• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • زہران ممدانی : کمیونزم یا میکارتھی ازم کا بھوت /مشتاق علی شان

زہران ممدانی : کمیونزم یا میکارتھی ازم کا بھوت /مشتاق علی شان

نیویارک کے ممکنہ میئر زہران ممدانی کی صورت میں امریکا کی فضا پر ایک بھوت منڈلا رہا ہے۔ اس بھوت کی صورت گری امریکی سامراجیت کا موجودہ نمائندہ، ڈونلڈ ٹرمپ کر رہا ہے۔ ٹرمپ جیسا سرمایہ دار، استعماری مسخرہ اسے “کمیونزم کا بھوت” قرار دیتے ہوئے کہتا ہےکہ
“اس پاگل کمیونسٹ کو نیویارک تباہ نہیں کرنے دوں گا!”۔
اپنے رجعت پسند سرمایہ دار پیش روؤں کی طرح ٹرمپ بھی جنگ پرست، کمیونسٹ مخالف اور ہر ترقی پسند آواز کا دشمن ہے۔ اس کی یہ بڑبڑاہٹ اس کے اسی کردار کی غمازی کرتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آیا ممدانی کی صورت میں واقعی کمیونزم کا کوئی بھوت موجود ہے یا یہ محض 1950ء کی دہائی کے میکارتھی ازم کا بھوت ہے؟ وہی میکارتھی ازم کا بھوت، جو امریکی کمیونسٹوں پر قہر بن کر ٹوٹا تھا، جس نے نہ صرف کمیونسٹوں کو بلکہ امریکا بھر میں ہر ترقی پسند، سامراج مخالف، اور انسانی شرف، وقار اور مساوات پر یقین رکھنے والی ہر آواز کو گلا گھونٹ کر خاموش کر دینے کا وتیرہ اپنا رکھا تھا۔
جب سرمایہ داری کے قلعے ممدانی جیسے جمہوریت پسند اور ریڈیکل سوشل ڈیموکریٹ سے بھی لرزنے لگیں تو یہ کسی انقلاب برپا کرنے سے زیادہ خوفناک لمحہ بن جاتا ہے۔ کیونکہ زہران ممدانی نے نہ بالشویک انقلاب کی بات کی، نہ کبھی پرولتاری آمریت کا نعرہ بلند کیا، نہ ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت میں دینے کی تجویز دی۔ وہ تو محض نیویارک جیسے سرمایہ دارانہ م مرکز میں رہتے ہوئے بنیادی عوامی سہولیات، کرایوں پر کنٹرول، مفت ٹرانزٹ، بچوں کی نگہداشت، اور مہنگائی کے خلاف ریاستی اقدامات جیسے اصلاحی مطالبات کر رہا ہے۔
گو امریکی اسٹیبلشمنٹ کو کبھی امریکا کے اندر انقلابیوں کی مسلح بغاوت سے خطرہ لاحق نہیں ہوا لیکن اسے سب سے بڑا خطرہ اس وقت لاحق ہوتا ہے جب عوام ایک غیرانقلابی مگر باخبر نمائندے کو قبول کر لیتے ہیں اور ان کے شعور میں طبقاتی سوالات جنم لینے لگتے ہیں۔
زہران ممدانی کو کمیونسٹ قرار دے کر اس پر ہونے والے نسل پرستانہ حملے (جیسے ہاتھوں سے دال چاول کھانے پر اسے غیر مہذب قرار دیا گیا) محض اس کی شناخت یا نسل پر مبنی نہیں بلکہ وہ اسی خوف کا تسلسل ہیں جس کی بنیاد پر 1950ء کی دہائی میں میکارتھی ازم نے امریکا کے اندر ترقی پسند سوچ کا گلا گھونٹا تھا اور ترقی پسند دانشور، ادیب، استاد، فنکار، لیڈر سبھی کو “سرخ خطرہ” قرار دے کر ریاستی دہشت کا نشانہ بنایا گیا۔ تب بھی بہت سے افراد جو کمیونسٹ نہیں تھے مگر ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ سوال اٹھاتے تھے۔
آج ممدانی بھی اسی عمل کا شکار ہے کیونکہ وہ ان طبقاتی تضادات کی نشاندہی کر رہا ہے جنھیں امریکی نظام ہمیشہ چھپاتا آیا ہے۔ امریکی ریاست کو ڈر ہے کہ عوام اگر ان باتوں پر غور کرنے لگے تو کل کو وہ صرف کرایہ کنٹرول پر اکتفا نہیں کریں گے بلکہ وہ پوچھیں گے کہ
زمین کس کی ہے؟
مکان بنانے کا حق کس کو ہے؟
دولت کہاں سے آتی ہے؟
اور پھر مارکس کا وہ سوال گونجے گا کہ
“ذرائع پیداوار پر کس کا قبضہ ہے؟”
نوآبادیاتی ذہنیت اور استعماری نفسیاتی اثرات کا گہرا تجزیہ کرنے والے اور الجزائر کی جنگِ آزادی میں بندوق بدست حصہ لینے والے دانشور کامریڈ فرانز فینن نے کیا خوب کہا تھا کہ “ہر نسل کو اپنی جدوجہد کو دریافت کرنا پڑتا ہے، اور اسے پورا کرنا ہوتا ہے یا دھتکار دینا ہوتا ہے۔”
زہران ممدانی کا تعلق اس امریکی نسل سے ہے جو اس جدوجہد کو نئے انداز میں دریافت کر رہی ہے۔ ممدانی کوئی بندوق بدست کمیونسٹ گوریلا نہیں ہے، نہ ہی وہ کامریڈ لینن کے پارٹی تصور میں یقین رکھتا ہے بلکہ وہ انہی بورژوا سیاسی دائروں میں سیاست کرتے ہوئے ابھر رہا ہے جنھیں “جمہوریت” اور “جمہوری طریقہ کار” کی سند حاصل ہے۔ البتہ وہ شعور کو بیدار ضرور کر رہا ہے، وہ رائے عامہ کو بدلنے کا باعث بن رہا ہے، اور سرمایہ دارانہ سامراجی نظام اب اتنا بوسیدہ ہو چکا ہے کہ وہ شعور کے دھماکوں سے بھی خود کو بکھرتا محسوس کرتا ہے اور یہی ممدانی کا جرم ہے ۔ وہ مظلوم طبقات کو ایک نیا شعور دے رہا ہے جو خاموشی سے سرمایہ دارنہ سامراجی ڈھانچے کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔
سماجی شعور انقلابی حالتیں پیدا کر سکتا ہے۔ زہران ممدانی اس شعور کی ایک ابتدائی شکل ہے۔ وہ انقلابی نہیں ہے مگر اس کا وجود انقلاب کی زمین کو کمیتی طور پر ہموار کر رہا ہے۔ اور اس طرح استحصالی نظام کے اندرونی تضادات کا اجاگر ہونا خود عوام کو اپنی نجات کے راستے تلاش کرنے کی سمت لے کر جائے گا۔ زہران ممدانی یہ راستہ کھول رہا ہے۔ اس کا انتخاب بتا رہا ہے کہ امریکی عوام بائیں بازو کی طرف مائل ہو رہے ہیں ۔ نہ صرف نعرے کے طور پر بلکہ حل کے طور پر بھی۔
یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں سامراجی ریاست لرزتی ہے، کیونکہ اس کے لیے سب سے زیادہ خطرناک چیز عوامی شعور کی بیداری ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے زیرِ پا سامراجی دنیا کی سب سے مضبوط کڑی یعنی امریکی ریاست کو بخوبی علم ہے کہ اگر یہ شعور فروغ پا گیا تو سرمایہ داری کی بنیادیں ہل سکتی ہیں ۔ وہ بنیادیں جو جبر، استحصال اور جھوٹے وعدوں سے لے کر دنیا بھر میں اس کی ہلاکت خیز جنگی جنونی پالیسیوں پر استوار ہیں۔
لہٰذا ممدانی کا کردار ہمارے لیے محض ایک اصلاح پسند کی کہانی نہیں، بلکہ یہ اس بڑی اشتراکی جدوجہد کی تمہید ہے جو شاید آنے والے برسوں میں امریکا جیسے سرمایہ دار معاشرے کو اندر سے بدل کر رکھ دے۔ وہ جدوجہد جو جمہوریت کے اندر پنپے گی، مگر کسی بھی لمحے اس کے دائروں کو توڑ کر انقلابی مرحلے میں داخل ہو سکتی ہے۔
زہران ممدانی آج کے امریکی سماج میں ان کمیتی تبدیلیوں کا نشان ہے جو کیفیتوں میں ڈھلتے ہوئے، وال اسٹریٹ سے پینٹاگون اور واشنگٹن ڈی سی تک ایک روز سرمایہ داری کی بھیانک آتما کو ہمیشہ کے لیے تاریک غاروں میں دھکیل دیں گی۔

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply