8 مئی کو 2020 کو حکومت وقت نے اعلان کیا کے چھوٹے صوبوں اور اقلیتوں کی بچی ہوئی آسامیوں پر اسپیشل سی سی ایس امتحان لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تحریک شناخت کے پلیٹ سے ہم نے آگاہی مہم چلائی ۔ مسیحی سماجی، سیاسی اور مذہبی ورکروں نے بھی اس مہم میں حصّہ لیا 2023 کے ریگولر امتحان کے نتیجے کے بعد یہ امتحان دو ہزار 2023 میں ہی منعقد ہوا ۔ جسکا نتیجہ دسمبر2024 میں آیا ،تو پتہ چلا 121 آسامیوں کے لئے صرف 16 اقلیتی امیدوار پاس ہوئے ۔جن میں 7 ہندو، 7 مسیحی اور دو دیگر اقلیتوں میں سے تھے۔ ساتھ ہی بہت ساری تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ 850 اقلیتی امیدوار امتحان میں بیٹھے جن میں سے 462 پنجاب سے سندھ سے 229 جبکہ 65 کے پی بلوچستان سے 29 امیدوار تھے۔۔ جبکہ سابقہ فاٹا سے 2اور آزاد جموں کشمیر سے بھی 2 امیدوار شامل ہونے۔لیکن ان میں سے صرف سندھ سے 8 اور پنجاب سے بھی 8 ہی پاس ہوئے۔ جب یہ اعدادوشمار سامنے آئے تو میں نے مسیحی سماج کے ان پہلوؤں کو اجاگر کیا جسکی وجہ سے وفاقی حکومت کی یہ شاندار کوشش ایک طرح سے رائیگاں گئی ۔۔ کیونکہ اس شاندار حکومتی کوشش اور تحریک شناخت کی آگاہی مہم اور مختلف سماجی و مذہبی پلیٹ فارمز سے آگاہی مہم چلانے کے باوجود اقلیتی امیدواروں خصوصاً مسیحیوں کی کارکردگی انتہائی مایوس کن کیوں ہے۔؟ میں نے تین مضامین کی ایک سیریز لکھی ،جس میں اسکے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا۔اور کئی وی لاگ بھی کئے۔ شائد اسکے نتیجے میں یا وفاقی حکومت بھی ان نتجائج سے میرے جتنی ہی فکر مند ہوئی ۔۔ اور اس نے سی ایس اے لاہور کے تعاون سے اقلیتوں کو آئندہ اس امتحان کے لئے تیار کرنے کے لئے ایک منصوبہ تیار کیا۔۔ جس کو سی ایس اے نیشنل آوٹ ریچ پروگرام فار دا مینارٹیز کا نام دیا گیا۔۔ جس میں طے ہوا کہ پنجاب سے 15 سندھ سے 15 کے پی سے 10 اور بلوچستان سے 5 امیدواروں کو منتخب کرکے سی ایس اے لاہور ایک مہینہ مفت بلا کر تربیت دی جائے گی۔۔ تاکہ وہ انے والے دنوں میں منعقد ہونے والے امتحانات میں شامل ہوسکیں۔۔ مُجھے اس پروگرام کی سن گن تو کچھ عرصہ پہلے سے اس وجہ سے تھی کہ میں نے بہت کم نمبروں سے فیل ہونے والے مسیحیوں کی تلاش کی کوشش کی تھی۔۔ ان میں سے لاہور کے ایک امیدوار نے مجھے کچھ ذکر کیا تھا۔۔لیکن یہ پروگرام 8 جولائی سے شروع ہو رہا ہے۔مُجھے اس بات کا پتہ 30 جون کو لگا۔۔ میں پہلی جولائی کو ایک وی لاگ کیا جسکے ردعمل میں ملک بھر سے اقلیتی نوجوان بچوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور پنجاب، ،کے پی کے،بلوچستان کے کئی نوجوانوں نے اس مہینے کے مفت پروگرام کے لئے امیدواروں کو منتخب کرنے کے طریقہ انتحاب میں ابہام اور بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی۔مذید تحقیق سے پتہ چلا کہ سی ایس اے کے آوٹ ریچ پروگرام کے ذمداروں نے اقلیتی نوٹ ایبل(قابل ذکر ) شخصیات اور صوبائی حکومتوں میں اقلیتوں سے متعلق وزارتوں یا اداروں کو رابطہ کیا انھیں جو سمجھ آیا مثلآ حکومت پنجاب سے ہیومن رائٹس اینڈ مینارٹیز کمشن کے ایک سیکشن افسر نے پندرہ نام اور کے پی سے یہ ہی فریضہ محکمہ اوقاف کے کسی افسر نے انجام دیا ہوگا۔۔ جس سے بہت سارے شکوک اور ابہام نے جنم لیا کہ اگر سی ایس اے نے بہترین امیدواروں کو منتخب کرنا تھا تو وہ 850 میں سے فیل ہونے والوں 846 میں سے کم نمبروں سے فیل ہونے والے بہترین نتجائج کے حامل لوگوں کو منتخب کر لیتے اور سرکاری خطوط سے متلقہ حکومتوں کو اطلاع دے دیتے اور اگر خرچہ صوبائی حکومتوں نے دینا تھا۔تو انھیں بل بھیج دیتے۔ اس سے وہ بہت سارے جھنجھٹ سے بھی بچ جاتے اور انے والے امتحانات میں نتجائج بھی بہترین آتے۔ لیکِن خضدار، لاہو اور مردان سے تین بہت معمولی نمبروں سے فیل ہونے والے جنکے نام ان 45 میں شامل نہیں ہیں۔۔ نے مجھے بتایا کہ صوبائی حکومتوں کے ذمداروں نے انتحاب اس بنیاد پر نہیں کیا۔ بلکہ اپنی پسند نہ پسند پر کیا ہے۔۔اور اگر میعار مقصد نیا ٹیلنٹ تلاش کرنا تھا ۔ امتحان میں بہترین نتجائج حاصل کرنا نہیں تھا تو پھر ٹوٹ ایبل ( قابل ذکر اقلیتیوں)اور صوبائی حکومتوں کی بجائے فیڈرل پبلک سروس کمیشن خود ہی صوبوں سے ایک طویل عرصہ لگا کر بہترین ٹیلنٹ تلاش کرتا ۔۔حقائق و شواہد بتا رہےہیں، کہ یہ دونوں میعار ہی نہیں رکھے گئے۔ جو کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا خاصہ ہوتے۔۔بلکہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے، کہ قابل ذکر اقلیتیوں اور صوبائی حکومتوں کے ذمدار اقلیتیوں نے وہ ہی راوئتئ ردعمل دیا آور وہ ہی امیدواروں کو منتخب کرنے میں وہ ہی طریقے اپنائے جو وہ ریاستی وسائل کو خرچنے میں اپناتے اپناتے ہیں۔ وفاق اور سارے صوبوں میں بیٹھے 38 اقلیتی نمائندوں کی اکثریت بھی اس سارے عمل سے لاعلم رہی۔۔7 جولائی کو تقریب ہوگی راوئتی قابل ذکر اقلیتی اس شامل ہوں گے۔اور 8 سے سی ایس اے کے بہترین اساتذہ اس بہترین مشن میں جٹ جائیں گے۔۔ کہ آئندہ آنے والے امتحان میں پاس ہونے والے امیدوار تیار کئے جائیں۔۔انکے لئے اور اس ٹریننگ کے لئے سلیکٹ ہونے والے(چاہے وہ جس بھی میعار پر سلیکٹ ہوئے ہیں )ہونے والے 45 نوجوانوں کے لئے نیک تمنائیں۔ مستقبل میں کامیابی کے لئے دعائیں۔۔۔بے شک یہ حکومت پاکستان کا ایک بہت ہی خوبصورت اور دوراندیشنہ اقدام ہے.لیکن ان 45 میں سے انے والے سالوں میں نتجائج کا دارومدار انکی سلیکشن کی بنیاد پر ہی ہوگا ۔امید ہے متلقہ ادارے اور افراد آیندہ اگر یہ پروگرام جاری رہتا ہے۔ تو ان گزارشات کا خیال رکھیں گے۔۔ اس سیریز کے اگلے مضمون میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا ۔کہ آخر وہ کیا اجتماعی نفسیات تھی جسکی وجہ سے 2020 مئی سے جاری اس آگاہی مہم کے نتیجے میں نہ 2021 نہ 2022 نہ 2023 کے ریگولر امتحان میں نہ 2024 کے امتحان میں اتنے اقلیتی نوجوان بچوں کی قابل ذکر تعداد ان امتحانات میں شریک ہوئی جتنے2023 کے اسپشل سی ایس ایس امتحان میں اقلیتی نوجوان اس امتحان بیٹھے تھے۔ آخر میں اس ٹریننگ پروگرام میں شامل ہونے کے خواہش مند ایسے امیدوار جو سمجھتے ہیں وہ اس ٹریننگ پروگرام میں شامل ہونے کے اہل تھے یا جن کو دیر سے پتہ چلا انکے لئے مشورہ کے آپ کے اجداد یہ امتحان کھلے مقابلوں میں بھی پاس کرتے رہے ہیں۔۔لہذہ اپنی منزل کا تعین کرکے مکمل یکسوئی، عزم کے ساتھ اپنی تیاری جاری رکھیں کیونکہ بقول بابا نجمئ
منزل دے متھے دے اتے تختی لگدیاں انھاں دی
جیڑے کھروں بنا کے ٹر دے نقشہ اپنے سفراں دا
ترجمہ
منزلوں پر تختیاں انھی کی نام لگتیں ہیں ۔
جو گھروں سے اپنے سفروں کے نقشے بنا کرنکلتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں