سیاسی اختلافِ رائے (3)-مرزا مدثر نواز

جس طرح وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگ ہے‘ اسی طرح اختلاف رائے بھی اس دنیا کی رنگینی کا باعث ہے۔ چمن میں اگر ایک ہی قسم کے پودے ہوں یا پھلواڑی میں ایک ہی قسم کے پھول ہوں تو اتنا دلکش و حسین منظر نہیں ہوتا جبکہ اس کے مقابلے میں کسی پھلواڑی میں مختلف انواع و اقسام کے پھولوں کی موجودگی زیادہ باعثِ دلکشی و مسرت ہوا کرتی ہے۔ انسانی معاشرے کی مثال بھی اس چمن کی سی ہے جس میں ہر رنگ‘ شکل اور خوشبو کے پھول ہیں یعنی ہر گل کی انفرادیت اس کی گواہی دے رہی ہے۔ اختلافِ رائے ایک ایسی حقیقت ہے جو تا قیامت رہے گی۔ مہذب معاشروں میں اختلاف رائے کو احترام کے ساتھ برداشت کیا جاتا ہے‘ تنقیدی آوازوں کو گولی و گالی کی بجائے دلائل سے شکست دی جاتی ہے۔ انسان کے ذمہ کسی بھی معاملے میں اپنے علم کے مطابق اپنا نکتہء نظر بیان کرنا ہوتا ہے نہ کہ اپنی رائے کو تلوار کے زور پر دوسروں پر مسلط کرنا یا منوانا۔ رائے کے اختلاف کو کبھی بھی مخالفت کا روپ نہیں دھارنا چاہیے۔
اختلاف رائے کو ہم کتنا احترام دیتے ہیں‘ کسی بھی مذہبی و سیاسی پوسٹ کے نیچے دیئے گئے دل دکھا دینے والے تبصروں سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ٹیکنالوجی کے موجودہ دور میں ہر کوئی صرف وہی بات پڑھ اور سن رہا ہے جو اس کے مؤقف کو تقویت بخشے‘ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں بتدریج دوریاں پیدا ہو رہی ہیں۔
؎ اک اختلافِ رائے پر اس درجہ برہمی
کیوں دوست تو نے ہجر کی شمشیر کھینچ لی۔ (شبیر نازش)
سیاسی پسند و ناپسند کے بارے میں عدم برداشت اس نہج کو پہنچ چکی ہے کہ بڑے بڑے تعلیم یافتہ افراد بھی صلواتیں سناتے نظر آتے ہیں۔ نفرت کا جذبہ اس حد تک ہے کہ مدّمقابل کی دلیل سنے بغیر اس کے غلط ہونے کا فیصلہ سنا دیا جاتا ہے۔ درست معانی میں برداشت دوسروں کا مؤقف سمجھنے سے شروع ہوتی ہے اور اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ کو یہ احساس ہے کہ دوسرے کیسے آپ سے مختلف سوچتے ہیں۔ احترام پر مبنی مکالمہ ایک ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنے نظریاتی اختلافات کو حل کر سکتے ہیں۔ مکالمہ زندہ معاشرے کی پہچان ہے۔ مثبت تنقید اصلاح کا ذریعہ اور نئی تحقیق کی بنیاد ہوتی ہے۔ اختلاف اگر اخلاص اور اخلاق کے دائرے کے اندر رہ کر کیا جائے تو بہت اچھی بات ہے جبکہ اس کے برخلاف اگر اختلاف کا مقصد صرف اور صرف دوسروں کی تذلیل اور اپنی برتری ثابت کرنا ہو تو یہ ایک قابلِ مذمّت بات ہے۔
صدّیق سالک صاحب نے اپنی کتاب ”تادمِ تحریر“ میں لکھے گئے ایک مضمون میں اختلافِ رائے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ہماری روزمرّہ زندگی میں اس کا ہونا کیوں ضروری ہے۔ اس مضمون کو انہی کی زبانی پڑھ کر اختلافِ رائے کی اہمیت کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں نے سوچا کہ ایم اے کے لیے تحقیقی مقالہ تو لکھنا ہی ہے کیوں نہ شادی کو ہی موضوع بنایا جائے۔ ایک تو موضوع حقیقی ہو گا‘ دوسرا انٹرویو وغیرہ کے سلسلے میں حسینوں سے ملاقات رہے گی۔ لہٰذا میں نے موضوع کی منظوری حاصل کرنے کے بعد انٹرویو کا آغاز کر دیا۔ سب سے پہلے جو حسینہ میرے ہاتھ آئی وہ ایم اے کرنے کے بعد بے روزگاری کے دن گزار رہی تھی‘ معلوم ہوتا تھا کہ وہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد کئی انٹرویو دے چکی ہے لیکن اسے کہیں بھی ازدواجی زندگی میں داخلہ نہ مل سکا۔ میں نے ہمدردی کے انداز میں اس سے کہا: کیا وجہ ہے کہ آج تک آپ کو اپنی پسند کا لڑکا دستیاب نہ ہوا؟ کہنے لگی: میرے خیال میں بنیادی مسئلہ پسند یا نا پسند کا نہیں بلکہ عمر کا ہے‘ جب شادی کا وقت ہوتا ہے اس وقت تعلیم نا مکمل ہوتی ہے اور جب تعلیم مکمل ہوتی ہے تو لڑکے والوں کی نظر میں ہم اوورایج ہو چکی ہوتی ہیں‘ سمجھ میں نہیں آتا کہ زندگی کی اہم ضرورت کیا ہے۔ شادی یا تعلیم۔ کیونکہ دونوں کے الگ الگ اور بعض اوقات بالکل متضاد تقاضے ہوتے ہیں۔
میں نے یہی بنیادی نکتہ بعد ازاں حسینہ نمبر۲ کے سامنے پھینکا تو اس نے سراسر اختلاف کرتے ہوئے کہا:۔ شادی کا عمر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا‘ یہ تو دو دلوں کا میل ہے۔ جب اور جہاں یہ میل رونما ہو جائے شادی کا واقعہ رونما ہو سکتا ہے۔ میں نے محققانہ انداز میں ایک تیکھا سا سوال اٹھاتے ہوئے یوں قطع کلامی کی کہ دلوں کے میل میں بھی تو عمر کا دخل ہوتا ہے‘ میرا مطلب ہے اگر چراغ میں روغن ہی ختم ہو جائے تو لَو اونچی کرنے کی سعی لاحاصل ہوتی ہے۔ میری مخاطب نے ایک منجھی ہوئی مقررہ کی طرح میری دلیل کو رد کرتے ہوئے کہا:۔ آپ کا نکتہ نظر لا ابالی معلوم ہوتا ہے‘ دلوں کا میل درحقیقت مشترکہ ذوق کا مرہون منّت ہوتا ہے اور آپ کو پتہ ہے کہ ذوق کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔
اب میں حسینہ نمبر۲ کو وہیں چھوڑ کر مشترکہ ذوق کی تلاش میں روانہ ہواتو حسینہ نمبر۳ سے مڈ بھیڑ ہوئی۔ یہ محترمہ کافی عرصہ سے اس دشت کی سیاحی کر رہی تھیں۔ میرے استفسار پر اس نے کہا:۔ ”میں نے قدیم رواج کے مطابق والدین کی پسند کے لڑکے سے شادی کرنے سے انکار کر دیا۔ کیونکہ وہ نیم رشتہ دار ہونے کے علاوہ نیم تعلیم یافتہ اور نیم اجڈ بھی تھا۔ ظاہر ہے کہ اس میں میرے ذوق کی کوئی چیز نہیں تھی“۔ ”تو کیا اپنے ذوق کا لڑکا تلاش کرنے میں کوئی کامیابی ہوئی؟“۔ ”نہیں ابھی تو نہیں‘ لیکن اس میں مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں ہے‘ ابھی تک تلاش نامکمل ہے۔ آج تک صرف تیرہ نوجوانوں سے ملی ہوں‘ بدقسمتی سے ان میں سے کوئی بھی میرے ذوق کے مطابق نہیں نکلا۔ ایک صاحب بظاہر بہت موزوں تھے لیکن جب پتہ چلا کہ وہ ایم ایس سی کیمسٹری  ہیں تو مجھے اس کے تھری پیس سوٹ سے بھی لیبارٹری کی بدبو آنے لگی۔۔۔“ میں نے دخل اندازی کرتے ہوئے کہا:۔ ”میں آپ کے ذوق لطیف کی داد دیتا ہوں لیکن لیبارٹری میں پل کر جوان ہونے والوں کے علاوہ بھی تو کچھ لوگ زندہ ہیں اس جہاں میں“۔ ”ہاں کیوں نہیں اس تلاشِ پیہم میں ادب کے ایک باذوق طالب علم سے بھی واسطہ پڑا‘ ابتدائی ملاقاتیں خاصی پر لطف رہیں لیکن ساتویں ملاقات میں انکشاف ہوا کہ وہ کلاسیکی ادب کا شوقین ہے جبکہ میں جدید ادب پر جان چھڑکتی ہوں اور آپ کو معلوم ہی ہے کہ کلاسیکی ادب اور جدید ادب میں کتنا فرق ہے“۔(جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply