نوحۂ مرد/عارف خٹک

ہاں، میں مرد ہوں
اور ہاں، میں نے قتل کیے
مگر اب میرے ہاتھوں کی لکیر بھی چیخ پڑی ہے
کہ اور کتنا؟ اور کتنا؟

میں وہی ہوں
جس نے صدیوں تک خود کو خدا سمجھا
اور جب کوئی سچ بولنے آیا
تو میں نے اُسے کافر کہا اور قتل کر دیا

میں نے تخت بنائے
اور ان پر سروں کے مینار سجائے
مگر اب…
میری سلطنت میں بھوک ناچتی ہے
اور میرے بچے روٹی کے بدلے
اپنے خواب بیچ رہے ہیں

یعقوب کے بیٹوں نے
محمد کے امتیوں کو بھوکا مارا
تو میں نے پوچھا،
کیا یہی تمہاری مردانگی ہے؟
جواب آیا
ہاں، ہم فاتح ہیں

میں ہنسا… اور رو دیا
کیونکہ جس فتح میں بچوں کی لاشیں ہوں
وہ تاریخ نہیں، وہ لعنت ہے

اب نہیں
اب میں مرد ہوں،
مگر وہ مرد نہیں
جو ہنر میں چھپا ہو
جو نرگس کے خواب میں تلوار بنے

میں وہ مرد بنوں گا
جو روئے گا… لیکن لڑے گا
جو لرزے گا… مگر جھکے گا نہیں
میں اب رذیل نہیں رہوں گا
میں اب وہ رہوں گا
جو قلم سے تلوار کا انتقام لے گا
جو اذان سے بندوق کا جواب دے گا

میں نے بہت ظلم سہہ لیے
اب اگر میرا بچہ روئے گا
تو میں چیخوں گا اور تم سنو گے

julia rana solicitors london

اب تمہاری دھاک نہیں بچے گی
اب تمہارے مذہب سے خون کی بو ختم ہوگی
اب میں مرد نہیں…
اب میں مزاحمت ہوں

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”نوحۂ مرد/عارف خٹک

Leave a Reply