ایمرجنسی پچاس سال پہلے لگی تھی ، لیکن بی جے پی کے نیتا اور سنگھی پرچارک و اندھ بھکت ، ایمرجنسی کا مرثیہ یوں پڑھ رہے ہیں جیسے یہ کل ہی کی بات ہو ! مجھے ایمرجنسی خوب یاد ہے ، اُن دنوں میں اسکول میں زیرِ تعلیم تھا ۔ بات ۱۹۷۵ء کی ہے ؛ اُس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کا اعلان کیا اور ’ کوفے پوسا ‘ ، ’ میسا ‘ اور ڈی آئی ایس آئی آر ‘ جیسے سخت قوانین کی مختلف دفعات کے تحت بڑی تعداد میں عوام و خواص کو ، جن میں بڑے بڑے سیاست داں شامل تھے ، کال کوٹھریوں میں ڈال دیا ۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہبائیس مہینوں کی ایمرجنسی میں ’ کوفے پوسا ‘ کے تحت 34988 اور ’ میسا ‘ کے تحت 75818 افراد جیل بھیجے گیے تھے ۔ وہ ایک عجیب دور تھا ، اور مجھے اس لیے یاد رہ گیا کہ میرے بڑے ابّا ہارون جعفر خان ( چھیلا بدنام پوری ) جو ایک مزدور لیڈر اور بی پی ٹی کی ایک یونین کے نائب صدر تھے ( صدر سوشلست لیڈر شانتی پٹیل تھے ) ناسک کی جیل میں قید کر دیے گیے تھے ، اُس جیل میں چندر شیکھر ، جو بعد میں وزیراعظم بنے ، بھی قید کیے گیے تھے ۔ یہ بھی یاد ہے کہ جیل میں شانتی پٹیل نے بڑے ابّا کو ایک قرآن پاک ہدیتاً دیا تھا ، جو بہت دنوں تک گھر میں رہا ۔ وہ رواداری اور بھائی چارے کا زمانہ تھا ، حالانکہ شرپسند ان دنوں بھی سرگرم رہا کرتے تھے ، فسادات بھی ہوتے تھے ، لیکن وہ دور آج کے مقابلے کہیں بہتر بلکہ سب کے لیے زیادہ محفوظ تھا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک دیورس نے بھی ایمرجنسی کی حمایت کی تھی ! اس کا ایک سبب اندرا گاندھی کے عتاب اور ایمرجنسی کی سختی سے بچنا تھا ۔ یقیناً بڑی تعداد میں لوگ گرفتار کیے گیے تھے ، اخباروں کی زبانوں پر تالے ڈال دیے گیے تھے اور اظہارِ رائے لوگوں کے لیے مشکل بنا دیا گیا تھا ۔ لیکن اُس دور میں یہ بھی ہوا تھا کہ کالا بازاری بند ہو گئی تھی ، لُٹیروں اور اُچکوں کے ساتھ جرائم پیشہ افراد بھی روپوش ہو گیے تھے ، یا سلاخوں کے پیچھے تھے ۔ یقیناً ایمرجنسی کو یاد کرنا چاہیے ، اور اس کی مذمت بھی کرنی چاہیے ، لیکن بی جے پی نے ایمرجنسی کو جس طرح سے ایک ایونٹ بنا لیا ہے اُسے کسی بھی طور پر درست نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔ ایمرجنسی کا نام لے کر سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے کوشاں بی جے پی اور سنگھ پریوار یہ کیوں بھول رہا ہے کہ اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے باوجود اُس دور کے سیاست دانوں کی ایک بڑی تعداد ، بہتوں کے سلاخوں کے پیچھے ہونے کے باوجود ، ایمرجنسی کے خلاف آواز بھی اٹھا رہی تھی اور تحریک بھی چلا رہی تھی ۔ اندرا گاندھی نے اُن سے انتقام نہیں لیا تھا ۔ جبکہ آج ؛ آج ایک ایسی ایمرجنسی لگی ہے ، جس نے عوام اور خواص سب کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ۔ آج تقریباً سارا میڈیا اَن ڈیکلرڈ ایمرجنسی کی لپیٹ میں ہے ، اختلافِ راے کو آج کی یرقانی حکومت برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ، سرکاری ایجنسیاں اُن سیاست دانوں کے گھروں کو گھیر لیتی ہیں ، جو ذرا سا بھی مودی و شاہ کی مخالفت میں زبان ہلاتی ہیں ، اور پھر انہیں بی جے پی کی واشنگ مشین میں دھو کر پارٹی کا حصہ بنا دیا جاتا ہے ۔ اقلیتوں کے لیے بالخصوص مسلمانوں کے لیے زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے ۔ کیا کھانا ہے ، کیا پینا اور کیسے کپڑے پہننا ہیں یہ سب ’ اوپر ‘ سے تھوپا جاتا ہے ۔ مسجدوں اور مدرسوں پر جب مَن چاہے بلڈوزر چلا دیا جاتا ہے ۔ اور شہریت تو ہے ہی خطرے میں ! بہار کے اسمبلی الیکشنسے پہلے وہاں ’ این آر سی ‘ کا تجربہ شروع کر دیا گیا ہے ۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے ایک طرح کی ایمرجنسی ہی تو ہے ۔ ایمرجنسی یاد کریں مگر گریبان میں بھی جھانک لیں اور خود سے سوال کر لیں کہ آج کا دور کیا ایمرجنسی سے کچھ کم ہے !
بشکریہ فیسبک وال
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں