آج مسلم ممالک کی جو حالت ہے اس کا سب سے بڑا سبب ہمارے ہاں رائج پرانے یونانی اور ہندی علوم کا واقعیت سے دور ہونا ہے۔ ان نام نہاد علوم کو جہل مرکب بھی کہا جا سکتا ہے۔ مسلمان مغربی اقوام کی غلامی میں اسلئے گئے کہ ان کی تعلیم ان کی عقلوں کو کمزور رکھتی تھی۔ ہمارے ہاں اول تو درسگاہیں بہت کم تھیں اور ننانوے فیصد لوگ ان پڑھ ہوتے تھے، دوسرے ان درسگاہوں میں پڑھائے جانے والے علوم مغربی علوم سے بہت پیچھے تھے۔ علمی دنیا میں ہم نے شکست کھائی تو ہم پر مغرب کا ظاہری قبضہ ہوا، جو اب تک جاری ہے۔ مولوی صاحبان کا یہ کہنا کہ مغرب کے ہاتھوں شکست کی وجہ عیاش حکمران تھے اور ہیں، غلط ہے۔ کرپشن نقصان دہ ہوتی ہے لیکن علمی پسماندگی کا نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے اب تک اکثر لوگ یونانی خیالات کے اسیر ہیں اور نہ صرف کائنات اور معاشرے، بلکہ خود انسان اور مذہب کو بھی پرانی یونانی عینک سے دیکھتے ہیں۔
حرکت کا قدیم تصور
حرکت کا موضوع ہمیشہ سے انسانوں کے درمیان موضوع بحث رہا ہے کیونکہ انسان ہمیشہ تبدیلیوں میں گھرا رہتا ہے۔ صنعتی ترقی کی بنیاد حرکت کو سمجھنے پر ہے۔ ماضی میں جو لوگ وحدت الوجود کے خیال کے اسیر ہوئے انہوں نے اس سے حرکت کی وضاحت بھی نکالنا چاہی۔ یہ قدیم خیال حرکتِ جوہری کہلاتا ہے جس کے مطابق محرک، حرکت اور متحرک اصل میں ایک ہیں۔ یعنی جوہر خود ہی حرکت ہے، متحرک چیزیں اپنی محرک خود ہیں۔ یہ خیال فرسودہ یونانی فلسفے سے ہوتا ہوا ملاصدرا تک آیا۔ افسوس کی بات ہے کہ اس کو سمجھے بنا آئن سٹائن وغیرہ کے نہایت نفیس کام پر بھی بعض جوشیلے شیعہ خطیبوں کی طرف سے حرکتِ جوہری کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے۔ اس مضمون سے یہ معلوم ہو گا کہ ملا صدرا صاحب تو نیوٹن کے ساتھ ملائے جانے کے قابل بھی نہیں ہیں، کجا یہ کہ انہیں آئن سٹائن کے برابر کھڑا کر دیا جائے۔
حرکت کا جدید تصور
جدید سائنس بدیہیات کی درست تفہیم کی نہایت کامیاب کوشش ہے۔ حرکت کے جدید تصور کی بنیاد ہی یونانی تصورات کے بطلان پر ہے اور جدید ٹیکنالوجی محرک، حرکت اور متحرک میں فرق کو سمجھنے پر استوار ہے۔ جدید سائنس کے مطابق حرکت یا اس میں تبدیلی کسی جسم پر عمل کرنے والی خارجی طاقتوں (forces) کے توازن کے بگڑنے سے پیدا ہوتی ہے۔ خارجی طاقت توانائی (energy) میں فرق آنے سے پیدا ہوتی ہے، یہ فرق نہ ہو تو طاقت پیدا نہیں ہوتی۔ توانائی کا یہ فرق ہی حرکی توانائی میں تبدیل ہوتا ہے اور حرکت کو بقا کے لیے محرک کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن تبدیلی کے لیے طاقت کا عمل دخل لازمی ہے۔ زندہ اجسام میں تبدیلیاں بھی ان کے اجزاء کی مکانی حرکت کا اظہار ہوتی ہیں، جو ان اجزاء کے ماحول میں پیدا ہونے والی کیمیائی طاقتوں کے زیراثر آتی ہیں۔ غذا، پانی اور آکسیجن وغیرہ انہی طاقتوں کو پیدا کرنے کے کام آتی ہیں۔ جاندار جسم یہ چیزیں اپنے باہر کے ماحول سے حاصل کرتا ہے۔ ماضی میں جسے جوہر کہہ کر فرضی باتیں کی جاتی تھیں وہ اشیاء کی کیمیائی ترکیب ہوتی تھی، یہی ترکیب اعراض متعین کرتی ہے۔ یونانی اسے نہیں جانتے تھے۔
جدید سائنس کا نظریۂ حرکت بہت گہرا اور مفصل ہے۔ حرکت سائنس کے بنیادی موضوعات میں سے ہے۔ لائبریریوں تک جانے کے بجائے اگر ملک بھر میں کتب فروشوں کے ہاں بکتی سائنس و ٹیکنالوجی کی نصابی کتابوں کے حجم اور تعداد کو ہی دیکھ لیا جائے تو یہ جاننا کافی ہو گا کہ نیوٹن (متوفیٰ 1727ء) کے بعد حرکت کی فہم میں کس قدر پیشرفت ہو چکی ہے۔ آج کوئی بھی ملک نیوٹن کی تحقیقات اپنے بچوں کو سکھائے بنا جدید طرز زندگی کو برقرار رکھنے کا تصور نہیں کر سکتا۔ کسی اور ملک کی کیا بات کی جائے، خود ایران کی صنعت میں بھی سائنسی نظریۂ حرکت استعمال ہو رہا ہے۔ ایران کی انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں مغربی سائنسدانوں کی کتب کے تراجم ہی پڑھائے جاتے ہیں۔ وہاں بھی حرکت جوہری کا تصور صرف مدرسوں یا اسلامیات کے شعبوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
نیوٹن کے قوانین
نیوٹن نے حرکت کے تین قوانین بتائے، لیکن پہلا اور تیسرا اصل میں دوسرے قانون کی ہی وضاحت ہیں۔ دوسرا قانون ایک مساوات کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے:
F = ma
یہاں F سے مراد خارجی محرک یا طاقت (Force) ہے۔ m سے مراد مادے کی مقدار یا کمیت ہے جسے کلوگرام کے حساب سے ماپا جاتا ہے۔ ہر وہ چیز مادہ ہے جو کسی مکان و زمان میں ہو۔ یعنی جگہ گھیرتی ہو یا حرکت کرتی ہو۔ مادے کی مقدار کا تعین ان ذرات سے ہوتا ہے جن سے مل کر کوئی چیز بنی ہوتی ہے۔ مثلاً لوہے کی چیز میں مادہ زیادہ ہو گا اور اس کےمساوی حجم رکھنے والی لکڑی کی چیز میں کم ہو گا۔ a سے مراد حرکت میں تبدیلی کی شرح ہے، چاہے رفتار کی مقدار بدلے یا اس حرکت کا رخ بدلے۔ جتنی طاقت زیادہ لگے گی، اتنی رفتار میں تیزی سے ہو گی۔ ان تینوں مقداروں کو اعداد کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے۔ جب کوئی بات اعداد کی مدد سے بیان ہو تو اس کے معنی میں کسی قسم کا ابہام نہیں رہتا۔
اسی مساوات سے پتا چلتا ہے کہ اگر کوئی چیز حرکت کر رہی ہے تو وہ اس وقت تک سیدھے خط میں چلتی رہے گی جب تک اس پر کوئی طاقت اثر نہ کرے۔ جب کوئی طاقت اثر کرے گی تو وہ اسے روک کر اس کی حرکت ختم بھی کر سکتی ہے۔ ساکن چیز تب تک حرکت نہ کرے گی جب تک اس کو کوئی خارجی طاقت حرکت پر مجبور نہ کرے۔ یہ پہلا قانون حرکت ہے۔ یہ عام مشاہدہ بھی ہے اور ملا صدرا نے بھی کہا ہے کہ ہر مستقیم حرکت کی انتہاء بالآخر سکون پر ہو گی (1) لیکن وہ یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ اس کو ختم کرنے کے لیے اس کی عددی مقدار کے متناسب خارجی طاقت لگنا ضروری ہے، ورنہ یہ حرکت جاری رہے گی۔ نہ ہی وہ یہ بات سمجھے کہ خط مستقیم کے علاوہ کسی اور راستے پر حرکت کے لئے مسلسل طاقت خرچ ہونا ضروری ہے، چاہے وہ دائرے میں حرکت ہو، بیضوی حرکت ہو یا کسی اور صورت میں ہو۔
اسی مساوات سے پتا چلتا ہے کہ اگر کسی چیز پر عمل کرنے والی طاقت کے اثر کو ختم کرنا ہے تو ردعمل اس کے مساوی لیکن الٹے رخ میں ہو تاکہ 0 = F-F کے مطابق کل طاقت صفر ہو جائے۔ یہ تیسرا قانون حرکت ہے۔
کیلکولس کی ایجاد
نیوٹن نے حرکت کو دقت کے ساتھ بیان کرنے کیلئے ایک نئی قسم کی ریاضی (Calculus) بھی ایجاد کی تاکہ معنوں کے ابلاغ میں کوئی ابہام نہ رہے۔ یہی ریاضی ایک اور انداز میں اس کے جرمن معاصر لائبنیز نے بھی ایجاد کی تھی۔ آج دنیا بھر میں گیارہویں جماعت کی ریاضی سے کیلکولس سکھانے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور یونیورسٹی کی تعلیم مکمل ہونے تک جاری رہتا ہے۔ مکینکس کی کتابوں میں اس کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔ اب تو یہ ریاضی دریاؤں میں پانی کے بہاؤ، موسمیات، بجلی کی پیداوار، کمپیوٹر اور آئی ٹی، صحت عامہ کے مسائل، معیشت کی منصوبہ بندی وغیرہ کو سمجھنے میں بھی استعمال ہو رہی ہے۔ کوانٹم فزکس اور کوانٹم کیمسٹری کی زبان یہی ریاضی ہے۔ اس کو سیکھے بغیر اکثر جدید علوم میں تحقیقی کام ممکن نہیں رہا۔
کشش ثقل کا اصول: طبیعیات اور ہیئت کا اتحاد
نیوٹن نے ہی کششِ ثقل (gravity) کو دریافت کیا اور اب اس کو بھی ریاضی کی مساوات میں بیان کیا جاتا ہے۔ نیوٹن سے پہلے لوگ یہی سمجھتے تھے کہ پتھر خود پہاڑ سے نیچے آتا ہے، گویا حرکت اس کے اندر ہو۔ ملا صدرا لکھتے ہیں:
”بعض اوقات اتفاقی اسباب کی غایت بھی ذاتی غایت ہی ہوتی ہے۔ مثلاً اوپر سے گرنے والا پتھر اگر پانی میں تیرنے کے بعد اس جگہ پر پہنچے جہاں گر کر پہنچنا چاہتا تھا، یعنی جو اس کی ذاتی غایت تھی وہاں پہنچے۔ کبھی صرف اتفاقی اسباب پر معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ مثلاً وہی تیرنے والا پتھر اگر کسی وجہ سے سطحِ آب پر ٹھہرا رہے۔ پہلی صورت میں اتفاقی اسباب کو طبعی غایت کے اعتبار سے ذاتی سبب کہتے ہیں اور عرضی غایت کی رو سے اتفاقی سبب، اور دوسری صورت میں ذاتی غایت کے اعتبار سے ان اتفاقی اسباب کو باطل اور غیر مثمر اسباب کے ذیل میں شمار کیا جاتا ہے۔“ (2)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملا صدرا تیرنے والی چیزوں کے بارے میں اپنے سے ڈیڑھ ہزار سال قبل گزرنے والے ارشمیدس کے کام سے بھی ناواقف تھے۔ پرانے لوگ یہ بھی خیال کرتے تھے کہ جو چیز اوپر پھینکی جائے اسے ہوا نیچے دھکیل دیتی ہے ورنہ وہ تو آسمان پر پہنچ جائے۔ مثلاً ابن سینا کا کہنا تھا:
”اگر اس ہوا کی طرف سے رکاوٹ نہ پیدا ہو جسے پتھر پھاڑ کر اوپر جاتا ہے اور اسی رکاوٹ کی وجہ سے چڑھاؤ کا جو میلان پتھر میں پیدا ہو گیا تھا کمزور پڑتا جاتا ہے اگر یہ مقابلہ درمیان میں پیش نہ آتا، تو جو پتھر اوپر کی طرف پھینکا جاتا ہے وہ آسمان کی سطح سے ٹکرانے کے بعد ہی واپس ہوتا۔“ (3)
اس بات کو نقل کرنے کے بعد ملاصدرا نے اس پر جو بے سر و پا بحث کی ہے وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ لوگ حرکت کے بارے میں کس قدر ذہنی انتشار کا شکار تھے؟ نیوٹن سے پہلے کپلر معلوم کر چکا تھا کہ سیاروں کے مدار بیضوی تھے۔ نیوٹن کے کام نے اس کی بنیادیں بھی پختہ کر دیں۔ سیاروں کے مدار کامل دائروں جیسے نہ تھے بلکہ ہر سیارے کا مدار اس کی کمیت اور اس پر عمل کرنے والی ثقلی طاقت کی مناسبت سے مختلف تھا۔ اور اسی وجہ سے نیوٹن سے پہلے تک آسمان کے مشاہدے سے حاصل کئے گئے ڈیٹا اور سیاروں کے مدار کے تصور میں تضاد رہتا تھا، جس سے کیلنڈر میں ترمیم کی ضرورت پڑا کرتی تھی۔ پہلے لوگ بلاوجہ یہ سمجھتے تھے کہ دائرہ کامل ترین شکل ہے اور اجرام فلکی کیلئے عقلی طور پر واجب ہے کہ دائروں میں حرکت کریں۔ ملا صدرا کہتے ہیں:
”عرضی مقولوں میں جو حرکتیں واقع ہوتی ہیں ان میں سب سے مقدم ترین حرکت وہ حرکت ہے جس کا نام حرکت وضعی دوری ہے، یعنی عام طور پر جسے گردش اور چکر کہتے ہیں۔ اور یہ کہ صرف قدیم ہی نہیں بلکہ تمام حرکتوں میں اشرف اور کامل تر حرکت بھی یہی ہے۔“ (4)
نیوٹن سے پہلے آسمان کی چیزوں کو زمین پر موجود چیزوں سے الگ خیال کیا جاتا تھا اور علم ہیئت میں آسمان کی چیزوں کے بارے بات کرتے تھے جبکہ طبیعیات میں زمین کی چیزوں پر بات کی جاتی تھی۔ یہ فرق تو گلیلیو نے مٹا دیا تھا لیکن نیوٹن کے کشش ثقل کے اصول نے اس اتحاد کو پختہ بنیاد فراہم کی۔ اس نے یہ ثابت کیا کہ جس اصول سے پتھر پہاڑ سے گرتا ہے وہی اصول چاند کو زمین کے گرد چکر کاٹنے پر مجبور کرتا ہے۔
اس کے علاوہ نیوٹن کا ایک اہم کام روشنی کی ماہیت کو سمجھنا بھی تھا۔ روشنی کے بارے میں بھی ملا صدرا متعدد غلط فہمیوں کا شکار ہوئے جس کی طرف ایک مضمون میں اشارہ کیا جا چکا ہے۔
ماضی قدیم میں کم علمی کی وجہ سے فلسفیوں کا حرکتِ جوہری وغیرہ پر یقین رکھنا قابل فہم ہے، لیکن اب ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں تو اس قسم کی باتوں پر ہٹ دھرمی دکھانا درست نہیں ہے۔ اب انٹرنیٹ سے جدید سائنس سیکھ کر اس غلط فہمی سے باہر آنا ممکن ہے۔ اب تو جدید علم اتنا واضح و روشن ہو گیا ہے کہ ایٹموں سے چھوٹے ذرات کی حرکت کو بھی ریاضی کی زبان میں بیان کیا جا چکا ہے، اس کی تفصیل موجودہ مضمون کے دائرے سے باہر ہے۔
حوالہ جات
- فلسفۂ ملاصدرا، صفحہ 702، حق پبلیکیشنز، لاہور، 2018ء۔
- فلسفۂ ملاصدرا، صفحات 476، 477، حق پبلیکیشنز، لاہور، 2018۔
- فلسفۂ ملاصدرا، ص 712، حق پبلیکیشنز، لاہور، 2018ء؛ اسفار اربعہ، جلد 3، صفحہ 217، بیروت۔
- فلسفۂ ملاصدرا، صفحہ 644، حق پبلیکیشنز، لاہور، 2018ء۔
Facebook Comments
یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ اشیاء کی ترکیب ہر وقت اور مسلسل تبدیلی کے عمل سے نہیں گزرتی۔ مثلاً اگر لوہے کو زنگ نہ لگے تو اس کی کیمیائی ترکیب یا جوہر تبدیل نہیں ہو گا۔ جب زنگ لگنا شروع ہو تو صرف اسی مقام پر جوہری تبدیلی ہو گی جہاں زنگ لگا ہے۔ جب زنگ لگنے کا عمل ختم ہو تو کیمیائی ترکیب میں تبدیلی رک جائے گی۔ اسی طرح سونے کی بنی چیزیں تو صدیوں تک کسی تبدیلی سے دوچار نہیں ہوتیں۔ ہاں زندہ چیزوں میں مسلسل توانائی خرچ ہوتی رہتی ہے تو تبدیلی ایک تسلسل سے جاری رہتی ہے۔ سب چیزوں کے مسلسل سیال کی طرح بہتے رہنے کا یونانی تصور کم علمی پر مبنی تھا۔