• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کلچر امپیریلزم ، موبائل سنیما اور عوامی بیانیہ کی واپسی/سائرہ رباب

کلچر امپیریلزم ، موبائل سنیما اور عوامی بیانیہ کی واپسی/سائرہ رباب

کبھی وقت تھا کہ سنیما صرف تفریح کا ذریعہ نہیں، ایک اجتماعی تجربہ ہوتا تھا۔ لوگ شام کے وقت سنیما ہال کا رخ کرتے، ٹکٹ کی قطار میں لگتے، چاٹ پکوڑے پاپ کارن کھاتے، اور پردے پر کہانیوں کا جادو چلتا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فلمیں صرف گانوں یا ہیرو کے ایکشن پر نہیں، بلکہ عام انسان کی زندگی، اس کے دکھ درد، جدوجہد اور جذبات پر مبنی ہوتی تھیں۔

سنیما اس شخص کی زبان بولتا تھا جو کھیت میں کام کرتا تھا، فیکٹری میں مشین چلاتا تھا، یا شہر کے حاشیے پر جی رہا تھا ۔ کئی فلم ساز تھے جنہوں نے نوآبادیاتی ورثے کے زخموں کو محسوس کیا، اور کیمرے کے ذریعے اس تاریخ کو واپس عوام کے ہاتھ میں دیا۔ یہ سنیما صرف کہانی نہیں سناتا تھا، بلکہ علم و اظہار کو اُن ہاتھوں میں لوٹاتا تھا جن سے سامراج نے سب کچھ چھینا تھا ۔۔ یہ دراصل ایک ثقافتی decolonization تھی، جہاں سچ عوام کی زبان میں بولا جاتا تھا، نہ کہ حکمران طبقے کے لہجے میں۔

ستر اور اسی کی دہائی کا سنیما ایک ایسا وقت تھا جب امیتابھ بچن کا ہیرو “شہزادہ” نہیں، بندرگاہ پر کام کرنے والا مزدور تھا؛ “دیوار”، “زنجیر”، “کالا پتھر” جیسی فلموں میں وہ عوام کے غصے اور محرومی کی آواز بن کر اُبھرے۔ بلراج ساہنی کی دو بیگہ زمین اور راج کمار کی مزدور جیسی فلمیں ان مزدوروں، کسانوں، اور گاؤں والوں کی کہانیاں تھیں جنہیں آگے جا کر گلیمر نے نگل لیا۔ یہ سنیما اس وقت کے اسٹریٹ کلچر، عوامی جذبات، اور اصل زندگی سے جڑا تھا ۔۔۔۔۔ جو وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ گلوبلائزڈ “پریم کہانیوں” میں بدل گیا۔

پھر نوے کی دہائی آئی۔ مارکیٹ نے فلم کو بھی نگل لیا۔ بڑے بڑے بزنس مین، بڑی بڑی کمپنیاں، اور ان کے بڑے بڑے بجٹ۔ اب فلم وہی بنے گی جو بکے گی۔ اسٹارز، گلیمر، اور وہی ایک ہی چہرے بار بار۔ چھوٹے پروڈیوسر، اصل لکھاری، یا گاؤں دیہات کی کہانیاں؟ ان کے لیے دروازے بند ہونے لگ گئے۔ کئی فلمیں جو کچھ کہنا چاہتی تھیں، ریلیز سے پہلے ہی روک دی گئیں۔ جو ذرا “زیادہ بولتی” تھیں، انہیں سنسر کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک طرح کا “خاموش کر دو” سسٹم بن گیا تھا۔ بڑے سنیماز اور سکرینز پر کارپوریٹ قبضہ ہو گیا، انڈیپنڈنٹ فلم سازوں، ڈائریکٹرز، کہانی نویسوں کے لئے سپیس ختم ہو گیی۔

نوے کی دہائی میں اگرچہ کچھ حد تک قومی یا روایتی ثقافت فلموں میں باقی رہی، لیکن گلی محلوں کی زندگی، عام آدمی کی آواز، اور اسٹریٹ کلچر آہستہ آہستہ پردے سے غائب ہوتا گیا۔ اس دور میں “دل والے دلہنیا لے جائیں گے”، “پردیس”، “ویر زارا”، “کچھ کچھ ہوتا ہے” اور “کبھی خوشی کبھی غم” جیسی فلمیں ضرور آئیں، جنہوں نے جذبات کو چھوا، مگر یہ سب بھی ایک خاص گلیمرائزڈ اور مڈل کلاس دنیا کے گرد گھومتی تھیں۔

2000 کے بعد تو معاملہ ایک قدم اور آگے بڑھا، جہاں مقامی اقدار، زبانیں، اور ثقافتی رنگ عالمی منڈی میں ضم ہو کر اپنی شناخت مکمل طور پر کھونے لگے۔ ثقافتی سامراجیت (culture imperialism) اب صرف پس پردہ قوت نہ رہی، بلکہ فلمی پردے پر اپنے عروج پر نظر آنے لگی۔ لباس، وضع قطع، سیٹنگ سے لے کہانی اور موضوعات تک میں وہ مخصوص اور منفرد کلچرل رنگ یکسر غائب ہو گیا۔

لیکن قدرت کو بھی چمتکار کرنے آتے ہیں۔ جب سب دروازے بند ہوئے، تو موبائل فون، انٹرنیٹ اور OTT پلیٹ فارمز نے ایک کھڑکی کھول دی۔ اب نہ بڑے سیٹ اور اربوں کے بجٹ کی ضرورت، نہ بڑے پروڈیوسر اور کارپوریٹ کی مرضی۔ ایک موبائل، تھوڑی سی ہمت، اور ایک سچی کہانی ۔۔۔۔ بس اتنا کافی ہو گیا۔ “پنچایت”، “دو پہیہ”، “کٹھل”، “The Village”، “انسپکٹر رشی ” لا پتہ لیڈیز جیسی کہانیاں اسی کھڑکی سے داخل ہوئیں۔

یہ فلمیں کسی بڑے شہر یا بزنس کلاس کی نہیں، بلکہ اُن لوگوں کی ہیں جو گاؤں کی ٹوٹی پھوٹی گلیوں، چھوٹے گھروں اور اپنے لہجے کے ساتھ زندہ ہیں۔ وہ لہجے جنہیں پہلے کمتر سمجھا جاتا تھا، اب سکرین پر راج کر رہے ہیں۔

جیسے ہی OTT پلیٹ فارمز نے راستہ کھولا، صرف شمالی ہند ہی نہیں بلکہ جنوبی ہندوستان کی فلموں اور کہانیوں نے بھی ایک نئی جان پکڑی۔ “کانتارا”، “کالا”، “کڈمبن”، “جے بھیم”، “پشپا” جیسی فلمیں اور ویب سیریز صرف فلمی تجربہ نہیں، بلکہ عام انسان کی زبان، دکھ، زمین، اور روزمرہ کی جدوجہد کی عکاسی تھیں۔ جن آوازوں کو سنا ہی نہیں جاتا تھا ، انکی گونج پوری دنیا میں سنائی دی ۔

یہ وہ کہانیاں تھیں جن میں مٹی کی خوشبو تھی، ماہی گیروں، کسانوں، آدی واسیوں، اور محنت کشوں کی خاموش چیخ تھی، بالکل اسی طرح جیسے “پنچایت”، “دو پہیہ” یا “کٹھل” نے چھوٹے شہروں اور عام گھروں کی زندگی کو بے ساختگی سے پیش کیا۔ ان فلموں اور ڈراموں نے گلیمر کے بجائے سچائی کو جگہ دی، اور دکھایا کہ اصل سنیما وہ ہے جو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتا ہے، نہ کہ صرف اسٹوڈیو کے مفاد پر۔

انڈین پنجابی سنیما نے بھی اپنی زبان، لوک گیت، اور ثقافت کو نہ صرف فلموں کے ذریعہ زندہ رکھا بلکہ دنیا تک پہنچایا ۔اور نئی نسل کو اپنی جڑوں سے جوڑنے کی کوشش بھی کی۔ دلجیت، امریندر گل، اور گپی گریوال جیسے فنکار آج بھی پنجابی زمین کی خوشبو اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں۔اس کے برعکس، پاکستانی پنجابی سنیما ۔۔۔ جو ایک وقت میں پورے ملک کا مقبول اظہار تھا ۔۔۔ آج صرف “دی لیجنڈ آف مولا جٹ” جیسی چند فلموں تک محدود ہو چکا ہے، اور وہ بھی زیادہ تر ایکشن یا nostalgia پر مبنی ہیں، نہ کہ روزمرہ پنجابی زندگی کے بیانیے پر۔

یہ صرف فلمیں نہیں، بلکہ ایک انقلاب ہے۔ سامراجی بیانیہ ہمیشہ دہلی، ممبئی، یا لندن جیسے “طاقتور” شہروں سے آتا تھا۔ مگر اب قصبے، چھوٹے شہر، اور مقامی زبانیں کہہ رہی ہیں کہ ہم بھی ہیں، ہماری بھی کہانیاں ہیں، اور ہم بھی بولیں گے۔ یہی تو اصل “ڈی سینٹرنگ” (decentring) ہے۔۔۔ طاقت کے مرکز سے بیانیے کی واپسی۔

یہی بات طاقت والوں کو سب سے زیادہ کھٹکتی ہے۔ اسی لیے جب دلجیت دوسانجھ جیسے فنکار اپنی فلم “سردار جی 3” میں پنجاب، محبت، اور مشترکہ ورثے کی بات کرتے ہیں، تو ان پر پابندیاں لگتی ہیں۔ وہی پرانی حکمتِ عملی: جو بات کرے، اسے “غدار” کہہ دو، جو جوڑے، اسے خطرہ بنا دو۔ جیسے فنکار کی فلم نہیں، پوری قوم کی حفاظت خطرے میں آ گئی ہو۔

یہی فن، یہی بیانیہ سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے …… کیونکہ یہ جوڑتا ہے، بانٹتا ہے، اور سچ بولتا ہے۔ اور جب سچ بولنے والے بڑھنے لگیں، تو پھر بڑے بڑے پروپیگنڈا ہِل جاتے ہیں۔ اب جو فلم ایک چھوٹے سے گاؤں میں بنے، وہ پوری دنیا میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اب کہانی کسی ایک سٹوڈیو کی جاگیر نہیں، بلکہ ہر اُس انسان کا حق ہے جو کچھ کہنا چاہتا ہے۔

تو جو آج ہو رہا ہے ….. پابندیاں، سنسر، اور دباؤ ….. وہ سب اسی خوف کا اظہار ہے ۔۔۔کہیں لوگ سچ سننے نہ لگ جائیں، کہیں ثقافت واپس گلی کوچوں میں نہ آ جائے، اور کہیں انسان، انسان سے پھر نہ جڑ جائے۔.

پاکستان میں بھی وقت آ چکا ہے کہ ہم اس پلیٹ فارم کو صرف تفریح نہیں، اظہار کا ہتھیار سمجھیں۔اور طاقت کے بیانیوں کا مقابلہ کریں ۔ گلیوں، چھتوں، کھیتوں، تھڑوں, دیہاتوں، قبیلوں اور برتن مانجھتی ماؤں کی کہانیاں بھی کہی جائیں ۔۔۔ وہ سچ جو اب تک دبایا گیا، وہ چہرے جو پس منظر میں دھکیل دیے گئے۔ ہر وہ فنکار، ہر وہ کہانی گو، جو صرف اس لیے خاموش ہے کہ وسائل نہیں ، اب اسے بولنا ہو گا، یہ عوامی ہونک ہے جس سے سامراجی بیانیے لرز سکتے ہیں ۔۔۔۔ اگر ہم چاہیں، تو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply