دریا بچائیے، اپنے لیے ،اپنی نسلوں کے لیے/اختر شہاب

یہ عنوان پڑھ کے آپ چونکیں گے اور سوچیں گے کہ ضرور یہ کوئی ایسا شخص ہے جسے شایدمحاورے کا نہیں پتا یا پھر یہ سندھ طاس معاہدے کے بارے میں یہ کوئی سیاسی پوسٹ ہے تو ایسی کوئی بات نہیں ہے میں نے یہ عنوان یوں ہی نہیں دیا ۔ آپ بھی دریا بچا سکتے ہیں لیکن کیسے!آئیے دیکھتے ہیں!!!!

پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے اور اس کا ضیاع اور آلودگی انسانیت کے لیے نقصان دہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق پانی کو ضائع کرنا منع ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے,اور ہم نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ہے ۔” (سورۃ الانبیاء 30 ) یہ آیت پانی کی اہمیت کو اجاگر کرتی اور س کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیتی ہے لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم پانی کا استعمال اعتدال سے کریں۔. ہمارے بزرگوں کو جواب دہی کا بہت خوف تھا۔ وہ کسی بھی چیز کے ضیاع کے سخت خلاف تھے۔ چاہے وہ جھوٹے برتنوں میں بچا ہوا سالن یاچاول ہو یا نلکے سے ٹپکتا پانی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ” جتنی بڑی نعمت ملی ہے اتنا سخت حساب ہوگا “۔ یہ “حساب کتاب”ہمارے اسلاف کی کوئی ذہنی اختراع نہیں تھی۔قران حکیم نے ببانگ دہل کہا ہے”ثُمَّ لَتُسئَلُنَّ یَومِْیذٍ عَنِ النَّعِیم۔ (اس دن تم سے (اﷲ کی) نعمتوں کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا)۔۔لیکن لگتا ہے کہ”حساب کتاب” کا خوف بھی شاید ہماری پچھلی نسل کے ساتھ ہی رخصت ہو گیا ہے ۔

پاکستان میں جس بے دردی سے بےحساب پانی برباد کیا جارہا ہے وہ ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ پاکستان بھر میں زیر زمین پانی کا لیول انتہائی نیچے چلا گیا ہے ۔یہ صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک اخلاقی، اور سماجی بحران ہونے کے علاوہ دینی تعلیمات کے منافی بھی ہے۔ اصل میں پاکستان میں چونکہ عام طور پانی انتہائی ارزاں چیز سمجھی جاتی ہے، اس لئے ہم دل کھول کر اسے ضائع کرتے ہیں۔ ہمارے دانتوں میں برش کرنے کے دوران واش بیسن کا نلکا مکمل کھلا ہوتا ہے اور پانی سیدھا نالی میں جارہا ہوتا ہے ۔ برتن دھوتے وقت بھی کھلے نلکے سے پانی مسلسل نالی میں جارہا ہوتا ہے ۔ اور تو اور، وضو جیسا اہم ترین رکن ادا کرتے وقت بھی ہم بہت سا پانی نالی میں بہا دیتے ہیں۔ ۔ہمارے ہاں پانی کی قدر اُس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کنویں سوکھ نہ جائیں۔ یہ رویہ نسلوں سے چلا آ رہا ہے، جہاں پانی کی فراوانی کو اس کے ضیاع کی جواز بنا لیا گیا۔سرکاری سبسڈیز اور بے قاعدہ تقسیم نے ہمیں اس کی قدر سے نابلد کر دیا ہے ۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ پانی ہماری جیبوں پر بوجھ نہیں۔ اگر گھر کے ہر نل پر میٹر لگا دیا جائے تو ہمارا رویہ یکدم بدل جائے گا۔

اس رویئے کی مزید کیا وجوہات ہیں؟ تعلیم کی کمی کو ہم موردالزام نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ ڈاکٹرز، انجینئرز، اور پروفیسرز تک میں پانی کا ضیاع اس لیے دیکھنے کو ملتا ہے۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے تعلیم نظام میں ماحولیات اور عملی احتیاط جیسے موضوعات شامل نہیں۔ ہم نے “تعلیم” کو “شعور”سے الگ کر دیا ہے۔ ہماری ڈگریاں ہمیں یہ نہیں سکھاتیں کہ ٹونٹی بند کرنا بھی ایمان کا تقاضا ہے۔ ہم نے اپنے بچوں کو یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ “نبی ﷺ نے بارش کے پانی کو بھی ضائع ہونے سے بچایا۔” ایک حد تک ہم اسےمجموعی معاشرتی جہالت یا ضد کا نام دے سکتے ہیں، جو ہمیں اپنی برس ہا برس پرانی روش ترک کرنے سے روکے رکھتی ہے۔یعنی ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں اپنی کوئی خراب عادت اس لئے نہیں بدلنی چاہیئے کیونکہ دوسروں نے نہیں بدلی۔

مغربی معاشروں میں پانی کے تحفظ کو فرد کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ وہاں بچپن سے ہی اسکولوں میں وسائل کے تحفظ کی تربیت دی جاتی ہے۔مغرب میں پانی بچانے کا ہر عمل “ذمہ داری” کے تصور سے جڑا ہے۔ وہاں کے لوگ جانتے ہیں کہ پانی کی ہر بوند کا تعلق مستقبل سے ہے۔ اس لیے دانتوں پر برش کرتے وقت ٹونٹی بند رکھنا ان کے لیے اتنا ہی فطری ہے جتنا ہمارے لیے اسے کھلا چھوڑ دینا۔برتن دھوتے وقت سنک کو پانی سے بھر لیناان کی معاشی سوجھ بوجھ کا نتیجہ ہے، نہ کہ مفلسی کا اور سب سے بڑھ کر واٹر میٹرز اور بھاری بلز انہیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ پانی کو سونے کی طرح تول کر استعمال کریں۔ مغرب میں پانی کے تحفظ کو “ثقافت”بنا لیا گیا ہے، جبکہ ہمارے ہاں اسے “ثقافت کے خلاف”سمجھا جاتا ہے۔اگر آپ کسی انگلش فلم میں ایسا سین دیکھیں، جس میں اداکار غسل خانے میں ٹوتھ برش کررہا ہے،تو آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ دانتوں میں برش کرتے وقت بیسن کا پانی بند ہوتا ہے۔ جبکہ دانت صاف کرنے کے لئے اس کے پاس ایک چھوٹا سا گلاس رکھا ہوتا ہے، جس میں وہ پانی بھر کر کلی کرتا ہے۔اسی طرح جب کچن میں برتن دھوئے جاتے ہیں تو سنک کا ڈرینج فلو بند کرکے اس میں پانی بھر لیا جاتا ہے، پھر اس پانی میں برتن دھوئے جاتے ہیں۔ یہ پریکٹس تقریباً تمام مغربی ممالک میں یکساں پائی جاتی ہے۔ چاہے کوئی امیر ہو یا غریب، وہ پانی ضائع نہیں کرتا۔ مغربی ممالک میں پانی کے تحفظ کو عوامی عادت کا حصہ بنا لیا گیا ہے۔

ہمارے ہاں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ پانی کو “مفت کا تحفہ”سمجھ کر ہم اسے ایسے بہاتے ہیں جیسے یہ کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پانی اللہ کی جانب سے لامحدود نعمت ہے، اس لیے اس کا ضیاع گناہ نہیں۔ حالانکہ قرآن واضح طور پر کہتا ہے :”اسراف نہ کرو، اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا” (الاعراف: 31)۔ اسلام پانی کے تحفظ پر زور دیتا ہے۔ “وضو کے دوران پانی کا بہاؤ روکنا سنت ہے۔” لیکن اس کے برعکس یہاں ٹونٹیاں ایسے کھلی ہوتی ہیں جیسے پانی کا خزانہ زمین کے نیچے بہہ رہا ہو۔ مسئلہ دین سے لاعلمی نہیں، بلکہ “رسمی مذہبیت” ہے، جہاں ظاہری عبادت کو اس کی روح پر ترجیح دی جاتی ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “وضو میں بھی اسراف کرنا شیطانی عمل ہے۔”(ابن ماجہ)۔ رسول اللہ ﷺ نے وضو میں بھی اعتدال کی تلقین فرمائی: “ایک ساڑھے تین سیر (تقریباً 1 لیٹر) پانی سے وضو کرو، خواہ دریا کے کنارے ہی کیوں نہ ہو۔(ابن ماجہ۔) لگتا ہے کہ امام صاحبان کو بھی اس سنگین مسئلے کا احساس نہیں ،حالانکہ وہ اگر خطبے میں پانی بچانے کی ایک آیت پڑھ دیں تو صورتحال بدل سکتی ہے۔

اصل میں “جب سب کرتے ہیں تو میں کیوں نہ کروں؟” کا کلچر ہمیں تبدیلی سے روکتا ہے۔پانی کا ضیاع محض ایک عادت
نہیں، بلکہ اخلاقی، مذہبی اور قومی بے حسی کی علامت ہے۔ ہماری سوچ ہےکہ”جدید مغربی اقدار کو اپنانا ہماری روایات کے خلاف ہے”۔ حالانکہ پانی بچانا نہ تو مغربیت ہے، نہ الحاد، بلکہ اسلام کا حکم ہے۔ پانی کا ضیاع دراصل ہمارے ایمان کی آزمائش ہے۔ اللہ نے ہمیں یہ نعمت دی ہے تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اسے فضول نہ گنوائیں۔ یاد رکھیں، ہاتھ میں گلاس بھر کر کلی کرنا بھی سنت ہے۔ ایک چھوٹی سی عادت کو اپنا کر آپ بھی اس بحران کا حل بن سکتے ہیں۔ پانی بچانے اس سلسے میں مندرجہ ذہل اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔۔

گھروں میں ڈبل ٹینک والے فلش سسٹم متعارف کرائے جائیں۔

اسکولوں میں “واٹر وارئیرز” کلب بنائے جائیں جو بچوں کو عملی مشقوں کے ذریعے پانی کی اہمیت اور پانی بچانے کے طریقے سکھائیں۔

میڈیا کے ذریعے اسراف کے خلاف آگہی پھیلائی جائے، جیسے ترکی نے “پانی بچاؤ” مہم چلا کر% 30 تک ضیاع کم کیا۔

پانی کی قیمتوں میں منطقی اضافہ اور میٹرنگ کا نظام نافذ کیا جائے اور اسراف پر جرمانے عائد کیے جائیں۔ اس کے علاوہ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے والے نظام کو سبسڈی دی جائے۔

علماء کو چاہیے کہ خطبات اور درسوں میں پانی کے تحفظ کو عبادت کا حصہ بتائیں۔ بلکہ وہ خطبات میں پانی کے تحفظ کو “جہاد” کا درجہ دیں۔

امام اور خطیب ، نمازیوں کو وضو میں احتیاط کی ترغیب دیں۔ مساجد اور گھروں میں واٹر سیورنگ ٹونٹیاں لگائی جائیں جو پانی کو خود بند کر دیں۔

سماجی میڈیا پر ایسے ویڈیوز وائرل کیے جائیں جن میں پانی بہانے والوں کو اخلاقی طور پر جھٹکا دیا جائے۔

آج کل پانی کو ری سائیکل کرنے پر بہت زور دیاجارہاہے اور مسجدوں اور باغات وغیرہ میں ایسے کنوئیں بنائے جا رہے ہیں جہاں استعمال شدہ پانی ضائع ہونے کے بجائے زیر زمین جا کر فلٹر ہوجائے۔ یوں زمین کا واٹر لیول بھی بڑھ جائے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگرہم پانی ضائع کرنا بھی ترک کر دیں تو یہ کام دو آ تشہ ہو جائے گا ۔

یاد رکھیں اگر ہم آج نہیں بدلیں گے تو کل ہمارے بچے ہمیں “قاتل” کہیں گے، کیونکہ پانی کے بغیر موت یقینی ہے۔۔۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ تبدیلی کا آغاز اپنے گھر سے کریں۔۔۔ آج ہی ٹونٹی بند کر کے برش کریں، آج ہی سنک میں پانی بھر کے برتن دھوئیں اور اپنے وضو کے لئے ایک لوٹا پانی کافی سمجھیں۔۔۔ آپ جانتے ہیں قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے۔۔۔ سو آئیں مل کر قطرہ بچائیں۔

julia rana solicitors

“یاد رکھیں! آج سے جب ہم جیسے کڑوڑوں مل کر جب قطرہ قطرہ بچائیں گے تو کل ہمارے بچوں کو دریا ملنا یقینی ہو جائےگا!!!”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply