سول جرنیل عمران خان نیازی

انتخابات سے پہلے عمران خان نے اس قوم کو شعور دیا کہ دو پارٹیوں نے اس ملک کا بٹوارہ کر لیا ہے ایک باری تمھاری اور ایک باری ہماری۔۔تبدیلی چاہئے عدلیہ کی،پارلیمان کی، پولیس کی۔۔ غرضیکہ پورے سسٹم کی۔
عوام نے بیداریء شعور کا کھلا ثبوت دیا اور ایک سیٹ والی پارٹی کو ملک کی دوسری بڑی جماعت بنا دیاجہاں خوف اور دہشت کا ماحول تھا وہاں بھی جان کی پرواہ کیے بغیر گھروں سے تبدیلی کی امیدیں لیئے نکلے اور اپنی زندگی میں پہلی بار ووٹ کاسٹ کیےلیکن باشعور لوگوں نے اس وقت عہد کیا تھا کہ ہم طوطہ پرستی نہیں کریں گےصحیح اور غلط کی پہچان شخصیت پرستی پر نہیں ہو گی۔
خان صاحب نے پرانے گھسے پٹے مہروں کو اپنی بساط میں شامل کیا۔۔ دل کو یہ تسلی دی گئی کہ اس سسٹم میں رہنے والے لوگوں کو ہی پالش کرکے آگے لایا جائے گا فرشتے تو ڈھونڈنے سے نہیں ملیں گے اور اسی امید پر کارکنان اورسپورٹرز اپنے آپ کو ڈھارس دیتے رہے اور شاید دیتے رہیں گے۔۔وکٹ گرنے کی خوشخبریاں ملتی رہیں گی اور جن جماعتوں پر طعن وتشنیع کی جاتی رہی ہو گی ان کے سرکردہ افراد جب پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کریں گے تو دودھ کی نہر میں غسل کرکے پاک و پوتر بن جائیں گے۔خیر باتیں بہت دور تلک چلی جائیں گی۔۔فی الوقت مکالمہ کا موضوع عمران خان کے حالیہ بیانات ہیں۔ دل بہلانے کو سازش کہیں یا زبان کا پھسلنا لیکن دونوں صورتوں میں ہی خان صاحب کو جواب تو دینا ہوگا۔حضرت علی ؑ کا فرمان ہے کہ زبان ایک ایسا درندہ ہے جسے کھلا چھوڑ دو توکچھ بعیدنہیں کہ تمھیں بھی پھاڑ کھائے!
خان صاحب فرماتے ہیں کہ پی ایس ایل کا فائنل پاکستان میں منعقد کرانا پاگل پن ہے۔اگر یہی بیان اس طرح ہوتا کہ اس وقت فائنل پاکستان میں کھلانا مناسب نہیں ہے۔۔مطلب وہی ہے لیکن کہنے کا انداز مختلف۔ شائستگی اور غیر شائستگی میں صرف الفاظ کا ہی تو فرق ہوتا ہے ورنہ بات کا مفہوم تو ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔دوسرا بیان کھلاڑی پھٹیچر ہیں۔تمام کھلاڑی مختلف ممالک سے آئے تھے۔۔ایک لیڈر،قائداوربالخصوص ماضی کے کرکٹر کو یہ زیب نہیں دیتا کہ کسی بھی انفرادی شخص کوتضحیک کا نشانہ بنائے۔جس ملک میں فائنل کا اعلان ہوتے ہی یکے بعد دیگرے بلاسٹ پر بلاسٹ ہوں وہاں کوئی جان ہتھیلی پر رکھ کر آپکا ایونٹ کامیاب کراد ے آپ انکے احسان مند ہونے کی بجائے انکو ذلت کا طوق پہنا دیں اس سے زیادہ شرمندگی کا مقام کیا ہوگا۔بالفرض پی ایس ایل فائنل میں ایک بھی پھٹیچر غیر ملکی پلیئرنہ ہوتا۔۔ آپ کے ایونٹ کی کامیابی کی شرح کیا ہوتی؟
جس کامیابی کا اعتراف سرحد پار دشمن بھی کر چکا لیکن آپ صرف مخالف پارٹی کی بنیاد پر داد دینے سے گریزاں ہیں۔پی ایس ایل فائنل کا انعقاد ایک ضد تھی ہماری مجروح انا کو مزید کچلے جانے سے بچانے کے لئے ایک کوشش تھی۔سیکورٹی اداروں پر ہمارے بتدریج ڈانواڈول ہوئے اعتماد کو بحال کرنے کے لئے ایک لائحہ عمل تھا جس میں الحمداللہ ہمیں نصرت ملی۔ نجم سیٹھی سے لاکھ اختلاف سہی لیکن پی ایس ایل کی کامیابی کا سہرہ انہی کے سر ہے۔ آپکا بورڈ مالی مشکلات کا شکار تھا، پلیئرز میں آئی پی ایل نہ کھیلنے کی دم توڑتی خواہش تھی۔اب آپ کا اپنا پلیٹ فارم ہے۔ آپ دوسروں کی طرف نہیں بلکہ دوسرے آپکی طرف نظر جمائے بیٹھے ہیں۔پی ایس ایل میں بہتری کی یقیناً گنجائش موجود ہے لیکن اس کے دورس نتائج سے بالکل ہی انکاری ہو جانا کہ میں ناں مانوں تو یہ ایک بچگانہ سوچ ہے۔خان صاحب سے زیادہ زیرک تو شیخ رشید نکلے جنہوں نے عوام میں بیٹھ کرمیچ دیکھا اوریہ پیغام دیا کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن جب بھی بات ریاست کی ہوگی تو ہم حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں گےاگر ریاست ہی نہیں ہوگی یا اس کا وجود ہی خطرے میں ہو گا تو سیاست یا حکومت چہ معنی؟
ایک وقت تھا کہ ایم کیو ایم کے قائد کی تقریر کے بعد ذمہ داران اور کارکنان ہفتوں اس تقریر کا دفاع کیا کرتے تھے۔ اب یہ ہی مشکل پی ٹی آئی کے سپورٹران پر آن پڑی ہےلیکن ہمیں اس خول سے نکلنا ہوگاہم سسٹم کی تبدیلی چاہتے ہیں اشخاص بدلتے رہیں گے لیکن نظریہ ہمیشہ قائم رہے گااگر غلط بات آپکی پسندیدہ پارٹی کے سربراہ سےمتعلق ہواوراچھا اقدام آپکی ناپسندیدہ پارٹی سےہی کیوں نا جُڑا ہو ہم غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کی جرات پیدا کریں گے۔
خان صاحب کے بیانات سے پہلے پنجابی پختون کے مسئلے کو ہوا دی گئی اورکےپی کے کے وزیراعظم صاحب نے بیان بھی داغ دیا۔ وہ اتنا بھی نہیں سمجھ پائے کہ کے پی کے میں اے این پی واپس قدم جما رہی ہے اور دوسری اقوام کو متنفر کرکے آپ سندھ،پنجاب،بلوچستان میں مقبولیت بھی کھو دیں گے۔
ناآپ کےپاس کے پی کے رہے گا اور نہ ہی دوسرے صوبے۔۔رہی سہی کسر آپ کے غیر ضروری بیانات نے پوری کر دی ہے۔ لیڈر اور پارٹی کا گراف اسی طرح گرتا گیا تو یہ سفرایک سیٹ پرختم ہو کر 2002 ءکے انتخابات کی یاد تازہ کردے گا۔
شیطان کی عبادت وریاضت اورنیکوکاری میں اس کا کوئی ثا نی نہیں تھا لیکن تکبر نے جہاں اس کے سب اعمال چوپٹ کر دئیے وہیں اسے ہمیشہ کے لئے ناکام ونا مراد بھی ٹھہرا دیا۔لوگو کا خیال ہے کہ خان صاحب نے اپنی روش تبدیل نہ کی تواس قوم کی قسمت میں ہمیشہ شریف و زرداری ہی رہیں گے۔
خان صاحب یہ تو کچھ لوگوں کا خیال ہے جس سے ضروری نہیں کہ اتفاق بھی کیا جائے۔ آپ سے اس قوم نے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھیں ہیں خدارا ان امید کے چراغوں کو بُجھنے سے بچا لیجئے۔ اپنی منہ سےنکالے گئےالفاظ کی معافی مانگ کرثابت کردیں کہ آپ ایک عوامی لیڈر ہیں جو ذاتی پسند نا پسند پر ملکی وقومی ترجیحات کو فوقیت دیتے ہیں۔
ورنہ تاریخ کے اوراقوں میں آپ کا نام سول جرنیل نیازی کے نام سے ضرور یاد کیا جائے گا۔

Facebook Comments

محمد کمیل اسدی
پروفیشن کے لحاظ سے انجنیئر اور ٹیلی کام فیلڈ سے وابستہ ہوں . کچھ لکھنے لکھانے کا شغف تھا اور امید ھے مکالمہ کے پلیٹ فارم پر یہ کوشش جاری رہے گی۔ انشا ء اللہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply