ذکر کچھ انقلابی عورتوں کا

(مائی بختاور شہید ، کامریڈ شانتا ، طاہرہ مظہر علی خان ، افضل توصیف)
محنت کش طبقے کے انقلابی اساتذہ مارکس اور اینگلزہمیں بتاتے ہیں کہ ’’آج تک لکھی گئی تاریخ طبقاتی جدجہد کی تاریخ ہے۔‘‘لیکن یہ لکھی گئی تاریخ طبقاتی جدوجہد کے ساتھ ساتھ مردانہ حاکمیت کی بھی تاریخ ہے جس کے صفحات سے عورت کے نقوش کھرچ دیے گئے ہیں۔غلاموں کی بغاوتو ں سے لے کرکسان بغاوتوں تک انسانی تاریخ کی بڑی بڑی رزم گاہوں میں عورت مصروفِ جہد رہی جس کی بجا طور پر نشان دہی کرتے ہو ئے کامریڈ اسٹالین نے کہا تھا کہ’’تاریخ میں مظلوموں کی کوئی بھی بڑی تحریک ایسی نہیں رہی جس میں محنت کش عورتوں نے حصہ نہ لیا ہو۔محنت کش عورتیں جو تمام مظلوموں میں سب سے زیادہ مظلوم اور مجبور ہیں ،آزادی کے قافلے سے نہ کبھی علیحدہ رہیں اور نہ علیحدہ رہ سکتی ہیں۔‘‘لیکن یہ اور بات کہ فاتحین کے حضور کورنش بجا لانے والے درباری مورخین کی روشنائی ان کا نام درج کرنے سے انکاری رہی۔چوں کہ طبقاتی نقطۂ نظر سے لکھی گئی تاریخ کا مرکز ومحور کبھی عام محنت کار انسان نہیں رہے اس لیے یہ محض ’’فاتح عالم‘‘ کہلانے والے آقاؤں، بادشاؤں ،راجاؤں، جنگ جو سرداروں، مذہبی پیشواؤں اور ان کے حاشیہ برداروں کے تزک واحتشام کی داستان بن کر رہ گئی۔اس میں گاہ بہ گاہ معتوب ہوجانے والے باغیوں کے ساتھ ساتھ بالائی طبقات کی کچھ عورتوں کا ذکر ملتا ہے اور بس۔یوں عورت کی حقیقی تاریخ اور جدوجہد تاریخ کی کتابوں کی بجائے سینوں میں ملفوف ہوکر دفن ہوتی رہی۔
بہرکیف یہ محنت کی تقسیم ہی تھی جوطبقاتی سماج کے جنم کا باعث بنی اور انسانوں کے درمیان پہلے پہل محنت کی تقسیم جنس کی بنیاد پر ہی ابھری تھی ۔ انسانی تاریخ میں ذاتی ملکیت کی اولین شکل عورت تھی اور کرۂ ارض پرقائم ہونے والا پہلا طبقاتی نظام جو آقا اور غلام کے رشتے پر مبنی تھا اس میں مرد اور عورت کا سماجی رشتہ آقا اور غلام کا تھا۔غلامانہ سماج کا خاتمہ اور اس کی جگہ جاگیرداری نظام کا قیام بھی عورتوں کے لیے کوئی ترقی پسند پہلو لیے ہوئے نہیں تھا۔ اس میں بھی عورت غلام اور ملکیت کی ایک شکل ہی رہی۔ صنعتی انقلاب اور سرمایہ داری کے عروج کے بعد جب ابھرتی ہوئی بورژوازی کو آزاد اجرتی مزدور کی ضرورت پڑی تو اس نے سماج کے ہر حصے کو’’ آزاد ‘‘کرنے کا بیڑا اُٹھایا ۔ یوں عورت بھی ’’آزاد‘‘ ہو کر تبادلے کی ایک ’’شے‘‘ اور’’ جنس‘‘ میں تبدیل ہو گئی۔البتہ اس عمل کے ساتھ ہی عورتوں کی بیداری کا سلسلہ بھی شروع ہو گیاجس کی ابتدا عرشی طبقے کی عورتوں نے کی البتہ انقلابی عورتو ں نے اس سماجی جدوجہد کو طبقاتی سماج کے خاتمے کی سیاسی جدوجہد سے جوڑ کر اسے ایک نئی جہت دی۔
دنیا میں عورت کی آزادی کا حقیقی سورج 1917میں روس کے اس مزدور انقلاب کے ساتھ طلوع ہوا جو عظیم اکتوبر انقلاب کے نام سے معروف ہوا ۔معروف سوویت دانشور ’ورکولبانوفسکی‘‘کے بقول
’’ ہمارے بالشویک انقلاب نے عورت کو کامل آزادی دیتے ہوئے اسے ہر لحاظ سے مردوں کے برابر حقوق دیے ہیں اور شاندر سیاسی،معاشی اور سماجی کارنامے سر انجام دے کر عورتیں قلیل عرصے میں اشتراکی معاشرے کے معماروں میں شامل ہو گئی ہیں ۔اس سلسلے میں ان کی دین اتنی گراں قدر ہے جتنی کہ مردوں کی۔ سوویت یونین میں عورتوں کے روایتی ،معاشرتی اور حیاتیاتی کمتری کے افسانے کو غلط ثابت کر دکھایا گیا ہے‘‘۔
1917کے مزدور انقلاب کے یہ ثمرات صرف سوویت یونین تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ سوویت یونین میں نئے انسان کی تشکیل کے جس کام کی ابتداء آدم کی بجائے حوّا سے کی گئی تھی ،اس کی مثالیں ہمیں عالمی کمیونسٹ تحریک کی تاریخ میں نمایاں طور پر نظر آتی ہیں ۔انقلابی تعلیمات سے لیس ان انقلابی عورتوں نے جدوجہد اور انقلاب کی پرخار راہوں سے گزرتے ہوئے اشتراکی سماج کی تعمیر جیسے فریضے کی تکمیل میں عزم اور حوصلے کی شاندار داستانیں رقم کی ہیں۔ان میں جینی مارکس، کروپسکایا ، کلارا زٹکن، یانگ کوئی ہوئی، الیگزنڈرا کولنتائی، کم جونگ سوک، اناطولیا زویا، روزالکسمبرگ، لیو خولان، ایتھل روزنبرگ، سونیا ، فکرت شیخو، الینا چاؤ شسکو،اشرف دہقانی ، انائیتا راتب زاد جیسے بے شمار نام شامل ہیں۔
مائی بختاور شہید
اگر ہم اپنے خطے پر نظر ٖڈالیں تو یہاں بھی طبقاتی جدوجہد میں سرگرم کئی ایک انقلابی عورتوں کے نام نظر آتے ہیں جنھوں نے اس راہ میں مشکلات کا سامنا کیا اور قربانیاں دیں۔ایسا ہی ایک نام مائی بختاور شہید کا بھی ہے جو گزشتہ ستر سال سے سندھ کے ہاریوں کی طبقاتی جدوجہد کا استعارہ ہے ۔ مائی بختاور 1880میں سندھ کے ضلع تھرپارکر کے علاقے ٹنڈو باگوکے ایک غریب ہاری خاندان میں پیدا ہوئیں، ان کا تعلق لاشاری قبیلے سے تھا ۔ ان کے شادی ولی محمد لاشاری نامی ایک ہاری سے ہوئی جو عمر کوٹ میں واقع ’’ احمدی اسٹیٹ ‘‘ کے نام سے معروف جاگیر میں کام کرتا تھا ۔یہ جاگیر انگریزوں نے پنجاب کے ان فوجیوں کو سندھ میں دان کی تھی جنھوں نے 1914میں مکہ میں انگریزوں کے لیے ’’خدمات‘‘ سرانجام دی تھیں ۔اس جاگیرکا کرتا دھرتا چوہدری سعد اللہ تھا جو بعد ازاں پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ بننے والے سر ظفر اللہ خان کا بھانجا تھا ۔ مائی بختاور ، ان کا شوہر ولی محمد لاشاری اور خاندان کے دیگر افراد سندھ کی مشہورزمانہ ’’ سندھ ہاری کمیٹی ‘‘ کے سرگرم کارکن تھے جس کے روحِ رواں کامریڈ حیدر بخش جتوئی تھے ۔سندھ ہاری کمیٹی کی بنیاد 1930میں میر پور خاص میں رکھی گئی تھی جس کے بانیوں میں جمشید نسروانجی مہتہ ،جیٹمل پرسرام ، جی ایم سید ، ایم گوکلے اور دیگر شامل تھے ۔ 1945میں انقلابی نظریات کے حامل کامریڈ حیدر بخش جتوئی نے ڈپٹی کلیکٹر کے عہدے سے مستعفی ہوکر ’’ سندھ ہاری کمیٹی ‘‘میں شمولیت اختیار کی اور اگلے برس اس کے صدر منتخب ہوئے ۔اس کے بعد انھوں نے ساری زندگی سندھ کے ہاریوں کی جدوجہد میں گزاری ۔اس زمانے میں سندھ ہاری کمیٹی نے فصل کی آدھی بٹائی کی تحریک شروع کر رکھی تھی ۔ ہاری کمیٹی کا مطالبہ تھا کہ فصل کے آدھے حصے پر ہاری کا حق تسلیم کیا جائے ۔ یہ تحریک ضلع نواب شاہ سے شروع ہوئی اور جلد ہی پورے سندھ میں پھیل گئی۔
جون 1947میں احمدی اسٹیٹ کے جاگیرداروں سے ہاریوں کا اسی مسئلے پر تنازع چل رہا تھا ۔ ہاریوں نے فصل میں آدھا حصہ نہ ملنے پر گندم کی فصل ان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ 22جون1947کا دن تھا موجودہ ضلع میر پور خاص کے علاقے جُھڈو میں سندھ ہاری کمیٹی کے زیر اہتمام ہاری کانفرنس منعقد کی گئی تھی جس میں مائی بختاور کے شوہر سمیت گوٹھ کے سارے مرد شرکت
کرنے گئے تھے ۔ جب کہ مائی بختاور اور دیگر عورتیں گندم کی حفاظت کر رہی تھیں ۔ موقعے سے فائدہ اٹھانے کے لیے چوہدری سعد اللہ خان اور اس کے منیجر چوہدری خالد نے اپنے مسلح غنڈوں کے ہمراہ ان پر دھاوا بول دیا تاکہ گندم زبردستی اٹھا لے جائے ۔مائی بختاور نے انھیں مقصد میں کامیاب ہونے نہیں دیا اور زبردست مزاحمت کی ۔مائی بختاور کا موقف تھا کہ جب تک سارے ہاری مرد جلسے سے واپس نہیں آ جاتے اور ہمارا فیصلہ نہیں ہو جاتا میں تمھیں گندم کا ایک دانہ بھی نہیں لے جانے دوں گی ۔جب مسلح غنڈوں نے زبردستی گندم اٹھانے کی کوشش کی اور نہتی ہاری عورتوں پر لاٹھیوں سے حملہ کیا تو تو مائی بختاور ان کے سامنے کھڑی ہو گئیں ۔ان ہاری عورتوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور غنڈوں سے لاٹھیاں چھین کر ان کی پٹائی شروع کر دی ۔ اس مزاحمت کے دوران مائی بختاورنے چوہدری سعد اللہ سے بندوق بھی چھین لی یہ دیکھ کر ایک غنڈے نے ان پر کلھاڑی سے حملہ کر کے انھیں زخمی کر دیا ۔ تب چوہدری سعد اللہ نے براہ راست فائرنگ کرتے ہوئے مائی بختاور کو موقع پر ہی شہید کر دیا ۔ مائی بختاور جس کی جدوجہد اورمزاحمت محض گندم کے ایک ڈھیر کے لیے نہیں بلکہ ہاریوں کے اصولی موقف اور حق کے لیے تھی ،سندھ کے ہاریوں کی طبقاتی جدوجہد کی عظیم شہید ٹھہریں ۔
اس سانحے کے بعد سندھ ہاری کمیٹی کے رہنما فوراََ جائے حادثہ پر پہنچے مائی بختاور کی لاش کا پوست مارٹم سامارو میں کیا گیا اور وہیں ان کی تدفین کی گئی ۔ کامرید حیدر بخش جتوئی نے اس قتل کا مقدمہ درج کرایا اورسندھ ہاری کمیٹی کی جدوجہد سے یہ کیس اپنے انجام کو پہنچا ۔چوہدری سعد اللہ کو اس جرم میں پچیس سال سزائے قید کاٹنی پڑی۔ مائی بختاور کی شہادت سے ’’ آدھی بٹائی تحریک ‘‘ کو ایک نئی توانائی ملی اور یہ بعد ازاں کامیابی سے ہمکنارر ہوئی ۔
کامریڈ شانتا ( زیب النساء بخاری)
اب ہم ذکر کریں گے کامریڈ شانتا کے نام سے معروف کامریڈ زیب النساء بخاری کا ۔ ان کا شمار ملک کی ان اولین انقلابی خواتین میں ہوتا ہے جنھوں نے برصغیر کی تقسیم کے بعد یہاں طبقاتی جدوجہد کا علم بلند رکھا اور اس سلسلے میں بے پناہ مصائب کا سامنا کیا ۔کامریڈ شانتا اپریل 1924میں جھالا واڑ ( راجستھان) کے ایک گاؤں ’’ کوٹا بوندی‘‘ کے ایک محنت کش گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ان کے والد پیرا جی ایک درزی اور والدہ کستوری ایک اسکول ٹیچر تھیں ۔پیدا ہوتے ہی ممتا کی چھاؤں سے محروم ہوجانے والی شانتا کی پرورش ان کی نانی اور بعد ازں ان کی خالہ سندرا عرف سکینہ نے کی ۔ کامریڈ شانتا کی خالہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی کُل وقتی کارکن تھیں جب کہ ان کے خالو کامریڈ جگن خان پٹھان بھی کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم کارکن تھے ۔ کامریڈ شانتا نے پڑھنے کے ساتھ ساتھ 12سال کی عمر میں ہی شام کے وقت ایک فیکٹری میں جانا شروع کر دیا تھا ۔انھوں نے کم عمری میں ہی کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کر کے محنت کشوں عورتوں کو منظم کرنا شروع کر دیا تھا ۔ان کی شادی 1943میں ممتاز انقلابی رہنما کامریڈ جمال الدین بخاری سے احمد آباد میں ہوئی ۔ کہا جاتا ہے کہ کامریڈ شانتا کی قیادت میں ان کے خواتین گروپ نے گوریلا تربیت بھی حاصل کی تھی ۔
بہر کیف شادی کے کچھ عرصے بعد وہ اپنے شوہر کے ہمراہ سندھ کے شہر کراچی منتقل ہو گئیں جہاں کامریڈ جمال الدین بخاری کمیونسٹ پارٹی کے روحِ رواں تھے ۔بندر روڈ پر واقع کمیونسٹ پارٹی کا آفس ہی ان کا گھر ،کارکنوں کی تربیت گاہ اور کمیون تھا ۔کامریڈ شانتا اس کمیون کی ذمہ داریاں نبھاتی ،بمبئی سے آنے والے اخبارات سڑکوں پر فروخت کرتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انھوں نے کراچی کی محنت کشوں عورتوں کو منظم کرنا شروع کیا ۔ انھوں نے کراچی میں بھی کمیونسٹ پارٹی کی کل وقتی کارکن کے طور پر مزدور تحریک میں اہم اور نمایاں کردار ادا کیا ۔ان کی کاوشوں کے نتیجے میں گھریلو ملازماؤں نے اپنی یونین ’’ خدمت گار یونین ‘‘ بنائی ۔اتنا ہی نہیں بلکہ یہ مساعی پسند انقلابی خاتون ’’ناری مل مزدور یونین ‘‘ اور ’’ میونسپل عورت صفائی خدمت یونین ‘‘ کی بانی جنرل سیکریٹری تھی ۔ ان کی مساعی سے چوڑی کی صنعت اور کپڑے کے ملوں میں کام کرنے والی محنت کش عورتوں کی کئی ایک ایسوسی ایشنز قائم ہوئیں ۔
تقسیم کے بعد جولائی 1948میں سیفٹی ایکٹ کے تحت کامریڈ جمال الدین بخاری سمیت کمیونسٹ پارٹی کے متعدد رہنما گرفتار کیے گئے تو انھوں نے محنت مزدوری کر کے نہ صرف اپنے بچوں بلکہ پارٹی کے بے روزگار کارکنوں کو بھی سہارا دیا ۔اس بہادر انقلابی عورت نے دیگر گرفتار کامریڈز کی خاندان کی عورتوں کے ہمراہ ان کی رہائی کی مہم چلائی ۔
1950میں کامریڈ جمال الدین بخاری رہا ہوئے اور کراچی بدر کرتے ہوئے لاڑکانہ بھیج دیا گئے ۔ یہاں بھی کامریڈ شانتا نے محنت کش عورتوں کی فلاح وبہبود اورانھیں متحد ومنظم کرنے کے لیے انتھک کام کیا ۔ وہ ’’ سندھ ہاری کمیٹی ‘‘ کے پلیٹ فارم سے سندھ کی ہاری عورتوں کی جدوجہد میں بھی اہم کردار ادا کرتی رہیں ۔عمر بھر انقلابی تحریک اور تنظیموں میں محنت کش عورتوں کی شمولیت کے لیے عملی جدوجہد کرنے والی کامریڈ شانتا 25جولائی 2014میں 90سال کی عمر میں لاڑکانہ میں فوت ہوئیں اور وہیں ان کی تدفین کی گئی ۔
طاہرہ مظہر علی خان
پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک کا ایک اور معتبر حوالہ طاہرہ مظہرعلی خان ہے ۔وہی طاہرہ مظہر علی خان جنھیں 1948میں ملکی تاریخ میں پہلی بار خواتین کا عالمی دن ’’8مارچ‘‘عوامی سطح پر منانے کا اعزاز حاصل ہے ۔کامریڈ طاہرہ مظہر علی خان ہ5جون1924کو پنجاب کے ایک معروف سیاسی خاندان میں پیدا ہوئیں ۔ ان کے والد سر سکندر حیات خان 1937تا1942متحدہ پنجاب کے وزیر اعظم رہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم کوئین میری اسکول سے حاصل کی۔بائیں بازو کی طلبا سیاست میں متحرک رہیں ۔ ان کی شادی معروف کمیونسٹ طلبارہنما اور صحافی مظہر علی خان سے ہو گئی جس کے بعد انھوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا ۔ پنجاب کے اشرافیہ طبقے میں پیدا ہونے والی طاہرہ مظہر علی خان کی ساٹھ سال سے زائد کے عرصے پر محیط زندگی محنت کشوں اور خواتین کی انقلابی جدجہد سے عبارت ہے ۔ انھوں نے ملک میں خواتین کے حقوق کی تحریک کی بنیاد رکھی اور اسے انقلابی نظریاتی بنیادوں پر استوار کیا۔وہ ’’کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان‘‘ کی رکن تھیں۔ مزدور ،کسانوں اور خواتین کی جدوجہد کے لیے اپنی زندگی وقف کر دینے والی طاہرہ مظہرعلی خان نے 1950میں کمیونسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے خواتین کے حقوق کی تنظیم ’’ ڈیمو کریٹک وومین ایسوسی ایشن ‘‘ قائم کی۔
انھوں نے ایوب خان کی فوجی آمریت کے خلاف شاندار جدوجہد کی اور مزدوروں اور خواتین کے حقوق کا علم بلند رکھا۔ 1960میں ایوب خان نے ان کی تنظیم ’’ ڈیمو کریٹک وومین ایسوسی ایشن ‘‘ پر پابندی عائد کر دی جسے بعد میں ذوالفقار علی بھٹو نے بھی برقرار رکھا۔ان کی زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت تھی۔1971میں بنگالی عوام کے قتل عام کے خلاف پنجاب سے اٹھنے والی توانا آوازوں میں
ایک آواز طاہرہ مظہر علی خان کی بھی تھی ۔
انھوں نے ضیاء الحق کی فوجی آمریت کے زمانے میں بھی جدوجہد جاری رکھی اور1981میں’’ وومین ایکشن فورم‘‘ کے نام سے تنظیم بنائی جس نے حدود آرڈینس کے خلاف زبردست عوامی مزاحمت کی۔انھوں نے ’’ انجمن ترقی پسند خواتین پاکستان‘‘ کی صدر کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیں ۔ انقلابی اساتذہ کی تعلیمات سے ذہن منور رکھنے والی طاہرہ مظہر علی خان کا شمار بائیں بازو کے ان ممتاز راہنماؤں میں ہوتا تھا جو سویت یونین کے انہدام کے بعد بھی ثابت قدمی سے کمیونسٹ نظریات پر قائم رہے۔ وہ ’’نیشنل ورکرز پارٹی‘‘کی مرکزی کمیٹی کی رکن کے طور پر متحرک رہیں۔ بائیں بازو کی تحریک کی سرکردہ راہنما اور خواتین کے حقوق کی علمبردار کامریڈ طاہرہ مظہرعلی خان نے 23مارچ2015کو لاہور میں وفات پا ئی۔
افضل توصیف
افضل توصیف یہ نام سنتے ہی ان لوگوں کے خون کی گردش تیز تر کیوں نہ ہو گی جو انھیں جانتے تھے ، ان سے ملے تھے یا پھر ان کی تحریروں سے آشناہیں ۔ وہ ممتاز ترقی پسند افسانہ نگار ، شاعرہ ، کالم نویس ، استاد اور دانشور تھیں جنھوں نے پنجابی ، اردو اور انگریزی تحریروں کے ذریعے جبر کی قوتوں کا مقابلہ کیا ۔ اس مقابلے میں ان کا قلم نہ کبھی تھکا ، نہ کبھی بکا اور نہ کبھی جھکا۔
کامریڈ افضل توصیف 18مئی1936کو مشرقی پنجاب کے ایک گاؤں ’’ سمبلی‘‘ ( ہوشیار پور) میں ایک پولیس آفیسر چوہدری مہدی خان کے گھر میں پیدا ہوئیں ۔ تقسیم ، ہند کے وقت ہونے والے فسادات میں ان کے خاندان کے اکثر افراد مارے گئے ۔ وہ بمشکل اپنے والد اور دو بھائیوں کے ہمراہ لاہور اور پھر کوئٹہ پہنچنے میں کامیاب ہوئیں۔کوئٹہ میں ہی تعلیم حاصل کی اور بعد میں لاہور منتقل ہو گئیں ۔ اسی شہر میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے بعد ’’ لیڈی مکلیکن کالج ‘‘ میں پڑھانا شروع کیا جس کا نام بعد ازاں تبدیل کر کے ایجوکیشن کالج رکھ دیا گیا تھا۔ اسی کالج سے 1996میں ریٹائرڈ ہوئیں۔ ان کی پہلی کتاب ’’ اندھیروں کا سفر ‘‘ قتلِ بنگال کے موضوع پر تھی جو ستر کی دہائی میں شایع ہوتے ہی سرکار نے ضبط کر لی ۔
اس کے علاوہ افضل توصیف کی تصنیف کردہ 32کتابوں میں ٹالھی میرے بچڑے ، کیہدا ناں پنجاب ، پنجیوں گھنٹا ،من دیاں وستیاں ، امن ویلے ملاں گے ( پنجابی )،ہاری رپورٹ سے آخری فیصلے تک ،زمین پر لوٹ آنے کے دن ، غلام نہ ہو جائے مشرق، الیکشن جمہوریت اور مارشل لا ء ، لیبیا سازش کیس ، یہ غلام جمہوریت ہے ، لاوارث ، دیکھی تیری دنیا ، امر ہستی امرتا ، شہر کے آنسو ، سوویت یونین کی آخری آواز ، گزرے تھے ہم جہاں سے وغیرہ شامل ہیں ۔جبکہ ’’ کڑوا سچ‘‘ کے عنوان سے وہ مختلف اخبارت میں طویل عرصے تک کالم لکھتی رہیں ۔ان کی کئی ایک کتابیں بھارت میں ہندی اور گورمکھی زبان میں بھی شایع ہوئیں ۔جب کہ بھارت کی مشہور ترقی پسند پنجابی شاعرہ اور ادیبہ امرتا پریتم نے ان پر ایک کتاب’’ افضل توصیف ۔دوسرے آدمی کی بیٹی ‘‘ بھی تحریر کی۔امرتا پریتم انھیں ’’ پنجاب کی سچی بیٹی ‘‘ کے نام سے پکارا کرتی تھیں۔ افضل توصیف نے مسعود کھدر پوش ایوارڈ ، انڈین میلنیم ایوارڈ ، ایشین رائٹرز ایوارڈ سمیت متعدد ادبی ایوارڈ حاصل کیے لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان کا اصل ایوارڈ ان کے 25000سے زائد طالب علم ہیں۔انھوں نے عمر بھر شادی نہیں کی ۔
افضل توصیف نے صرف ترقی پسند ادب ہی نہیں تخلیق کیا بلکہ فوجی آمریتوں بالخصوص ضیا ء آمریت کے خلاف سرگرم کردار بھی ادا کیا۔ ضیاء آمریت کے خلاف جب انقلابی نوجوانوں نے لیبیا کی مدد سے جدوجہد کا فیصلہ کیا تو فوجی آمریت نے ’’ لیبیا سازش کیس ‘‘ کے ذریعے بائیں بازو کے ان کارکنوں پر مظالم ڈھائے ۔ انقلابی ہونے کے ایوارڈ کو سب سے بڑا اعزاز سمجھنے والی افضل توصیف کو ضیا ء الحق نے ’’پرائڈ آف پرفارمنس ‘‘ ایوارڈ بمعہ8مربع زرعی اراضی کے ساتھ دے کر خریدنا چاہا تو انھوں نے لیبیاسازش کیس کے 41کامریڈوں کو اپنا دست وبازو قرار دیتے ہوئے ٹھکرا دیا۔ اس کی پاداش میں انھیں جیل جا کر خوفناک ملٹری ٹرائلز اور پھر لیبیا میں جلا وطنی کا سامنا کرنا پڑا ۔ وہ ایک زبردست ماہرِ تعلیم اور سینٹ کی تعلیمی نصاب کمیٹی کی رکن تھیں لیکن مروجہ فرسودہ تعلیمی نصاب پر شدید اعتراضات اور اس میں ترقی پسند نظریہ حیات شامل کرنے جیسے مطالبات پر انھیں کمیٹی سے خارج کر دیا گیا تھا ۔
افضل توصیف نے برسوں آس اور امید کے دیے جلائے رکھے ۔ ان پرکبھی قنوطیت طاری ہوئی اور نہ ہی اذہان میں مایوسی کا زہر انڈیلا ۔جب 1991میں سوویت یونین کا انہدام ہوا تو اس وقت وہ اس قطار میں کھڑی تھیں جس نے سویت یونین کے ٹوٹ جانے کو مارکس اور لینن کی شکست نہیں مانا اور ڈٹ کر سوشلزم کا دفاع کیا ۔ اس زمانے میں جب ان کے پسندیدہ انقلابی شاعر علی سردار جعفری نے ’’ الواداع اے سرخ پرچم الواداع ‘‘ جیسی مایوس کن نظم لکھی تو ان کے جواب میں افضل توصیف نے لکھا ’’ اے سرخ پرچم ! اے محنت کی آبرو الوادع نہیں ! کبھی نہیں ! تجھ بن دنیا کیا ہے ایک مشکل مقام ہے۔ کمزور انسانوں کے لیے تُو ہی تو بندۂ مزدور کے عزم وہمت کا نشان ہے ۔ اے آبروئے ابنِ آدم ، چادرِ بنت مریم تو ہی تو قلزم تشنہ لبی کی موجِ برہم ہے ۔تو ہی غرور ہے دست دولت آفریں کا ۔تجھ سے رخصت نہیں لے سکتے ہم کہ تو ہی بے نواؤں کا شعلۂ آواز ہے ۔ابھی تو رزم گاہ خیر وشر میں گھمسان کا رن ہے ۔بڑے زوروں کی جنگ ہے زندگی اور موت کے مابین ۔دیکھ تو سہی ہمارے ہاتھ میں صرف ایک ہی ہتھیار ہے بس ۔اپنی قوت برداشت ہے اور دوسری طرف ابلیس اعظم کی جنگی مشین کے دن رات ڈھلتے ہوئے بم اور بمبار ہیں ۔ مقابلہ سخت ہے اے لہو رنگ پرچم ! تیری چھاؤں کے بغیر کس طرح بچے گی ، آدمی کی جان ،عورت کی عزت اور بچے کا مستقبل ۔ہم تیسری دنیا کے کالے پیلے لوگ سفید سامراج کا مقابلہ کس طرح کریں ،اپنی رنگت کیسے نکھاریں ! ہم میلے کپڑے والے محنت کش اور غریب عوام۔ابھی تو ہمارے آنگنوں میں مفلسی پاؤں پسارے لیٹی ہے اور ہماری گلیوں میں سامراج کا سپاہی بندوق تانے کھڑا ہے ۔ہمارا تو کوئی حامی نہیں کوئی رہبر نہیں ،جز تیرے کوئی ساتھی نہیں ۔۔۔۔۔ سو اے سرخ پرچم ۔اے نشانِ عزمِ مظلومانِ عالم الواداع نہیں !کبھی نہیں !۔
انقلابی آدرشوں پر یقین رکھنے اور ان کے لیے عمر بھر کوشاں رہنے والی افضل توصیف نے30دسمبر2014کو وفات پائی اور لاہورکے علامہ اقبال ٹاؤن قبرستان میں تدفین ہوئی ۔

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply