• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • محبت اور فن بطور مزاحمت : دلجیت دوسانجھ کی فلم” سردار3″ نوآبادیاتی تناظر میں/سائرہ رباب

محبت اور فن بطور مزاحمت : دلجیت دوسانجھ کی فلم” سردار3″ نوآبادیاتی تناظر میں/سائرہ رباب

جب جان لینن نے کہا تھا، “جب ہم کہتے ہیں کہ امن کو ایک موقع دو، تو ہم خطرہ بن جاتے ہیں۔ وہ محبت سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ محبت آزاد کرتی ہے”
تو وہ صرف ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک گہری مزاحمتی حقیقت بیان کر رہے تھے۔ اسی مزاحمتی روح کو فلسفی ژیژیک یوں بیان کرتا ہے کہ محبت ایک انقلابی جذبہ ہے جو ذات، نسل، مذہب، طبقے اور درجہ بندی جیسے تمام سامراجی ساختوں پر کاری ضرب ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو سامراج کی Divide & Rule پالیسی کو ناکام بنا کر انسانوں کو وحدت میں جوڑ دیتا ہے۔

یہی پس منظر ہمیں اس حالیہ صورتحال کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے جس میں ایک فلم، جو بظاہر ایک ثقافتی اشتراک پر مبنی ہے، ریاستی ردعمل، بائیکاٹ اور میڈیا دباؤ کا شکار بن رہی ہے۔ اگرچہ یہاں بطور مثال “دلجیت دوسانجھ” اور “سردار جی 3” جیسے نام لیے جا رہے ہیں، لیکن اصل نکتہ یہ ہے کہ جب کوئی فنکار سرحدوں، نفرتوں اور قوم پرستی سے بالاتر ہو کر مشترکہ انسانیت، محبت اور یادداشت کی بات کرتا ہے، تو وہ محض ایک تخلیق کار نہیں رہتا بلکہ سامراجی ذہنیت کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔

یہ ریاستی ردعمل محض جذباتی نہیں، بلکہ ایک گہری نوآبادیاتی/نو نوآبادیاتی حکمت عملی کی علامت ہے۔ تیسری دنیا کی ریاستیں، جو نوآبادیاتی ورثے کی وارث ہیں، اب بھی ان نفسیاتی ساختوں کے تحت کام کرتی ہیں جن میں قومی شناخت، سرحدی سیاست، اور تہذیبی تفریق کو ریاستی طاقت کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

ایڈورڈ سعید اس تضاد کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ سامراج ہمیشہ اجتماعیت، باہمی انحصار اور مشترکہ انسانیت کا دشمن رہا ہے۔ سامراج کے لیے سب سے بڑا خطرہ وہ یادداشت ہے جو لوگوں کو جوڑتی ہے۔۔۔۔مشترکہ داستانیں، زبانیں، گیت اور تہذیبیں۔
Frantz Fanon اور Ngũgĩ wa Thiong’o
جیسے مفکرین کے مطابق ثقافتی یادداشت کی بحالی اور وحدت کی بات خود ایک سیاسی اقدام ہے، جو سامراجی قوتوں کو غیر محفوظ کرتی ہے۔

ایسے فنکار، جو محبت یا وحدت کی علامت بن جاتے ہیں، وہ دراصل ان تمام نوآبادیاتی بیانیوں کو چیلنج کرتے ہیں جو قوم، مذہب یا سرحد کے نام پر انسانوں کو تقسیم کرتے ہیں۔ فلم، میوزک، زبان، یا کسی بھی ثقافتی اظہار کے ذریعے اگر کوئی فنکار اس یادداشت کی بازیافت کرتا ہے، تو ریاستیں اور اشرافیہ فوراً ردعمل میں آتی ہیں۔ یہ ردعمل اصل میں وہی “epistemological violence” ہے جسے Gayatri Spivak بیان کرتی ہیں۔۔۔یعنی فکر، زبان اور شناخت پر حملہ۔

اگر ہم حالیہ برسوں میں برصغیر میں ہونے والی چند ثقافتی کوششوں پر نظر ڈالیں تو اس رجحان کی واضح مثالیں ملتی ہیں جیسے پنجابی زبان پر مشترکہ کانفرنسیں، واہگہ بارڈر پر امن جلوس، “امن کی آشا” جیسے پراجیکٹس، یا سوشل میڈیا پر سرحد پار فنکاروں کا اشتراک۔ یہ سب علامتیں ہیں اُس وحدت کی جو نوآبادیاتی نظام نے ہم سے چھین لی تھی۔

یہ تمام کوششیں جیسے ہی مقبول ہوئیں، اچانک ایک نیا بیانیہ، ایک نیا خوف، یا کوئی نیا “شوشہ” چھوڑ دیا گیا جس کا مقصد عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت کو روکنا، اور نوآبادیاتی “Divide & Rule” کو برقرار رکھنا تھا۔

برصغیر کی تقسیم صرف جغرافیائی بٹوارا نہ تھی، بلکہ ایک تہذیبی اور نفسیاتی تقسیم تھی۔ انگریز نے لسانی، مذہبی اور تہذیبی دراڑیں پیدا کیں تاکہ مزاحمت کی قوت کو پاش پاش کیا جا سکے۔ پنجاب جو وحدت، مزاحمت اور لوک تہذیب کا گہوارہ تھا، اس کو بے رحمی سے کاٹا گیا، تاکہ وہ خطہ جو سب سے زیادہ متحرک مزاحم تھا، کبھی دوبارہ نہ ابھر سکے۔

آج بھی وہی تقسیمیں، وہی نفسیات، نئی شکلوں میں ہمارے بیانیے پر راج کر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی فنکار یا فلمساز ان بٹی ہوئی روحوں کو جوڑنے کی کوشش کرتا ہے، تو وہ صرف تخلیق نہیں کرتا، بلکہ ایک خاموش مزاحمت کا علم بلند کرتا ہے۔

یہ مزاحمت عسکری نہیں، بلکہ علمی، تہذیبی اور جذباتی ہے۔ جیسا کہ Bertolt Brecht کہتا ہے: “فن کی طاقت صرف حقیقت کی عکاسی نہیں، بلکہ اسے بدلنے کا اوزار بھی ہے۔” اور یہی وجہ ہے کہ طاقتور ریاستیں اس آرٹ سے خوفزدہ ہو جاتی ہیں جو ان کے قومی یا جنگی بیانیے کو چیلنج کرے۔

لہذا آرٹ بھی ایک خاموش مزاحمت ہے ۔جب وہ سرحدوں، قوموں اور نظریات سے ماورا ہو کر انسانوں کو جوڑنے کا ذریعہ بنے اور ان بیانیوں کو چیلنج کرے جو انسانوں کو ایک دوسرے سے دور کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔

لہٰذا آج جب کوئی فنکار محبت، وحدت اور انسانیت کی بات کرتا ہے، تو وہ سامراجی ورثے کے خلاف اعلانِ بغاوت کرتا ہے۔ وہ یاد دلاتا ہے کہ ہم کبھی ایک تھے، اور اب بھی جڑ سکتے ہیں۔ یہی وہ بات ہے جو طاقتوں کو سب سے زیادہ خوفزدہ کرتی ہے۔

Che Guevara کے الفاظ میں:
“The true revolutionary is guided by great feelings of love.”

julia rana solicitors

اور یہی محبت، یادداشت اور وحدت آج کی سب سے بڑی مزاحمت ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply