اشرفی و قاسمی تنازعہ کی حقیقت

علامہ طاہراشرفی پاکستان علماء کونسل کے مرکزی چیئرمین ہیں ، جن کے خلاف پانچ دن قبل جماعت کے مرکزی جنرل سیکرٹری مولانا زاہد محمود قاسمی نے بغاوت کرکے جماعت کی چیئرمین شپ سنبھال لی ۔ مولانا زاہد محمود قاسمی(جو کہ مولانا ضیاء القاسمی مرحوم کے بیٹے ہیں ) اور اُن کی میڈیا ٹیم کے مطابق مجلسِ شوری کا اجلاس ہوا، جس میں پارٹی دستور کے مطابق اراکین کی اکثریت نے موجودہ چیئرمین پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مولانا زاہد محمود قاسمی کو نیا چیئرمین منتخب کرلیا۔ اگر واقعی ایسا ہی ہوا ہے تو یہ ”انتقالِ اقتدار” عین ”قانونی” ہے ، لیکن یہاں سے سوالات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ، شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں ،”کنفیوژن” پیدا ہوتی ہے ۔ جیسے
1۔ اجلاس بھی زاہد محمود قاسمی طلب کرتے ہیں ، اور چئیرمین بھی اُنھیں منتخب کرلیا جاتا ہے، تو کیا یہ سب پہلے سے طے شدہ تھا ؟
2۔ اگر چیئرمین پر اعتراضات / تحفظات تھے تو وائس چیئرمین کو کیوں نہیں چیئرمین بنایا جاتا؟
3۔ قاسمی گروپ کے مطابق اجلاس میں مرکزی وائس چیئرمین مولانا عبد الکریم ندیم ، جبکہ اسی دن مولانا عبد الکریم ندیم کی آنکھ کا آپریشن تھا ۔
4۔ اگر یہ اجلاس مرکزی مجلسِ عاملہ کا تھا تو اِس میں 500 سے زائد علماء کیا کررہے تھے ؟ ، مجلسِ عاملہ بھی تو بمشکل 50 ، 60 افراد ہوتے ہیں۔
5۔ کیا پارٹی کی مجلسِ عاملہ کے اجلاس میں مقامی علماء ، اور وہ لوگ جو پارٹی کی مجلسِ عاملہ کا حصہ نہیں وہ شریک ہوسکتے ہیں ؟
6۔ اجلاس میں مولانا عبدالحمید وٹو ، اور مولانا عبدالمجید صابری شریک نہ تھے ، جب کہ اُن کا نام بھی شامل کیا گیا۔
7۔ اگر یہ اجلاس متفقہ تھا اور طاہر اشرفی کو ہٹانا سب کی مرضی تھی تو نئی باڈی میں پورے پاکستان سے لوگوں کو کیوں نہیں منتخب کیا گیا؟ سرپرست رفیق جامی فیصل آباد سے ، چئیرمین خود فیصل آباد سے ،ڈپٹی جنرل سیکرٹری علامہ شبیر احمد عثمانی فیصل آباد سے ، صدر پنجاب حافظ نعمان فیصل آباد سے ، جبکہ عثمان بیگ فاروقی کو پنجاب کا جنرل سیکرٹری بنایا گیا، اُنھوں نے جماعت کی بنیادی رکنیت سے ہی لاتعلقی کا اظہار کیا ہے ۔
مولانا قاسمی نے ”علامہ” سے بغاوت کو جہاں پارٹی کا فیصلہ قرار دیا ، وہیں بغاوت کی کئی وجوہات بھی بیان کر ڈالیں، جن میں شراب نوشی، بیرونی ممالک سے معاہدے ، اور ان سے حاصل ہونے والی رقم کے غبن کا الزام لگایا۔ ساتھ ہی یہ الزام بھی عائد کیا کہ جماعت کی اکثریت زاہد قاسمی کے ساتھ ہے۔
مولانا قاسمی اور علامہ طاہر اشرفی کے درمیان اختلاف کافی عرصے سے چل رہا تھا جس کے حل کے لیے دو رُکنی کمیٹی بنائی گئی ، جس میں مولانا عبد الحمید وٹو اور مولانا عبدالکریم ندیم پر مشتمل دو رُکنی کمیٹی بنائی گئی۔ طاہر اشرفی نے کمیٹی کو ثالث مانتے ہوئے تمام فیصلوں کا مکمل اختیار دے دیا۔ زاہد قاسمی کے تین اعتراضات /اختلافات تھے ، اول یہ کہ جماعت میں اختیارات صرف اور صرف طاہر اشرفی کے پاس ہیں ، دوئم یہ ہے جماعت میں ورکر سے لے کر بڑے عہدے دار تک کسی کا احترام نہیں ، سوئم یہ ہے طاہر اشرفی نے بیرونی این جی اوز کے ساتھ معاہدے کررکھے ہیں، جس پر جماعت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
آئیے سب اعتراضات اور الزامات کا ایک ایک کرکے جائزہ لیتے ہیں ،
1۔ پوری جماعت کا مولانا قاسمی کے ساتھ ہونا:
سرپرستِ اعلیٰ ڈاکٹر احمد علی سراج ، جنرل سیکرٹریز مولانا احمد ندیم و مولانا ایوب صفدر سمیت کوئی بڑا جماعتی راہنما اجلاس میں شریک نہ ہوا۔ پنجاب کے 37 اضلاع میں سے صرف فیصل آباد کے چند اور اوکاڑہ کا ایک ممبر مجلسِ عاملہ اجلاس میں شریک ہوا۔
اس کے علاوہ نئی بنائی جانے والی تنظیم میں نوے فیصد سے زائد عہدیدار فیصل آباد سے ہیں ، (بشمول چئیرمین) ، اس لیے اس جماعت کا نام پاکستان علماء کونسل کے بجائے ”فیصل آباد علماء کونسل ” کئی زیادہ بہتر لگتا ہے۔
2۔ شراب نوشی کے الزامات:
قاسمی صاحب نے اشرفی صاحب پر شراب نوشی کے الزامات لگائے ۔ ایک وقت تھا جب قاسمی صاحب جنرل سیکرٹری تھے، اشرفی چیئرمین تھے ، اشرفی صاحب ”حالتِ غیر” میں پائے گئے ، تب پورا میڈیا چیخ چیخ کرکہہ رہا تھا کہ اشرفی صاحب کی حالت ٹھیک ہیں ، وہ نشے میں ہیں ، تب اشرفی صاحب کا دفاع کرنے والی اُن کی جماعت اور اُن کے جنرل سیکرٹری قاسمی صاحب تھے ۔
تب ”علماءِ پاکستان” کی ”دستار” کو بچانے کے لیے ”میٹھا پان” کی اصطلاح متعارف کرائی گئی۔ کیا اُس وقت قاسمی صاحب کو بغاوت نہیں کرنی چاہیے تھی؟ کیا ایک عالمِ دین کا ایک شرابی کی اطاعت کرنا اُس عالمِ دین کے کردار پر شکوک و شبہات پیدا نہیں کرتا؟
3۔ بیرونی فنڈنگ لینے میں عدم مشاورت:
امریکہ ہو ، جرمنی یا برطانیہ کوئی بھی دوسرا ملک ، کبھی کسی شخصیت کو پیسے نہیں دیتے ، پیسے ہمیشہ کسی این جی او کے نام پر کسی خاص مقصد کے لیے دیئے جاتے ہیں ۔ علامہ طاہر اشرفی کی این جی او ”علم و امن فاؤنڈیشن” کے بیرونی ملکوں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کی تفصیلات قاسمی صاحب کو کیسے معلوم نہیں ہوسکتیں؟ جو این جی او قاسمی صاحب کے نام پر رجسٹرڈ ہے اُس کی سرگرمیوں سے لاعلمی قاسمی صاحب کی نااہلی ہے۔
طاہر اشرفی صاحب نے سوشل میڈیا پر کچھ دستاویزات کی تصاویر لائی ہیں جن کے مطابق امریکہ اور جرمنی نے اپنے اپنے معاہدے کینسل کردیئے ہیں۔ لیکن ان دستاویزات کی باقاعدہ تحقیقات ہونی چاہیے کہ آیا واقعی معاہدے کینسل ہوئے ہیں یا وہ دستاویز جعلی ہیں۔ (کچھ تصاویری ثبوت تحریر کے ساتھ لف ہیں ، تاہم یہ ثبوت بھی تحقیق طلب ہیں)۔
4۔ اختیارات کا معاملہ:
اشرفی صاحب نے ثالث کے سامنے اپنے غلطی کو تسلیم کیا کہ وہ اختیارات کسی کو نہیں دیتے ، تاہم اُنھوں نے موقف دیا کہ اگرچہ اختیارات میرے پاس ہیں مگر کام بھی تو سب میں ہی کرتا ہوں ۔ میں چیئرمین ہونے کے باوجود بینر بھی خود جاکر لگواتا ہوں ، جبکہ کچھ لوگ سوٹ بوٹ پہن کر صرف میڈیا کے لشکارے مارتے کیمروں کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔
پھر بھی ثالث فریق مجھے جتنے اختیارات پر محدود کرے گا میں اُسی میں خوش رہوں گا۔ اور اُس کی سختی سے پابندی کرؤں گا۔
اس پر قاسمی صاحب نے بھی رضامندی کا اظہار کیا ، گویا یہ مسئلہ بھی ”علحیدگی” کی وجہ نہ بنا۔
5۔ عہدیداروں اور کارکنوں کی عزت نہیں :
قاسمی صاحب کا موقف تھا کہ اشرفی صاحب جس کو چاہتے ہیں ڈانٹ پلا دیتے ہیں اور جماعتی عہدیداروں کی کوئی عزت نہیں۔ اشرفی صاحب نے ڈانٹنے والی بات کا اعتراف کیا اور کہا کہ میں جماعت کا بڑا ہوں ، جذباتی بھی ہوں جب کچھ غفلت ہوتے دیکھتا ہوں تو ڈانٹ دیتا ہوں۔ لیکن میں ہر جماعتی کارکن کا احترام کرتا ہوں۔ اگرتعصب کا چشمہ اُتار کر دیکھا جائے تو قاسمی صاحب کی بات میں زیادہ دم خم نہیں ، اُنھیں جامعہ قاسمیہ فیصل آباد سے اُٹھا کر شاہی دربار میں سعودی کنگ تک پہنچانے والا بھی طاہراشرفی ہے۔
طاہر اشرفی کی جماعت میں جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہونے ، اُنھی کے ذریعے سے اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر بننے اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے کوآرڈینیٹر بننے کے باوجود عزت نہ ملنے کا دعویٰ کھوکھلا اور جھوٹا ہے۔
یہ کہنا کہ طاہر اشرفی صاحب پر لگنے والے تمام الزامات غلط ہیں زیادتی ہوگی ، بہت سی چیزیں تحقیق طلب ہیں ، لیکن یہ کہنا کہ قاسمی صاحب نے بغاوت اِن وجوہات کی بناء پر کی یہ بھی سراسر جھوٹ ہے۔
میرے رابطہ کرنے پر (نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر) ”قاسمی گروپ ” کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ قاسمی صاحب شروع میں ثالث کے سامنے صلح کرچکے تھے ، لیکن بعد میں اُنھوں نے کہہ دیا تھا کہ وہ طاہر اشرفی کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس لیے وہ پارٹی چھوڑ دیں گے ، پارٹی توڑنے یا کسی ساتھی کو ساتھ ملا کر نیا جتھا بنانے کے امکان کو یکسر مسترد کردیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ ”ختمِ نبوت موومنٹ” کے پلیٹ فارم سے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
لیکن پھر نجانے کس کی ”شہ” پر آپ نے تمام دعوؤں کے خلاف ، وعدوں کے پاس کو پامال کرتے ہوئے بغاوت کرڈالی۔ علامہ طاہر اشرفی کو بھی اِس پر غور کرنا چاہیے کہ آیا اُن کے خلاف ہونے والی بغاوت اُن کی پالیسوں کا جواب ہے ، یا قاسمی صاحب نے اپنی ماضی کی روش کو دہراتے ہوئے (جیسے مولانا اعظم طارق پر پیسے لینے کا الزام لگاکر پارٹی چھوڑی) پارٹی سربراہ پر الزام لگا کر بغاوت کی۔
اور قاسمی صاحب کو بھی چاہیے کہ آگے آکر ثابت کریں کہ پارٹی کی اکثریت اُن کے ساتھ ہے ۔ وہ جس کے بھی ساتھ کا دعویٰ کرتے ہیں وہ مُکر جاتا ہے ۔ قاسمی صاحب ثابت کریں کہ بغاوت اُنکی نہیں جماعت کی مرضی سے ہوئی ہے ، تاکہ یہ بات باور کرائی جاسکے کہ یہ بغاوت علامہ اشرفی کی کانفرنس رُکوانے کے لیے نہیں ہوئی۔ اور دنیا کو بتایا جاسکے کہ پاکستان کی مذہبی جماعتیں غلطی کرنے پر اپنے سربراہ کو چلتا کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔

Facebook Comments

اُسامہ بن نسیم
اُسامہ بن نسیم کیانی ۔ میں سول انجینئرنگ کا طالبِعلم ہوں، میرا تعلق آزادکشمیر سے ہیں ، کئی مقامی اخبارات اور ویب سائٹس کے لیے کالم نگاری کے علاوہ فیس بک پر مضامین بھی لکھتا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply