ہمارے سکولوں کے بَیج اور مختلف ’’ہاؤسز،‘‘ قومی پرندے اور جھنڈے، گیتوں کے الفاظ، حیرت یا خوف کے وقت عام استعمال کے الفاظ، جیسے استغفراللہ یا اوہ گاڈ، تہوار اور مہینوں اور ہفتے کے دنوں کے نام وغیرہ سبھی میں مذہب کا عنصر گھسا ہوا ہے۔ مذہب آج زندگی سے جدا ہے، لیکن معلوم سماجی تاریخ کے 95 فیصد حصے میں یہ زندگی کا بلکہ زندگی اِس کا جزو تھی۔ جب ریوڑ اور کھیت کی پیداوار کے علاوہ صنعتی پیداوار بھی شروع ہوئی تو زندہ رہنے کے وسائل کچھ یقینی ہو گئے۔ تجارت نے مذہب کا رنگ ہلکا کیا، لیکن تجارت نے ہی اِسے نئے انجان علاقوں تک پہنچایا۔ امریکہ اور افریقہ میں مسیحیت پہنچنے کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
لیکن شاید آرٹ میں مذہب کے موضوعات سب سے زیادہ سرایت کیے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ڈراما مذہب کی پیداوار ہے۔ پہلے میں نویں اور دسویں محرم کے جلوسوں کو اور طرح سے دیکھتا تھا۔ اب مجھے اُن میں ایک آرٹ کے اظہار کی مسخ شدہ خواہش دکھائی دیتی ہے۔ یہ شبیہ یا مثل بنانے سے نفرت کی وجہ سے مسخ ہوئی۔ لیکن یہ تمام ڈراما، ماتم، عزا داری، اچھے بھلے انسانوں کا کچھ دن کے لیے ایک اور ہی کیفیت میں رہنا بہت سے ادب اور شاعری کی جان رہا ہے۔ کبھی منبر پر نصیر الاجتہادی اور طالب جوہری بیٹھا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ شام غریباں پڑھتے ہوئے طالب جوہری نے کہا کہ جاؤ جا کر دیکھ لو بائبل، وہاں لکھا ہے: ہم نے فرات کے کنارے ایک ذبیحہ مقرر کیا ہے۔ تب میں نے اپنے دادا کی چھوڑی ہوئی بائبل شاید پہلی بار شوق اور تجسس سے کھولی۔ طالب جوہری کے بتائے ہوئے باب اور آیت کو ڈھونڈا، وہاں واقعی یہ لکھا تھا۔ الفاظ سب کے، تعبیر ہماری۔
اگر ہم آرٹ، شاعری اور ادب پسند کرتے ہیں تو ضروری نہیں کہ اُس سے متعلق مذہب یا عقائد کے بھی پیروکار یا معترف بن جائیں۔ نہ ہی پیروکار ہونے کا مطلب ہے کہ اُن کو پسند بھی کرنا شروع کر دیں۔ مگر اُنھیں ایک انسانیت پسندانہ نظر سے دیکھا تو جا ہی سکتا ہے۔ کیا ہم بائبل کے اِس جملے سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے: ’’اے یروشلم، اگر میں تجھے بھلا دوں تو میرا دایاں ہاتھ اپنا ہنر بھول جائے۔‘‘ اور قرآن میں بھی کئی خوب صورت جملے مل جائیں گے۔
میں نے اجتماعی انسانی ادبی و فکری میراث کو اُس کے تناظر میں سراہنا ول ڈیورانٹ سے سیکھا ہے۔ اسے پڑھنے کے بعد آپ اپنے سے مختلف عقائد پر ہنستے نہیں، بلکہ اُنھیں انسانی حالت کا مظہر سمجھ کر زیر غور لاتے اور اپنا انسانی تجربہ وسیع تر کرتے ہیں۔
کیا ذوالجناح کے کان میں اذان دینا آپ کو اور ہمیں مضحکہ خیز لگتا ہے؟ ایک بار اپنی دعاؤں کے جوہر اور اپنے نام کے مطلب پر پھر سے غور کریں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں