فرانسیسی Jean-Pierre Filiu اس کتاب A Historian in Gaza (غزہ: ایک تاریخ) کے مصنف ہیں، یہ کتاب انہوں نے اصلاح تو فرانسیسی زبان میں لکھی ہے، پروفیسر Jean-Pierre Filiu پیرس میں سائنسز پو میں مشرق وسطیٰ کے مطالعہ کے پروفیسر ہیں، اور کولمبیا یونیورسٹی اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسرز کے فرائض انجام دے چکے ہیں، ان کی یہ کتاب ونر آف دی مڈل ایسٹ مانیٹر فلسطیـن بُک ایوارڈ اور ایک گارڈین بک آف دی ایئر جیت چکی ہے۔ فرانسیسی مورخ ژاں پیئر فیلیو سنہء 1980 سے باقاعدگی سے فلسطیـن کا سفر کررہے ہیں، بلکہ وہ وہاں بولی جانے والی مقامی عربی بولی بھی جانتے ہیں، کہہ۔ اس کتاب کی اہمیت اس طرح سے زیادہ ہے کہ حالیہ دسمبر، سنہء 2024 میں، وہ ایک بار پھر غزہ میں داخل ہوئے، حالانکہ اس وقت وہاں پر ناقابل تصور مختلف حالات تھے اور اس وقت، سرحدی گزرگاہوں سے ہر ہفتے صرف دو قافلوں کو جانے کی اجازت تھی۔ جنوری سنہء 2025 میں، فیلیو واپس آیا۔ اس لئے یہ فلسطیـنی انکلیو کے اندر حالیہ دنوں میں حقائق کے بارے میں ان کی قریب ترین، عمیق دستاویز سمجھیں جاسکتی ہے۔
دسمبر سنہء 2024 کی ایک رات کو فرانسیسی مورخ ژاں پیئر فیلیو سخت ناکہ بندی اور حفاظتی رکاوٹوں کے باوجود رفح بارڈر کراسنگ کے ذریعے غزہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے، ان دنوں غزہ جو ایک ہرمیٹک طور پر مہر بند گنبد تھا، جس میں درد کی سرنگ کے علاوہ کوئی داخل نہیں ہو سکتا تھا، اور جس میں سے موت کے دروازے کے علاوہ کوئی نہیں نکل سکتا تھا، پئیر فیلیو نے 32 دن اس جہنم کے دل میں گزارے، بمباری کے زیر اثر لوگوں کی زندگی اور موت کو بیان کرتے، سنتے اور گواہی دیتے رہے۔اس تجربے سے مشرق وسطیٰ کی تاریخ میں مہارت رکھنے والے فرانسیسی محقق نے اپنی کتاب ’’غزہ میں تاریخ ساز‘‘ (لیس زرینز) میں ایک دردناک اور چونکا دینے والی گواہی پیش کی۔ 224 صفحات پر مشتمل کتاب کو 19 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے، ہر ایک عنوان کے ساتھ انسانی المیے کے ایک پہلو کو سمیٹتا ہے، بشمول: صدمہ، ہسپتال، موت، پانی اور انتظار بس۔ پئیر فیلو غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کی شہادتیں بھی اکٹھا کرتا ہے، جو روزانہ بمباری اور تباہی کی زد میں رہتے تھے۔ اپنی کتاب میں، فیلیو نے غزہ کی پٹی میں تباہی کی حد کے بارے میں چونکا دینے والے اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔
اس کتاب میں اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق پئیر فیلو دستاویز کرتا ہے، کہ 87 فیصد رہائشی عمارتیں مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ اور 1.9 ملین افراد کو ایک بار یا بار بار بھاگنے پر مجبور کیا گیا، جب کہ قدیم پناہ گاہوں میں رہنے والے ہر پناہ گزین کو ڈیڑھ میٹر سے زیادہ رہنے کی جگہ مختص نہیں کی گئی۔ غزہ میں انسانی نقصانات ناقابل تصور ہیں۔ ہسپتالوں میں سرکاری طور پر ریکارڈ کی جانے والی اموات کی تعداد 54,000 سے زیادہ ہے، جن میں 16,000 سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں۔ پئیر فیلیو کے مطابق اگر اس تعداد کا موازنہ فرانسیسی مردم شماری سے کیا جائے تو مرنے والوں کی تعداد 1.7 ملین فرانسیسی لوگوں کے برابر ہو گی۔ جب کہ اعداد و شمار میں تمام متاثرین شامل نہیں ہیں، کیونکہ ہزاروں لاشیں ملبے کے نیچے دبی ہوئی ہیں، ان کے علاوہ وہ لوگ جو بمباری، آگ، بھوک، بیماری، یا صحت کی سہولیات کی کمی سے مرے ہیں، اور پولیو جیسی بیماریاں اور وبائی بیماریاں، جو ختم ہونے کے بعد دوبارہ نمودار ہوئی ہیں، ویکسینیشن کے نظام کے خاتمے کی وجہ سے بھی دوبارہ پھیل رہی ہیں۔ پیئر فیلیو، جو غزہ کو کئی دہائیوں سے ایک پھلتے پھولتے سبز نخلستان کے طور پر جانتے تھے، بتاتے ہیں کہ کس طرح زندگی کے آثار غائب ہو گئے ہیں، ان کی جگہ ملبے اور تباہی نے لے لی ہے، اور وہاں لوگ انتہائی مصائب کے ساتھ زندہ رہنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
فرانسیسی مؤرخ نے صرف اعداد اور شماریات ہی نہیں ریکارڈ کیں بلکہ غزہ کے لوگوں کی باتیں سن کر انسانی مصائب کی گہرائیوں تک رسائی حاصل کی، جو دن رات بمباری کی زد میں رہتے ہیں، وہاں کیسے خاندانوں نے سب کچھ کھو دیا، اپنے گھروں اور یادوں سے لے کر ان کے سب سے قیمتی املاک، اپنے بچوں اور پیاروں تک کو وہ سب کھو رہے ہیں، کس طرح ہسپتالوں کو شفا یابی کے مراکز سے موت کے علاقوں میں تبدیل کر دیا گیا، ڈاکٹر بجلی کی بندش اور ادویات اور طبی آلات کی کمی کے درمیان اپنے ننگے ہاتھوں سے زخمیوں کا علاج کر رہے تھے۔ قبرستان اب اتنے بڑے نہیں تھے کہ متاثرین کو ٹھہرا سکیں، جس کی وجہ سے خاندان اپنے مردوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کرنے پر مجبور ہو گئے، یہ منظر انسانی تاریخ کے تاریک ترین ادوار کی یاد دلاتا ہے۔ یہاں تک کہ پانی، زندگی کا بنیادی ذریعہ، بھی اب دستیاب نہیں رہا، اور انتظار ایک تکلیف دہ روزمرہ کا مقدر بن گیا جہاں روٹی اور دوا کا انتظار، اور موت کا بھی انتظار، جو ہر کسی کے لیے کسی بھی لمحے آ جاتی ہے۔
ایک وسیع تر تاریخی تناظر میں غزہ ہمیشہ سے تاریخ بھر میں تنازعات کا میدان رہا ہے، سکندر اعظم کے دور سے، جس نے 332 قبل مسیح میں 100 دن تک اس کا محاصرہ کیا، اسلامی دور تک، جس نے اسے ایک تجارتی اور سائنسی مرکز کے طور پر پھلتے پھولتے دیکھا، عثمانی حکومت تک جس نے شہر میں قتل عام دیکھا۔ سنہء 1525 تا سنہء 1948 کی جنگ کے بعد، غزہ کو لازمی فلسطین کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ ملا، جس نے اسے موت سے بھاگنے والوں کے لیے “نوح کی کشتی” میں تبدیل کر دیا۔ لیکن آج بھاگنے کی جگہ نہیں ہے۔ سکندر اعظم نے 332 قبل مسیح میں غزہ کا 100 دن تک محاصرہ کیا، اور عثمانی حکومت میں بھی وہاں پر مقامی آبادیوں کا قتل عام ہوا، جس سے سنہء 1525 تک شہر میں صرف ایک ہزار خاندان رہ گئے۔ سنہء 1948 کی جنگ کے بعد تک غزہ موت سے بھاگنے والوں کے لیے “نوح کی کشتی” بن گیا۔
فرانسیسی محقق ژاں پیئر فیلیو نے صحافتی سچائی اور انصاف کے اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے مغربی میڈیا کو اسرائیـلی بیانیہ کے سامنے پیش کرنے پر تنقید کی۔ قتل عام کی سچائی پر شک کرنے اور ان کے اثرات کو کم کرنے کی دانستہ کوشش میں متاثرین کی رپورٹیں اکثر “اسلامی ھماس تحریک کے مطابق…” کے جملے کے ساتھ ختم ہوتی ہیں۔ جیسا کہ اسرائیـلی میڈیا کا دعویٰ ہے، ان الزامات کو منظم پروپیگنڈے کا حصہ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اسرائیـلی اور مغربی گفتگو پر بھی انگلی اٹھائی، جو زیر حراست افراد کے خاندانوں کے درد اور 50,000 سے زائد متاثرین کے سانحات کے درمیان “توازن” قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے، جن میں زیادہ تر معصوم بچے اور خواتین ہیں۔ ژاں پیئر فیلیو اس سانحہ کو بیان کرنے پر نہیں رکے بلکہ خاموش بین الاقوامی تعاون کی مذمت کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ دنیا غزہ میں قتل عام کو روکنے کے لیے حقیقی اقدامات کیے بغیر روزانہ موت کو دیکھتی ہے۔ اسرائیـلی قبضے کی تباہ کن پالیسی کو عالمی برادری کی جانب سے حقیقی مزاحمت کا سامنا نہیں ہے اور یہ کہ محدود انسانی امداد عام شہریوں کی جانیں بچانے کے لیے ناکافی ہے۔ یہ پیچیدگی، ان کے خیال میں، سانحہ کا ایک لازمی حصہ ہے، کیونکہ یہ موت کو معمول بناتی ہے اور انصاف کی امید کو ختم کردیتی ہے۔
اس کتاب میں ژاں پیئر فیلیو نے تسلیم کیا کہ زبان ان ہولناکیوں کو پکڑنے کے لیے بے اختیار ہے جس کا اس نے غزہ میں مشاہدہ کیا تھا۔ ملبے تلے کسی بچے کی موت کو کوئی کیسے بیان کر سکتا ہے؟ ملبے کے درمیان اپنے بیٹے کی لاش تلاش کرنے والی ماں کو کیسے بیان کیا جا سکتا ہے؟ یا بغیر دوائی یا بجلی کے زخمیوں کا علاج کرنے والا ڈاکٹر؟ سانحے کی سنگینی کے سامنے الفاظ ڈگمگا جاتے ہیں، لیکن خاموش دنیا کے سامنے گواہی فریاد بنی رہتی ہے۔ اس تمام تباہی اور درد کے باوجود، فیلیو نے دعویٰ کیا کہ غزہ “وہ رحم ہے جہاں سے تحریک فدائین نے جنم لیا اور انتفاضہ کا گہوارہ” اور یہ کہ یہ عصری فلسطیــنی ریاست کی تعمیر کے مرکز میں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ غزہ فنا کی تمام تر کوششوں کے باوجود نہیں مرے گا، اور یہ مستقبل کے کسی بھی سیاسی حل کا سنگ بنیاد رہے گا۔ ژاں پیئر فیلیو خبردار کررہا ہے کہ بین الاقوامی نظراندازی اور پسماندگی وہاں کے لوگوں کے مصائب کو بڑھا رہی ہے اور ان کے جائز حقوق کو تسلیم کیے بغیر امن کو ناممکن بنا رہی ہے۔ ژاں پیئر فیلیو کی یہ کتاب اس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ غزہ میں حقیقی اور دیرپا امن کا آغاز ہونا چاہیے، کیونکہ یہ انسانی ضمیر کے سب سے مشکل امتحان کی نمائندگی کرتا ہے، اور یہ کہ کوئی بھی حقیقی سیاسی حل فلسطینـی کاز کے دھڑکتے دل کے طور پر اس سے نکلنا چاہیے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں