جنون اور لاتعلقی/ندا اسحاق

جنون اور لاتعلقی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ انسان کا دماغ چیزوں کو متضاد طور پر دیکھنے کا عادی ہے جیسے کہ دن اور رات، لیکن کیا واقعی میں دن اور رات الگ ہیں؟ کیا سورج ڈوب جاتا ہے؟ کیا پھر سورج تو ہر وقت روشنی دے رہا ہے لیکن ہماری زمین چکر پورا کرتی ہے تو رات ہوجاتی ہے اور یوں ہمارا دماغ دن اور رات کو تصور کرتا ہے جب کہ دن اور رات تو ایک ہی ہیں کیونکہ سورج ہمیشہ سے ہر لمحہ روشنی دے رہا ہے، اس میں ہمارا قصور نہیں، ہمارے دماغ کا ڈیزائن ہی ایسا ہے۔

بلکل اسی طرح جنون اور لاتعلقی بھی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ دونوں کے نتائج ایک جیسے ہوتے ہیں، دونوں ہی درد دیتے ہیں اگر شدت اختیار کر جائیں۔ کچھ لوگ اپنی زندگی میں اکثر معاملات کو لے کر بہت جنونی ہوتے ہیں، جبکہ کچھ بہت لاتعلق۔ کچھ بہت زیادہ بھاگتے ہیں تو کچھ منجمد رہ کر لاتعلق رہتے ہیں۔ لیکن ان میں ایک تیسری قسم بھی ہے جسکا ذکر میں آخر میں کروں گی ، پہلے جنونی اور لاتعلق انسان کو سمجھتے ہیں کہ اس شدت پسندی کے انہیں کیا نقصانات ہوسکتے ہیں۔

فرض کریں کہ ایک پہاڑ ہے جس پر تین لوگوں نے چڑھنا ہے ایک انسان بہت جنونی ہے اس پہاڑ کو سر کرنے کے لیے، دوسرا لاتعلق ہے اور چڑھنا ہی نہیں چاہتا لیکن تیسرا انسان ان دونوں کے درمیان کھڑا ہے (جسکا ذکر میں آخر میں کروں گی) اسے بھی پہاڑ پر چڑھنا ہے البتہ اسکا طریقہ اور سوچ جنونی اور لاتعلق انسان سے بہت مختلف ہے۔

جب جنونی انسان اس پہاڑ پر چڑھنے کا سوچتا ہے تو اس کی توقعات اور نتائج کی امیدیں مثبت ہوتی ہیں، اسے لگتا ہے کہ بس ایک بار وہ وہاں پہنچ جائے تو انوکھے تجربات یا احساسات اسکا انتظار کررہے ہونگے۔ امید اور توقعات کی وجہ سے اس کے دماغ میں بہت سارا ڈوپامین (پلیژر، ایکشن، موٹیویشن کا ہارمون) خارج ہوتا ہے اور وہ بہت پرجوش ہے پہاڑ چڑھنے اور وہاں کے تجربات کو محسوس کرنے کے لیے۔

اب لاتعلق انسان کی بات کریں تو وہ پہاڑ چڑھنا ہی نہیں چاہتا کیونکہ اسے کوئی چاہ نہیں، وہ کہتا ہے کہ وہاں کچھ بھی نہیں ہے، وہ سنیاس لے لیتا ہے، وہ کہتا ہے کہ کوئی فائدہ نہیں، مجھے کوئی چاہ نہیں، مجھے کچھ بھی تجربہ نہیں کرنا۔

اب چونکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پہاڑ پر کچھ بھی نہیں! جی ہاں آپ نے درست سنا پہاڑ پر کچھ بھی موجود نہیں……

جب وہ جنونی انسان اپنی توقعات کے ساتھ اس چوٹی پر پہنچے گا تو اسے بہت افسوس ہونے والا ہے کہ وہاں تو کچھ ہے ہی نہیں، اس کی ساری توقعات اور امیدیں ٹوٹنے والی ہیں، اب ڈوپامین کی ”ہائی-ڈوز“ کے بعد اسکو ”درد“ والے فیز سے گزرنا ہے، تبھی لوگ اکثر بڑی کامیابی کے بعد کچھ عرصہ کچھ بھی محسوس نہیں کرپاتے وہ ڈپریشن کی حالت میں چلے جاتے ہیں۔ ایسے میں انسان یا تو سمجھ جاتا ہے کہ پہاڑ پر کچھ بھی نہیں ہوتا اس لیے مجھے زیادہ توقعات لگانے کی ضرورت نہیں، یا پھر اگر وہ اس سے سبق نہ سیکھے تو سامنے موجود پہاڑ کی جانب دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ وہاں یقیناً کچھ نہ کچھ ہوگا، ایسا کرتا ہوں کہ وہاں جاکر دیکھتا ہوں (منحصر ہوتا ہے انسان پر کہ اسے زندگی کی حقیقتوں کی کتنی سمجھ ہے) اور پھر سے ایک بار وہ خود کو مایوسی کے لیے تیار کرلیتا ہے کیونکہ پہاڑ چاہے کوئی بھی ہو وہاں کچھ بھی نہیں۔

اب بات کریں گے اس تیسرے انسان کی جو جنون اور لاتعلقی کے درمیان میں کھڑا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ پہاڑ پر کچھ بھی نہیں ہے، جنونی انسان کے برعکس اسکی توقعات بہت کم ہیں، لیکن وہ لاتعلق انسان کی طرح سنیاس نہیں لینا چاہتا، وہ ہر ذمہ داری سے دستبردار نہیں ہونا چاہتا، وہ صرف پہاڑ ”چڑھنا“ چاہتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اسکا اس دنیا میں ایک چھوٹا سا کردار ہے، وہ اپنا ”کرم“ کرنے آیا ہے، کئی لوگ اس پر منحصر ہیں وہ انکو ساتھ لے کر سفر طے کرے گا، وہ ان لوگوں کی زندگی میں اہمیت رکھتا ہے، اسکا اس بڑی سی دنیا میں ایک چھوٹا سا کردار ہے اور وہ ہے ”پہاڑ چڑھنا“، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہاں کوئی انوکھا تجربہ یا انسان اسکا انتظار نہیں کررہا، وہاں اس کے مسائل کا اختتام نہیں ہوگا لیکن وہ پھر بھی چڑھتا ہے، بنا دوسروں سے اپنا موازنہ کیے، اپنی رفتار کے ساتھ، اپنے پاس موجود ذرائع کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وہ دکھ، خوشی، ناامیدی، امید اور نجانے کتنے جذبات تجربات اور حالات کو سہتا آگے بڑھتا ہے۔ لیکن وہ جانتا ہے کہ پہاڑ پر کچھ بھی نہیں، شاید موت اسکا انتظار کرے کیونکہ وہی تو آخری مقام ہے۔

گوتم بدھا بھی دو شدت بھرے رستوں پر چل کر یہ معلوم کرپایا کہ درمیانہ رستہ سب سے بہتر ہے۔ ایک عیاش شہزادہ جب ایک سنیاسی بنا تو اسے سمجھ آیا کہ اگر وہ اس دنیا میں جینا چاہتا ہے تو اسے درمیانہ رستہ (middle way) چننا ہوگا۔ کیونکہ نہ ہی عیاشی میں سکون تھا اور نہ ہی سنیاس میں ”موکش“ (نجات)۔

ہم ویدک علمِ نجوم میں بھی پڑھتے ہیں ”راہو“ (جنون) اور ”کیتو“ (لاتعلقی) کے بارے میں، اور ویدک علوم آپ کو ان دونوں کو توازن میں لانے کی تلقین کرتے ہیں، کیونکہ کسی بھی ایک جانب جھکاؤ نفسیاتی اور جسمانی درد لاسکتا ہے، ہمارا مذہب اسلام بھی ”اعتدال“ کی تلقین کرتا ہے، لیکن ویدک علوم آپ کو زیادہ گہرائی میں سمجھاتے ہیں کیونکہ ویدک فلسفہ انفرادیت (individualism ) پر چلتا ہے جبکہ اسلام کا دائرہ ملک و معیشیت کے نظام پر زیادہ فوکس کرتا ہے، اسلام کو ہم اجتماعیت (collectivism) کا مذہب کہہ سکتے ہیں، اجتماعیت والے معاملات میں ہندوازم بہتر طور پر کام نہیں کرتا۔ اگر خود کو بہتر طور پر جاننا ہے تو ویدک فلسفہ ضرور پڑھیے۔

موضوع پر واپس آتے ہیں………

آپ کو توازن لانا ہوتا ہے جنون اور لاتعلقی کے درمیان، کہ پہاڑ تو آپ کو چڑھنا ہوگا، کرم تو کرنا ہوگا، لیکن یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ وہاں کچھ بھی بہت انوکھا آپ کا انتظار نہیں کررہا۔ یوں آپ سفر بھی طے کرلیں گے اور وہاں پہنچ کر آپ کو ڈپریشن (depression) نہیں سہنا پڑے گا۔

میری اپنی ذاتی زندگی میں میں نے تینوں مراحل طے کیے ہیں، کچھ معاملات کو لے کر جنونی تھی میں، اتنا بھاگی ہوں کہ جب پہاڑ پر پہنچی اور دیکھا کہ کچھ بھی نہیں وہاں، میں اکیلی تھی، تو بہت دکھ سے گزرنا پڑا، اتنا دکھ ہوا کہ ہر چیز سے سنیاس لینے کا سوچ لیا۔ کیونکہ ڈوپامین کے بعد ڈپریشن کا مرحلہ آتا ہے۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ اپنے تجربات کو سمجھا تو معلوم ہوا کہ درمیانہ رستہ بھی ہوسکتا ہے، جہاں اپنے کرم پورے کیے جائیں اور اپنا چھوٹا سا کردار نبھایا جائے۔ صرف رستہ طے کرنا ہے بنا اپنا موازنہ کیے، اپنی منفرد شخصیت اور حالات کو سمجھتے ہوئے، اپنے پاس موجود محدود ذرائع کا بہتر اور عقلمندانہ استعمال کرتے ہوئے، ہر قسم کے اچھے برے جذبات احساسات تجربات کو محسوس کرتے ہوئے، صرف پہاڑ ہی تو چڑھنا ہے کیونکہ پہاڑ پر کچھ بھی نہیں۔

Facebook Comments

ندا اسحاق
سائیکو تھیراپسٹ ،مصنفہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply