یہ خبرنظرسے گزری تو سوچا اس پر کچھ ریسرچ کی جائے، جنات، ایک ایسی مخلوق جس کا تذکرہ دنیا کی مختلف تہذیبوں، مذاہب اور قصص میں ملتا ہے، خاص طور پر اسلامی روایات میں۔ مسلمانوں کے لیے جنات کا وجود قرآن و حدیث کے ذریعے ایک عقیدہ بن چکا ہے۔ مگر کیا واقعی جنات جیسی کوئی مخلوق اس دنیا میں موجود ہے، یا یہ صرف ہمارے ذہن کا ایک فریب، ایک تخیلاتی پیکر ہے جسے ہم نے صدیوں سے کہانیوں، خوف، اور مذہبی تشریحات کے سہارے زندہ رکھا ہے؟
اسلامی تعلیمات کے مطابق جنات ایک “ناری مخلوق” ہیں، یعنی آگ سے پیدا کی گئی مخلوق جو انسانوں کی طرح ارادہ و عقل رکھتے ہیں، اور ان پر بھی شریعت لاگو ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جنات واقعتاً موجود ہیں تو سائنس انہیں کیوں دریافت نہیں کر پائی؟
فزکس، بائیولوجی، اور نیوروسائنس نے کائنات کے ہر گوشے میں جھانک کر نئی نئی دنیائیں دریافت کیں، مگر نہ کہیں جنات کا سراغ ملا، نہ ان کی توانائی کی کوئی لہر، نہ ان کی مداخلت کا کوئی تجرباتی ثبوت۔
انسانی تاریخ میں خوف اور فنتاسی کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ جس طرح مغربی دنیا میں بھوت، چڑیلیں، ویمپائرز اور وئیر وولوز کی داستانیں ہیں، بالکل ویسے ہی مسلمانوں میں جنات کی داستانیں چلتی رہی ہیں۔
دیہاتوں میں درختوں، کنوؤں اور ویران گھروں کو جنات کا مسکن کہا گیا، تاکہ لوگوں کو ان جگہوں سے دور رکھا جائے۔ نفسیاتی بیماریوں کو “جن کا سایہ” کہا گیا، تاکہ لاعلمی کو روحانیت کے پردے میں چھپایا جا سکے۔ یوں ایک خیالی مخلوق کی بنیاد پر معاشروں میں خوف، تابعیّت، اور جہالت کی فضا پروان چڑھی۔
مسلمان معاشروں میں جنات کے نام پر ایسے ایسے عجیب و غریب دعوے کیے گئے ہیں جنہیں عقل قبول نہیں کر سکتی۔
کسی کے گھر میں چیزیں ہلنے لگیں، تو کہا گیا جن ہے۔ کسی نے خواب میں کوئی عجیب آواز سنی، تو کہا گیا جن نے پیغام دیا ہے۔
دماغی مریض کو ماہرِ نفسیات کے بجائے عامل کے پاس لے جایا گیا، اور جن نکالنے کے نام پر ظلم کیا گیا۔
یہ سب وہ افسانے ہیں جن سے خدا کی پناہ مانگنی چاہیے، کیونکہ یہ جھوٹ، جہالت، اور توہم پرستی کو فروغ دیتے ہیں۔
جدید سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ جن سے منسوب اکثر واقعات دراصل سلیپ پیرالسس (Sleep Paralysis)، سائیکوسس (Psychosis)، پیرانائیڈ ڈس آرڈر، ہالوسینیشنز جیسے نفسیاتی یا اعصابی امراض کی علامات ہیں۔
جہاں سائنس خاموش نہیں، وہاں ہم خود بہرے اور اندھے بننے کو ترجیح دیتے ہیں۔
کیا قرآن میں مذکور ہونا جنات کے وجود کا کافی ثبوت ہے؟
یہ ایک نکتہ نظر ہے کہ قرآن میں اگر کسی چیز کا ذکر ہو تو وہ لازماً مادی طور پر موجود ہو۔ لیکن قرآن میں بہت سی چیزیں علامتی اور اخلاقی تناظر میں بھی بیان کی گئی ہیں، جیسے فرشتے، شیطان، عذاب، جنت، دوزخ وغیرہ۔
لہٰذا یہ سوال اٹھانا کہ “کیا جن ایک مادی حقیقت ہیں؟” بالکل جائز اور فکری آزادی کے دائرے میں آتا ہے۔
جنات کے وجود پر سوال اٹھانا نہ دین سے بغاوت ہے، نہ عقل سے انکار۔ بلکہ یہ سوال خود قرآن کی اس دعوتِ فکر کا عکس ہے جو بار بار کہتی ہے:
کیا تم غور و فکر نہیں کرتے؟
اگر کوئی مخلوق ہزاروں سال سے “پوشیدہ” ہے، اور نہ اس کا کوئی سائنسی ثبوت ہے، نہ مشاہدہ، نہ عقلی توجیہہ تو پھر اس پر ایمان لانا ایک مذہبی چناؤ تو ہو سکتا ہے لیکن عقلی انتخاب نہیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں