• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • غامدی صاحب کے نکتہ آفرین ناقدین ۔ ڈاکٹر عرفان شہزاد

غامدی صاحب کے نکتہ آفرین ناقدین ۔ ڈاکٹر عرفان شہزاد

غامدی صاحب کے ناقدین کی ایک قسم تو کم ذہن ناقص تعلیمی استعداد کے حامل سطحی اپروچ رکھنے والے افراد کی ہے جن کی تجزیاتی قوت اپنی کم سمجھی سے سمجھے ہوئے نتائج کو غامدی صاحب کے سر ڈال کر دہائیاں دینے تک محدود ہے۔ ان کی غیر معیاری زبان اور نا شائستگی ان کی پہچان ہے۔ ان پر بات کرنا عبث ہے۔ ایسے لوگ صاحب ہدفِ تنقید کے رفعِ درجات کا سبب ہوتے ہیں۔ ان کا حال قرآن کی رو کچھ ان لوگوں جیسا ہے کہ قرآن جب سنایا جاتا تھا تو شور مچانا شروع کر دیا کرتے تھے اس بھروسے پر کہ شاید اس طرح وہ غالب آ جائیں گے۔

البتہ جو ذہین اور اہل علم ناقدین ہیں تفہیمِ غامدی میں ان کے قصورِ فہم کی بنیادی وجہ کچھ اور ہے۔ دراصل غامدی صاحب کا امتیاز یہ ہے کہ وہ علم کی کٹھن گھاٹیوں سے گزر کر دین کی بڑی سادہ تعبیر کرنے اور دینی مسائل کو سادہ انداز میں بیان کرنے پر قادر ہیں، نیز علمی اصطلاحات کو  وہ عموماً استعمال نہیں کرتے۔ میں نے ایک دفعہ ایک جگہ لکھا کیا تھا کہ حقیقی محقق وہ ہوتا ہے کہ جو علم کی کٹھنائیوں سے گزر کر کسی بھی مسئلے کے سادہ حل تک پہنچ جائے۔ مشکل مسائل کا سادہ حل تلاش کر لینا علم کی دنیا کا سب سے زیادہ مشکل کام ہے اور یہ خدا کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں۔ اور غامدی صاحب یہی کرتے ہیں۔

لیکن ہوا یہ کہ مشکل پسند ذہین لوگوں کو یہ انداز بھاتا نہیں۔ علمی اصطلاحات کا حجاب ان کو یہ باور کراتا ہے کہ غامدی صاحب کی بات اتنی بھی علمی قد و قیمت کی حامل نہیں ہوگی جتنی  کہ سمجھی جارہی ہے۔ وہ مغز کو چھوڑ کر چھلکے کی تہیں کھولنے اور چڑھانے میں لگ جاتے ہیں۔ پھر ان کی ذہانت غامدی صاحب کی سادہ اور عام فہم باتوں میں امکانات کی ایک دنیا پیدا کر لیتی ہے۔ پھر ان امکانات میں اپنے تیئں تضادات بھی برآمد کر لیتی ہے، اور پھر ان تضادات کو وہ غامدی صاحب کی فکر کے تضادات کی صورت میں پیش کر دیتے ہیں۔ درحقیقت یہ تضادات غامدی صاحب کے موقف میں نہیں بلکہ ان کے اپنے ذہن میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔  یہ افراد غامدی صاحب کو اپنی شرائط اور اپنی علمی شاکلہ میں مقید کر کے سمجھنا چاہتے ہیں۔ بالکل اس شخص کی طرح جو ایک بار میرے پاس عربی  گرامر سیکھنے آیا۔ اس کا اصرار تھا کہ اسے عربی گرامر انگریزی کے Tenses  کی طرز پر سکھائی جائے۔ اسے بہتیرا بتایا گیا کہ عربی گرامر کا اپنا ایک نظام ہے۔ اسے پہلے اس نظام کو سمجھنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہونا ہوگا۔ انگریزی Tensea  والا شاکلہ یہاں نہیں چل سکتا۔ لیکن وہ بضد رہا کہ مجھے سمجھنا ہے تو Tenses کے طریقے پر ہی سمجھنا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال غامدی صاحب کے ان ناقدین کا ہے۔ ہمیں توقع  تھی کہ ان ذہین اہل علم کی علمی تنقیدوں سے ہم مزید کچھ سیکھ سکیں گے،  مگر افسوس کہ یہ تنقیدات غامدی صاحب کے موقف کو سمجھنے سے زیادہ اپنے ذہنی شاکلہ اور اس سے پیدا ہونے والے امکانات کے گرد گردش کرتی ہیں۔ ان میں ہمارے سیکھنے کے لیے عموماً کچھ بھی نہیں ہوتا۔

فکر ِغامدی کے  “مرتدین” کا بھی یہی مسئلہ ہے   آپ ان سب حضرات کے اسلوب دیکھ سکتے ہیں   مشکل پسندی ان کا مشترکہ وصف ہے۔ فلسفہ سے اشتغال ان کی  ایک اور مشترکہ خصوصیت ہے۔ ان کے اشکالات اور اعتراضات  کی وجہ بھی اپنی ذہانت کے گھوڑوں کے دوڑنے کے لیے آماج گاہ کی تلاش ہے جو فکر غامدی کی سادہ فہمی کے میدان میں ان کو مل نہیں پا رہی تھی۔ دراصل اس سادہ فہمی تک پہنچنے میں جو عرق ریزی ہوئی علم، فقہ و فلسفے کے حجابات ہٹانے میں جو ذہنی مشقتیں کی گئی اس کا ادرک شاید یہ نہیں کر سکے۔ یہ دوبارہ دریاؤں میں غوطہ زن ہونا چاہتے تھے بلکہ غوطہ زن رہنا چاہتے تھے۔ فلسفے کو اصل دلچسپی سوال سے ہوتی ہے جواب سے نہیں۔ یہ پھر سے چھلکوں میں الجھ کر رہ گئے، مغز سے انہیں سروکار نہیں۔

غامدی صاحب کی فکر خطا سے پاک ہونے کا دعوی کسی نے نہیں کیا اور نہ کوئی کر سکتا ہے۔  غامدی صاحب کی فکر اور نتائج فکر پر تنقید جب ان کےاصولِ فکر کی روشنی میں ہوگی اور ان کے اصولِ فکر کے درست فہم پر ہوگی، نہ کہ اپنی غلط فہمی کو غامدی صاحب کے نام لگا کر کی جائے گی، تو امید ہے کہ ہمیں کچھ سیکھنے کو ملے گا۔

بہت دیر سے ہم کسی معیاری تنقید کے انتظار میں  ہیں۔ مایوسی کفر ہے، ہمیں امید رکھنی چاہیے  کہ کبھی نہ کبھی کوئی معیاری تنقید ضرور سامنے  آئے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ذرا نم ہوتا تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”غامدی صاحب کے نکتہ آفرین ناقدین ۔ ڈاکٹر عرفان شہزاد

  1. I was expecting something worthwile from a PHD Dr… but regretfully I didn’t convinced. Whatever you are saying is baseless and without any references. It will be appropriate, if you could present some refrences form such critics whom you are talking about that they are critizing Ghamidi Sb without ;understanding’him..! How you can say that… wiithout giving any reference of Article, Writer, or Critical Point mentioned by them..?

    1. i came from social media, and my audience are supposed to be of social media, that is why you can see the comments that they understood it very well, if you have a glance at the the critiques on Ghamidi Sahib you will confirm my postulation

  2. ایک اور بات یہ کہ غامدی صاحب پر تنقید زیادہ تر پارٹ ٹائم علما کر رہے ہیں – ضرورت ہے کہ یہ کام وہ کریں جن کا اوڑھنا بچھونا غامدی صاحب کی طرح صرف دین ہو جیسے مولانا تقی عثمانی صاحب ، مولانا زاہد الراشدی صاحب وغیرھم

Leave a Reply to irfan Shahzad Cancel reply