موسم یکدم بدل گیا ہے۔ آسمان پہ گڑگڑاہٹ ہو رہی ہے لیکن انتہائی بائیں، پھر دائیں جانب ہو رہی ہے۔ یہ جہاز کی آواز سے مماثل ہے۔ یہ اکتوبر آٹھ دو ہزار پانچ, رمضان میں ہونے والے ہولناک زلزلے کے بعد امدادی جہازوں کی آواز سے مشتبہ ہے۔ تب میں بیس سال پہلے قریب قریب آٹھ سال کا تھا۔ سوال در سوال عادت بن گئی تھی۔ ان جہازوں کا ہر دھڑکن بعد گزرنا اور آوازیں کسنا سوال پیدا کر رہا تھا۔ میں نے اپنی دکان بنائی تھی جہاں دنداسے، پتے، ٹہنیاں، ریت، بجری اور گھریلو اشیاء سجا رکھی تھیں جو گاہک آتے خرید لیا کرتے تھے اور بدلے میں نقلی نوٹ تھما جاتے تھے۔ ایک ٹرک نما جیپ تھی جسے رسی سے کھینچا کرتا تھا! یہ آواز ان دنوں کی بھی خبر دے رہی ہے جب پتیسے والے کو ردی بیچ کر پتیسا مل جاتا تھا اور قریب قریب انہی دنوں میں بکری کا میلا سجا تھا جو پاوے پہ چاروں ٹانگیں لیے جھولے جھولتی تھی۔ چند روز قبل جنگ کے دنوں میں بھی قریب قریب ایسی ہی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ یہ موسم کی تبدیلی میرے لیے پیغام رسانی کا ذریعہ ثابت ہوئی ہے اور مجھے چار لفظ عنایت ہو گئے ہیں!

ابھی ہوا چل رہی ہے۔ جعلی دار کھڑکی کی نوک سے ہوا اندر آرہی ہے۔ پردے لہلہانے لگ گئے ہیں۔ ماضی قریب کا پتہ دے رہی ہے۔ بارش ہوا کے رخ پہ بہہ رہی ہے۔ جب ہوا من جانب چلتی ہے اپنے ساتھ بارش کی بوندیں کھڑکی سے اندر پھینک رہی ہے۔ اندر کی دنیا محظوظ ہو رہی ہے۔ میں رات کے اس پہر باہر نظاروں سے لطف اندوز ہونے پہنچا تو کتوں کی بھونکنے کی آواز ایک پیغام سموئے ہوئے تھی۔ بلی بھی وہیں میاؤں میاؤں کہتے پائی گئی۔ یہ موسم کی تبدیلی فراخدلی اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کر رہی ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں