ادبی مراکز کی تبدیلی اور گروہ بندیاں/قاسم یعقوب

ایک وقت تھا جب ادبی تحریکوں اور سماجیات کا بہت سا دارومدار ادبی جریدوں پر ہوتا تھا۔ ادبی جرائد تخلیقی ادب میں کسی خاص موضوع، تکنیک یا اسلوب کو ترجیح دیتے تو وہی رجحان ایک زبان کے ادبی میلانات کا نمائندہ بن جاتا۔ اسی طرح ادبی جرائد نے نئے ادبی ناموں کو متعارف کرایا اور پرانے سینئر ناموں کی درجہ بندی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ان جرائد کا ایک کام یہ بھی تھا کہ اگر کوئی ادیب خود کو متعارف کروانا چاہتا یا کسی خاص گروہ سے منسلک ہو کر اپنے کام کو مستند بنوانا چاہتا تو وہ ادبی جرائد سے وابستہ ہو تا۔ اب چوں کہ ادبی جرائد کی سماجی حیثیت تقریباً ختم ہو چکی ہے لیکن اب بھی کراچی سے شائع ہونے والا ایک ادبی جریدہ خاص ادب، مخصوص رجحان اور منتخب ادبی گروہ کو متعارف کروانے کا باعث بن رہا ہے۔
سماجی ویب گاہوں اور اسکرین میڈیا کے وجود کے ساتھ ہی پرنٹ جرنلزم کا تقریباً خاتمہ ہو چکا ہے۔ ادبی سماجیات اور گروہ بندی کی نئی شکلیں سامنے آ رہی ہیں۔ ادبی جرائد کی جگہ اب ادبی میلوں اور سائیڈ میڈیا پرسنز نے لے لی ہے۔ چالاک اور سمجھدار ادیب ان ’’اہم مراکز‘‘ میں ہر حال میں شرکت کو ضروری سمجھتے ہیں۔ ایسے تمام افراد سے روابط قائم کرتے ہیں جو کسی نہ کسی حیثیت میں پروجیکشن، پروموشن اور نمائندگی دینے کی اہلیت رکھتے ہیںاور یوں وہ مرکز کا حصہ بنے رہتے ہیں۔ایک اور خوفناک اور قابلِ مذمت رجحان لسانی، مسلکی اور علاقائی نوعیت کا سامنے آیا ہے۔ یعنی اگر آپ کسی مخصوص علاقے سے ہیں تو اس علاقے کے تمام ادیب آپ کو پروموٹ کریں گے۔ اگر آپ شیعہ، سنی ، احمدی یا اسماعیلی وغیرہ ہیں، تو آپ کے مسلکی عقائد سے وابستہ ادبی افراد آپ کو خاص اہمیت دیں گے اور آپ کی پروموشن میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔
پبلشرز حضرات بھی ادبی اشرافیہ بنانے والوں میں شامل ہوئے ہیں۔ اچھے پبلشرز جسے چاہتے ہیں، پروموٹ کرتے ہیں اور اہم ادیب بنا دیتے ہیں۔
اسی طرح کا ایک اور رجحان ادبی اساتذہ میں بھی در آیا ہے۔ طالب علم اپنے اساتذہ کو پروموٹ کرتے ہیں، ان کی سالگرہیں مناتے ہیں، ریٹائرمنٹ کی تقریبات منعقد کرتے ہیںاور ان کی کتابوں یا تحریروں کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں، ان پر تبصرے، تجزیے،تعریفی اور تنقیدی مضامین لکھتے ہیں۔ جگہ جگہ ان کا چرچا کرتے ہیں۔ ادبی پروگراموں میں انھیں پردھان بناتے ہیں اور کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتے جو شخص سے شخصیت بننے کے کسی مرحلے کو آگے نہ بڑھاتا ہو۔ادبی جرائد کی موت کے بعد سماج کے ہاتھ میں ایک ڈفلی آ گئی ہے، جو ہر کسی کی دسترس میں ہے۔ جو اسے اٹھاتا ہے، بجانے لگتا ہے۔سنجیدہ تحریکیں، میچور تنقید اور معیاری تخلیقی ادب اب خال خال ہی ملتے ہیں۔
اس غیر منظم ادبی سماجیات سے نجات کے لیے ہمیں شاید ایک دو دہائیاں مزید انتظار کرنا ہوگا۔ شاید یہ منظرنامہ تھک کر جھاگ کی طرح بیٹھ جائے۔
.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply