کیا یہ قول واقعی حضرت علی ع کا ہے؟ـ ابو جون رضا

حضرت علیؑ سے ایک قول منسوب کیا جاتا ہے جو بہت مشہور ہے

“ما عبدتك خوفًا من نارك، ولا طمعًا في جنتك، ولكن وجدتك أهلًا للعبادة فعبدتك”

“میں نے تیری عبادت نہ دوزخ کے خوف سے کی، نہ جنت کی طمع میں، بلکہ تجھے عبادت کے لائق پایا، اس لیے تیری عبادت کی۔”

یہ بات اپنے اندر معنویت، معرفت اور اخلاص کا اعلیٰ تاثر رکھتی ہے۔ مگر جب اسے عبادت کی مثالی صورت یا اصل عبادت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، تو قرآن کے نصوص کے تناظر میں چند سنگین سوالات جنم لیتے ہیں۔

 اعتراض کی نوعیت:

قرآن کریم عبادت کے محرکات کے طور پر خوف اور طمع (یعنی جنت کی رغبت اور دوزخ سے بچاؤ) کو واضح طور پر بیان کرتا ہے:

“ادعوه خوفًا وطمعًا إن رحمت الله قريب من المحسنين”

(سورہ اعراف: 56)

“اسے پکارو *ڈر اور امید” کے ساتھ* ، بیشک اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہے”

ایک اور جگہ اس ترغیب دلائی گئی ہے

وَ سَارِعُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ جَنَّۃٍ عَرۡضُہَا السَّمٰوٰتُ وَ الۡاَرۡضُ ۙ اُعِدَّتۡ لِلۡمُتَّقِیۡنَ﴿۱۳۳﴾ۙ

اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جانے میں سبقت لو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو اہل تقویٰ کے لیے آمادہ کی گئی ہے۔

(سورہ آل عمران)

یہ بات نہ صرف قرآن سے ثابت ہے بلکہ انسانی فطرت سے ہم آہنگ بھی ہے۔ انسان سزا سے بچنے اور انعام کی خواہش کے تحت اکثر متحرک ہوتا ہے۔ یہی نفسیاتی فطرت قرآن نے تسلیم کی اور اسی کو استعمال کرتے ہوئے بندے کو رب سے جوڑا ہے۔

ایسے میں اگر کوئی قول یہ کہے کہ خوف اور طمع پر مبنی عبادت ادنیٰ یا ناقص ہے، تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ قرآن نے جس بات کی ترغیب دی، وہ عبادت کا کمتر درجہ ہے اور یہ مفہوم قرآن کی نص کے ظاہر سے متصادم ہے۔

 فلسفیانہ اثرات اور تاریخی پس منظر:

یہ بات بھی تاریخی لحاظ سے قابل غور ہے کہ:

اسلام کے ابتدائی دور میں اس طرح کے فلسفیانہ اور “درجات عبادت” والے مباحث نہیں پائے جاتے تھے۔

عباسی دور میں جب یونانی فلسفہ کے افکار اسلامی معاشرے میں در آئے، تو تزکیۂ نفس، معرفت، اور *اخلاص برائے اخلاص* جیسے تصورات نے زور پکڑا۔

ایسے اقوال کی تائید اور ترویج کے لیے اکثر مشہور شخصیات جیسے حضرت علیؑ، امام جعفر صادقؑ، یا بعض مشہور شخصیات کے نام سے اقوال منسوب کیے گئے، جن کی اسنادی حیثیت اکثر مشتبہ یا غیر ثابت شدہ ہے۔

مثالیں اور اثرات:

امام ابن تیمیہ جیسے محدثین بھی، جو فلسفے اور عقل مجرد کے سخت ناقد تھے، وہ بھی “اکتسابی عقل” جو عبادت اور ریاضت سے جلاء پاتی ہے، کے نظریہ کو قبول کرتے نظر آتے ہیں۔

اقبال جیسے مفکر بھی اس رنگ میں رنگے گئے:

جس کا عمل بے غرض ہے، اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر ، بادہ و جام سے گزر

اقبال اگرچہ قرآن کے قائل ہیں، لیکن اس شعر میں وہ اسی صوفیانہ اخلاص کی بات کرتے ہیں، جس کی ترغیب صوفیانہ کلام میں بھرپور انداز میں پائی جاتی ہے۔

کمال یہ ہے کہ ایک طرف اقبال کہتے ہیں “حور و خیام سے گزر”، لیکن پھر دوسری طرف فرماتے ہیں “جس کا عمل بے غرض ہے، اس کی جزا کچھ اور ہے”

یعنی جنت و دوزخ سے نکلے، مگر پھر کسی نئی جزا کی تلاش میں چل پڑے۔

گو کہ یہ بھی ایک خواہشِ جزا ہے، بس اس کی نوعیت الگ ہے

صوفیاء کے مختلف سلسلے خصوصاً ملامتیہ، قلندریہ نفس کو فنا کرنے، اخلاص کو انتہا تک پہنچانے اور جزا کی خواہش سے مکمل بےنیاز ہونے کو اصل عبادت سمجھتے تھے۔قلندریہ سلسلے کے لوگ بال منڈواتے ، بھیک مانگتے اور بعض اوقات عریاں حالت میں رہتے تھے تاکہ نفس کی ہر خواہش پامال ہو۔

ان کے ہاں عبادت صرف وسیلہ نہیں بلکہ مقصد کی معراج بن جاتی تھی ، یعنی

جب نفس مکمل طور پر ٹوٹ جائے گا تو

“روح پرواز کرے گی”،

“جنت دوزخ نظر آنے لگے گی”،

“ملأ اعلیٰ سے خلعت اور ولایت کے درجات (ابدال، قطب، قلندر) وغیرہ عطا ہوں گے”

یہ سب تصورات اسلامی سادہ دین داری کے بجائے فلسفیانہ و باطنی روایت سے قریب تر ہیں۔

میری طالب علمانہ رائے میں حضرت علیؑ سے منسوب یہ قول اگر اسنادی طور پر ثابت بھی ہو، تب بھی اسے قرآن کے خلاف سمجھ کر رد کیا جا سکتا ہے۔

اگر اس کی تاویل کی جائے، تو زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ

“اگر اللہ جنت و دوزخ نہ بھی بناتا، تب بھی اس کی عبادت اس کا حق تھی”

بالکل ایسے ہی جیسے بوڑھا باپ کچھ نہ دے سکتا ہو، تب بھی احترام کا مستحق ہوتا ہے۔

مگر یہ بات محض تاویل ہے۔ اگر کوئی اسے نہ مانے تو میں اسے لازمی عقیدہ نہیں سمجھتا۔

یہ کہنا کہ اصل عبادت صرف وہ ہے جو معرفت یا اخلاص محض پر مبنی ہو، قرآن کے ظاہر، انسانی فطرت، اور اسلامی نصوص کے سراسر خلاف ہے۔

نہج البلاغہ کو اگر کوئی قرآن پر ترجیح دے، تو اور بات ہے۔
لیکن قرآن کے ہوتے ہوئے کسی بھی قول کو معیارِ دین نہیں بنایا جا سکتا۔

 اختتامی بات:

دین میں سب کچھ “باطنی اسرار” یا “معرفت” پر نہیں چلتا۔
اللہ نے جو چاہا، وہ واضح نصوص میں بیان کردیا۔

julia rana solicitors

جنت اور دوزخ کی ترغیب دینا اللہ ہی کا طریقہ ہے، اور وہی طریقہ ہمارے لیے کافی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply