مدیرِ مجہول، ڈاکٹر ڈھنکنا اور ڈان کیہوتے۔۔۔احمد رضوان

یہ ان قرنوں کی بات ہے جب پاکستان میں ٹی وی بلیک اینڈ وائٹ اور بیوی بلیک، وائٹ یاگندمی ہر رنگ میں دستیاب ہوتی تھی، بھلے پیا من بھائے نہ بھائےمگر گھر والوں کو پسند آجائے۔گھر گھر اس ایڈیٹ باکس جسے ٹی وی کہتے ہیں کی رسائی ابھی نہیں ہوئی تھی ،منڈوے جاکر فلمیں دیکھنا معیوب اور معتوب ٹھہرایاجاتا تھا کم از کم شرفا ٔ میں۔ محلے کے جس گھر میں ٹیلیفون اور ٹی وی ہوتا تھا وہ گھر وی آئی پی کا درجہ خود بخود اختیار کر لیتا تھا اور وجہ اظہر من الشمس تھی کہ بوقت ضرورت کسی ہنگام میں یہ ہاتف ہی کام آتا تھا جو اکثر خیر کی خبر نہیں ہوتی تھی۔ یا شام کو پروانہ وار اپنے کسی پسندیدہ ڈرامے کو دیکھنے کے لئے صحن میں عورتوں اور بچوں کا جمگھٹا لگا ہوتا تھا اور جو بچہ بھی آواز نکالتا یا شور کرتا پایا جاتا ،کان اینٹھ کر اسے اٹھایا جاتا اور گھر سے باہر پھنکوایا جاتا تھا۔
سبب آج ان پرانی یادوں کو کھدیڑنے اور ادھیڑنے کا یوں بنا کہ حالیہ دنوں کے چند واقعات کی وجہ سے ماضی کے کچھ یادگار کردار ذہن کی اسکرین پر ابھر آئے۔ کیا کیا نادر الوجود ہیرے(چیف جسٹس والےنہیں) جیسے لوگ تھے جو اپنی جان دار اور شاندار فنکاری و اداکاری کی وجہ سے سب کے چہروں پر مسکان سجا گئے۔ان کو یاد کرکے دل آج بھی وفورِ محبت سے بھر جاتا ہے۔اگر آپ کو موجودہ دور میں ان کرداروں میں کسی کی جھلک نظر آئے توچونکیے گا مت کہ یہ مشابہت اتفاقیہ نہیں ہوگی ۔زمانہ اور وقت بدلتا ہے مگراوقات نہیں بدلتی اور کردار بھی ہمیشہ وہی رہتے ہیں ، بس کسی نئے نام اور مناسب دام پر ہرپھر کر آپ کے سامنے آجاتے ہیں۔

ستر کی دھائی میں لاہور ٹی وی اسٹیشن پر ڈرامہ پروڈیوسروں کا طوطی بولتا تھا جن میں سے ایک کنور آفتاب احمد بھی تھے۔ان کی پیش کردہ ڈرامہ سیریل “ایک حقیقت ایک افسانہ ” میں نثار قادری نےاخبار کے ایک مدیر مسئول کا کردار ادا کیا تھا جس کی وجہ سے وہ مقبولیت کی نئی بلندیوں پر جاپہنچے تھے۔ وہ کردار ایک ایسے “مدیرِ مجہول” معاف کیجئے “مسئول” کا تھا جس  کے دو ڈائیلاگ بہت مقبول ہوئے تھے۔ ایک تو “وقت کم ہے اور مقابلہ سخت” اور دوسرا “ماچس ہے آپ کے پاس؟” چاچا جی مستنصر حسین تارڑ بھی اس میں ایک رپورٹر “امجد” کا کردار ادا کیا کرتے تھے۔ اپنی مخصوص ہئیت کذائی اور حلیے کی وجہ سے مدیر ایک ایسے “معنک اور ہونق” کردار کے طور پر دکھایا گیا تھا جو چین اسموکر ہونے کے ساتھ ساتھ غائب الدماغ بھی تھا اور ہر وقت بنا سلگائے سگریٹ ہاتھ میں پکڑے یا ہونٹوں میں دبائے موٹے موٹے محدب شیشوں میں سے جھانکتے ہوئےپوچھتا تھا ، ماچس ہے آپ کے پاس؟ تحقیق، تفتیش اور تدقیق، ان کو چھو کر بھی نہ گذری تھی مگر بزعم خود اپنے آپ کو بڑی توپ سمجھتے تھے۔ اس مدیر مجہول کو بھی بیانیہ، بیان اور عنوان بدلنے کا ہوکا تھا اگرچہ بنیان بدلے مدت بیت چکی تھی اور اس کی بوباس سے اچھا بھلا انسان بن باس لینے کا سوچنا شروع کردیتا تھا۔ بلکہ یہ بدبو کئی بار باتوں میں بھی در آتی اور کئی اپنے بھی ناراض ہو جاتے۔ غصہ اور عینک ناک کی پھننگ پر ہر وقت دھرے رہتے اور کسی بھی ہلکی سی چنگاری کےمنتظر رہتے کہ موقع ملتے ہی بھک سے دماغ کا فیوزاڑ جاتا ۔خبر کیا ہے ، کس نے بھیجی ہے ،جھوٹی ہے یا سچی ،مستند ہے یا یونہی گھڑی گئی ہے، سیریس ہے یا بلیک کامیڈی، اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا تھا۔ اولین مقصد بس اسے چھاپنا ہوتا تھا کچھ “پخ لگا کر” اور اگر خبر صحیح نکل آتی تو بلے بلے، اگر غلط بھی ہوگئی تو سانپ تو نکل گیا۔ ویسے بھی نوسکھیوں کی ژاژاخائی کو خاطر میں کیا لانا۔

کہانی کو تھوڑا فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں اور اسّی کی دھائی میں چلتے ہیں کیونکہ تب تک وی سی آر کی آمد آمد تھی اور دنیا فارورڈ اور ریوائنڈ جیسے فنکشنوں اور الفاظ سے آشنا ہو کر “گھر گھر سنیما” کی طرف بڑھ رہی تھی۔ محلے میں اوسطاً  ٹی وی آنے کی رفتار کافی زور پکڑ چکی تھی اور دنیا بھی خواب کلر میں دیکھنے اور دکھانے لگی تھی ۔انہی دنوں منو بھائی مرحوم( مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آرہا ہے) نے “سونا چاندی” کے نام سے ایک پنجاب کے عام کرداروں کی کہانی لکھ کر اپنے آپ کو امر کر لیا ۔شیبا حسن، حامد رانا ، منیر ظریف، محسن رضوی، عرفان ہاشمی، غیور اختر جیسے کئی اداکار اس ڈرامے کی وجہ سے شہرت کے نئے پائیدانوں پر چڑھ گئے ۔ ہر کردار کسی نگینے کی طرح فٹ اور ہٹ۔ دیہی اور شہری معاشرے میں جو اٹھا پٹخ جاری تھی اور غمِ روزگار دیہاتوں سے شہر میں لوگوں کو آنے پر مجبور کر رہا تھا اس موضوع پر بہت عمدہ پیشکش تھی۔ اس میں ایک کردار محسن رضوی مرحوم نے “ڈاکٹر ڈھنکنا” کے مشہور نام سے کیا تھا۔ مرنجان مرنج ڈاکٹر جس سے ذیادہ موٹی اس کی سرنج تھی ۔یہ مختصر کردار انہیں ایک ایسی شناخت دے گیا جو تاعمر ان کے ساتھ ساتھ رہی۔ اگر آپ نے اس ڈرامے میں ان کا یہ کردار دیکھا ہوا ہے تو آپ بھی زیر لب متبسم ہوگئے ہوں گے اب تک۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ ایک شادی شدہ عورت ہے جو ایک نفسیاتی عارضے ( kleptomania) کلیپٹومینیا کا شکار ہوتی ہے ۔اس عارضے میں مبتلا لوگ کسی غیر اہم چیز کو شوقیہ چرانے لگتے ہیں ۔ تو یہ کردار جب بھی ڈاکٹر انہیں دیکھنے کے لئے آتا ہے تو اس سے نظریں بچا کر قلم یا تھرمامیٹر کا ڈھکن پار کر دیتی ہے اور ڈاکٹر بیچارے ادھر ادھر اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک جاتے ہیں۔ چاندی (شیبا حسن ) ان کا نام ہی ڈاکٹر ڈھنکنا رکھ دیتی ہے ۔ ایسے ہی کچھ ڈاکٹر آپ کو اپنے اردگرد نظر دوڑانے پر نظر آجائیں گے جو “کاتی اور لے دوڑی” کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں اور ہر آوازے پر دوڑ پڑتے ہیں اور ساتھ ساتھ شور بھی مچاتے جاتے ہیں پکڑو پکڑو کان لے گیا، مگر اتنی تکلیف نہیں کرتے کہ ہاتھ بڑھا کر کان ہی چیک کرلیں ۔چونکہ یہ کانوں کے کچے ہوتے ہیں اس لئے ہر اڑتی افواہ، وبا اور تحریر پر فوراَََ ایمان لے آتے ہیں۔ بلند نگاہی اور باصری حس اتنی تیزہوتی ہےکہ خالی پر کو دیکھ کر پورا ککڑ بنا لیتے ہیں بلکہ اڑتی چڑیا کو دیکھ کر اس کے کردار اور افعال بد کی مکمل ہسٹری کھول کر بیان کردیتے ہیں۔ جہاں تک ان کی حس شامہ کا تعلق ہے تو اس کی وجہ سے اکثر شامت ان کے گھر کا رخ کرتی رہتی ہے ۔اس پیرانہ سال کی طرح جسے ڈاکٹر نے مرور ایام، جنسی تعلق کو بکرے کی طرح صرف سونگھنے تک ہی محدود کردیا تھا۔ ان کے ورود مسعود کا شاہد کوئی ہو نہ ہو یہ وجیح ہوں نہ ہوں مگر “مجاہدے کے زور پر” سب سے اپنی بات منوا لینے کا ہنر خوب جانتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان سب کرداروں کو دیکھ کر نجانے کیوں مجھے بار بار ڈان کیہوتے آف لا مانچا( Don Quixote‏
Novel by Miguel de Cervantes)بار بار یاد آرہا ہے۔ کئی دوست معصومیت میں ڈان کے کھوتے بھی پڑھ لیتے ہیں۔ یہ لازوال ناول اگر آپ نے پڑھا ہو یا اگر کم از کم فلم ہی دیکھی ہو تو آپ کو ڈان کیہوتے جیسے انمول ہیرے اپنے اردگرد ضرورنظر آئیں گے۔ بلکہ مدیر مجہول کے اردگرد ہی نظر آ جائیں گے، کوشش کرکے دیکھیے۔ایک ایسا کردار جو کتابیں پڑھ پڑھ کر عظمت رفتہ کے خبط میں مبتلا ہو جاتا ہے اور بزعم خویش اپنے آپ کو سچ مچ کا “نائٹ” سمجھ بیٹھتا ہےاور اپنے گھوڑے پر سوارکیل کانٹوں سے لیس سماج سدھار کی مہم پر نکل کھڑا ہوتا ہے ۔ہر اڑتا تیر بغل میں لینا، شیخی مارنا، آڑھی ترچھی لائینیں کھینچ کر فرضی مملکت کے نقشے بنانا اور اپنا مزاح بنوانا بھی اسکی نشانی تھی ۔ اس سفر میں اس کو ایک ٹٹو پر سوار سانچو پانزا (Sancho Panza) نامی مصاحب مل جاتا ہے جسے وہ اپنا Squire مقرر کر دیتا ہے اس وعدہ فردا پر کہ جب مجھے سلطنت ملے گی تو تمہیں بھی گورنر مقرر کر دوں گا ۔ہر مہم جوئی میں دونوں خوب اچھی طرح دھنائی کروا کے واپس “آنے والی تھاں” پر پہنچ جاتے ہیں ۔ڈان کے کھوتے، سوری ڈان کہیوتے آج کے دور میں خرخوری کرکے ویسی ہی حرکات کا ارتکاب کرتے ہوئے پائے جا رہے ہیں اور زرا بھی حیرانی کی بات نہیں کہ ویسے ہی انجام سے بھی دوچار ہوتے جا رہے ہیں۔

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 7 تبصرے برائے تحریر ”مدیرِ مجہول، ڈاکٹر ڈھنکنا اور ڈان کیہوتے۔۔۔احمد رضوان

  1. اچھا انداز بیاں ہے رضوان صاحب انتہائی نفیس انداز میں جو اپ نے بہو کو سنائی ہیں پتہ تو اسے چل گیا ہو گا کہ چوٹ بھی لگی ہے اور پتہ بھی نہیں چلا
    زبردست

  2. اب اس تحریر کی کیا تعریف کریں جس میں ایک ساتھ ماضی کا سنہری دور ، حالیہ ایشو اور مدیر انکل مجبور سوری مجہول کی کاروائی کا جواب دیا گیا ھو۔ مدیر مجہول صاحب آل رونڈر ہیں جنھوں نے بال ٹمپرنگ کی کوشش کی لیکن انکوائری کے دوران کیمرے میں آ گئے

  3. السلام و علیکم بھائی جی
    مزا آیا تحریر پڑھ کر۔ اللہ کرے عہد حاضر کے مدیر اور ’’امجد‘‘ اپنی بنیان بدلنا شروع کر دیں۔
    آپ نے سچ کہا ۔۔ سونا چاندی ۔ نے ہمارے دیہی کلچر کو جس طرح اجاگر کیا۔ وہ صرف منو بھائی کا ہی خاصہ تھا۔ ویسے شہری مصروفیات نے ہمیں ڈاکٹرڈھٹنکنا ہی بنا کر رکھا ہے۔
    ادکارہ چاندی کا ایک بار انٹر ویو سنا تھا۔ اینکر نے انہیں پوچھا۔ سونے کے بارے میں کچھ بتائیں۔ تو ان کا جواب تھا
    ’’سونا میرامنہ بولا شوہر ہے‘‘۔

Leave a Reply to احمد رضوان Cancel reply