بی بی، اگر آپ سن سکیں تو ایک عام پاکستانی کی فریاد سن لیں۔
ہم نے اس ملک کو جو کچھ دیا، وہ شاید کسی نے نہ دیا ہو۔ ہم نے اپنی محنت کی کمائی سے تنخواہ لی، اس پر انکم ٹیکس دیا۔ جب وہی پیسہ بینک سے نکالا تو وہاں بھی کٹوتی ہوئی۔ پچاس ہزار نکالے، تو الگ سے ٹیکس دے دیا۔ مطلب پیسہ ہمارا، مگر ہر موڑ پر چھینا گیا۔
موبائل ریچارج کیا، اس پر ٹیکس۔ اسی ریچارج سے انٹرنیٹ پیکیج خریدا، اس پر الگ ٹیکس۔ پھر اسی پیکیج سے کال کی، وہاں بھی ٹیکس۔ نیٹ چلایا، تو ہر ایم بی پر بھی ٹیکس۔ یعنی ایک ہی رقم پر چار چار بار ریاست نے ہاتھ صاف کیا۔
ہم نے جو کچھ خریدا، چاہے دال ہو یا چینی، صابن ہو یا چاول، ہر چیز پر جنرل سیلز ٹیکس دیا۔ فریج، پنکھا، کولر خریدے، تو سیلز ٹیکس کے ساتھ ساتھ الگ الگ ڈیوٹیاں بھی دیں۔ آن لائن چیز لی، تو وہاں بھی پورا حساب لیا گیا۔
پیٹرول بھروایا، تو اس پر بھی حکومت نے لیوی اور جی ایس ٹی لگا دیا۔ بجلی اور گیس کے بل بھرے، تو ہر سطر پر نیا نام دے کر جیب سے پیسے نکلوائے۔ یہاں تک کہ شناختی کارڈ، ب فارم، برتھ سرٹیفکیٹ، پاسپورٹ جیسے بنیادی دستاویزات بھی بغیر ٹیکس یا فیس کے نہیں ملتے۔
گاڑی لی، تو رجسٹریشن، ٹوکن، ایڈوانس انکم ٹیکس تک دے دیا۔ مکان خریدا یا بیچا، تو اسٹامپ ڈیوٹی، کیپٹل ویلیو ٹیکس اور جانے کیا کیا دینا پڑا۔ حتیٰ کہ اپنے ہی پیسے بینک میں جمع کرائے یا نکلوائے، وہاں بھی ود ہولڈنگ ٹیکس کاٹ لیا گیا۔
یہ سب کچھ دینے کے بعد اگر ہم سوال کر لیں کہ ہمیں بدلے میں کیا ملا، تو کیا یہ گناہ ہے؟ کیا ہم اس ملک کے شہری نہیں؟ کیا ہمیں یہ حق نہیں کہ ہم اپنی قربانیوں کا حساب مانگیں؟
ہم نے تو ہر قدم پر ریاست کی مان لی، اس کی مشینری کو اپنے خون پسینے سے چلایا۔ لیکن بدلے میں ملا کیا؟ نہ صحت کا نظام، نہ معیاری تعلیم، نہ سستا انصاف، نہ روزگار، نہ تحفظ، نہ عزت۔
جب ہماری باری آتی ہے تو ہمیں لائنوں میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ آٹا لینے کے لیے دھکے کھاتے ہیں۔ اسپتال میں دوا نہیں ملتی۔ دودھ میں کیمیکل ہے، دوائیں جعلی ہیں۔ تعلیم فرسودہ ہے، عدالتوں میں رسوائی ہے، سڑکوں پر خون ہے۔
اور وہ اشرافیہ جو ہمارے ٹیکسوں سے پل رہی ہے، وہی بیرون ملک گھومتی ہے، محلات میں رہتی ہے، اولاد کو باہر تعلیم دلواتی ہے، دنیا کی ہر آسائش ان کے قدموں میں ہے۔
اور ہم؟ ہم صرف قربانی دینے کے لیے رہ گئے ہیں۔ جب زبان کھولتے ہیں، تو ہمیں غدار کہا جاتا ہے، اٹھا لیا جاتا ہے، خاموش کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ سچ میں طاقتوروں کے لیے سب سے خطرناک چیز ہے۔
اور اس سب پر مستزاد یہ کہ مسلکی اور مذہبی دہشتگردی کا شکار یہ قوم الگ سے پچھلے پچاس برسوں سے قوم کو لسانی، نسلی اور مذہبی منافرت کی بنیاد پر منظم طریقے سے ذبح ہوتے دیکھ رہی ہے، اور ریاست تماشائی بنی ہوئی ہے۔ وہی ریاست جسے انصاف دینا تھا، وہی ریاست جو ماں بننے کا دعویٰ کرتی ہے، وہی ریاست خاموشی سے تماشا دیکھتی ہے۔
بی بی، پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں غریب، دن رات محنت کر کے، ٹیکس دے کر، ان امیروں کو پالتے ہیں جو اسے اپنی جاگیر سمجھ بیٹھے ہیں۔
ہم نے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ اب سوال صرف اتنا ہے: کیا ریاست نے اپنی ذمہ داری نبھائی؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں