ہیں!

اسی طرح ایک اور مثال چہرے کا پردہ ہے…ہمارے ہاں خواتین کے پردے کے حوالے سے خاصی بحث ہوتی ہے… دنیا کو بھی مسلم خواتین کے حجاب و پردے کے بارے میں ہم مسلمانوں کی حساسیت کے بارے میں بخوبی پتہ ہے، مگر کیا آپ یہ دلچسپ بات جانتے ہیں کہ افریقہ میں ایک قبیلہ ایسا بھی ہے، جہاں عورت نہیں مرد پردہ کرتے ہیں!اور ان کے نزدیک مردوں کا بغیر پردے کے باہر نکلنا بے شرمی کی بات ہے۔۔۔۔ جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

(حوالہ:Veiled Men,Red Tents and Black Mountains)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بصارت اور بصیرت کا دھوکا ۔ محمد فیصل ۔ حصہ اول

Leave a Reply to Syedsaif Cancel reply