محرم میں حرام /فیضان سجاد

محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی سوگ، ماتم، اور نوحہ خوانی کی محفلیں سجنا شروع ہو چکی ہیں۔ میں تاریخ دیکھ رہا تھا تو معلوم ہوا کہ زنجیر زنی اور ماتم کا تخیل کہاں سے مستعار لیا گیا ہے. غور کریں تو اس کے کئی ایسے پہلو بھی سامنے آتے ہیں جو اہل عقل و خرد کو دعوت فکر دیتے ہیں۔
تاریخ دانوں کی ایک کثیر تعداد، بشمول Dr. Christoph Werner (“Shi’ite Ritual and Power Politics in Iran”، Routledge، 2000) کے مطابق، موجودہ دور کی زنجیر زنی اور تازیہ داری جیسی رسوم محض اسلامی روایات کی پیداوار نہیں، بلکہ ان کی جڑیں قدیم ایرانی اور زرتشتی تہذیب سے بھی پیوستہ ہیں۔
زرتشتی تہذیب میں “سوگواری کے مظاہر” عام تھے جنہیں ایرانی قوم نے اپنی تہذیبی شناخت کے حصے کے طور پر اپنایا۔ تاریخ کے معتبر حوالوں کے مطابق، جب عربوں نے ایران فتح کیا تو ایرانی تہذیب نے عرب اسلامی اثرات کے مقابل ایک “Cultural Resistance” کے طور پر عزاداری کی ان رسومات کو پروان چڑھایا۔ رفتہ رفتہ ان رسوم نے شیعہ مسلک کی روایتی مذہبی علامات کا روپ دھار لیا۔
تاریخی روایتیں اس امر کی بھی شاہد ہیں کہ ابتدا میں اہل بیت کے غم میں برپا ہونے والی مجالس زیادہ تر فکری و روحانی نوعیت کی ہوتی تھیں۔ لیکن ایرانی تہذیب کی آمیزش سے ان میں جسمانی اذیت رسانی یعنی زنجیر زنی اور قمہ زنی جیسے مظاہر داخل ہوئے۔
اب ان رسوم کو دین کا جزو لاینفک سمجھا جانے لگا ہے، اور ان کے بغیر “Faith Expression” ادھورا محسوس ہوتا ہے۔ مگر یہ حقیقت کہ ان رسوم کی ابتدا عرب نہیں بلکہ فارس کی زمین سے ہوئی، تحقیق اور شعور کی روشنی میں ابھر کر سامنے آ چکی ہے۔
یہاں سوال یہ نہیں کہ غم حسین منایا جائے یا نہ منایا جائے، بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا اندازِ سوگ اس تعلیم اور فلسفے کے مطابق ہے جو خود امام حسینؑ نے اپنے خون سے رقم کیا؟ یہ تحریر محض ایک دریچہ ہے، ایک “Call for Introspection”۔ اس بات پر غور کرنا ہمارا فرض ہے کہ کہیں ہم محرم کے فلسفے کو محض رسموں کی بھینٹ تو نہیں چڑھا رہے؟

julia rana solicitors london

حوالہ:-
Werner, Christoph. “Shi’ite Ritual and Power Politics in Iran.” Routledge, 2000.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply