• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سلسلہء خطوط/دو طبیب،دو ادیب،دو حبیب(ڈاکٹر خالد سہیل/ڈاکٹر عابد نواز)-خط نمبر11،12

سلسلہء خطوط/دو طبیب،دو ادیب،دو حبیب(ڈاکٹر خالد سہیل/ڈاکٹر عابد نواز)-خط نمبر11،12

ڈاکٹر خالد سہیل کا ڈاکٹر عابد نواز کو خط نمبر ۱۱ 
پیارے مہربان باپ اور شفیق نانا حضرت عابد نواز !
آپ تو نہ نہ کرتے نانا بن گئے اور ہمارا یہ حال کہ ساری عمر اپنے ناتواں کندھے باپ بننے کا بھاری پتھر نہ اٹھا سکے۔
قبلہ و کعبہ ! پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ آپ کو اتنے زیادہ معروف و غیر معروف شاعروں کے مشہور اور غیر مشہور مقبول و غیر مقبول اشعار کیسے یاد رہے۔ میں نے مس حور کو آپ کا خط سنایا تو کہنے لگیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ عابد نواز خود شعر لکھتے ہوں لیکن اپنی منکسرالمزاجی کی وجہ سے کسی اور شاعر کا فرضی نام لکھ دیتے ہوں۔ ان کے سوال کا جواب آپ ہی دے سکتے ہیں۔
آپ نے اپنی شرمیلی طبیعت اور گوشہ نشینی کی انٹروورٹ شخصیت کا حال جس معصومیت سے لکھا ہے وہ قابل داد ہے۔ آپ کا محبت نامہ پڑھ کر مجھ جیسا کافر بھی ارینجڈ میرج کی افادیت اور معنویت اور اہمیت پر ایمان لے آیا۔
مجھے یہ تو پتہ تھا کہ آپ کینیڈا کے ایک سال کے قیام کے دوران  رومانوی روزے رکھتے تھے اور شراب کباب اور شباب سے اجتناب کرتے تھے کیونکہ میری طرح آپ مغرب میں نہیں بس جانا چاہتے تھے لیکن میرا خیال تھا کہ رومانوی اعتکاف کے بعد پاکستان جانے کے بعد آپ نے محبت کی عید منائی ہوگی اور پاکستان میں کسی پختون دختر خوش گل کی زلف کے اسیر ہو کر شادی کی ہوگی۔
آپ نے فراز کے شعر کا جو صنفی آپریشن کیا ہے اور کہا ہے
دوست ہوتی نہیں ہر ہاتھ ملانے والی
وہ قابل صد داد ہے۔ آپ تو ہاتھ ملانے سے گھبراتے ہیں اور ہم گلے لگانے سے بھی نہیں ہچکچاتے بلکہ مغربی دوشیزائیں تو خود آگے بڑھ کے گلے ملتی ہیں۔
جب عظمیٰ نے پوچھا کہ شخصیت میں اتنے فاصلے کے باوجود آپ میں جو جذباتی قربت ہے اس کا کیا راز ہے تو میں نے کہا بچپن کی دوستیاں ایسی ہی پرخلوص اور بے لوث ہوتی ہیں۔ یہ میری خوش بختی کہ آپ پاکستان کے روایتی اور مذہبی ماحول میں زندگی گزارنے کے باوجود اتنے زندہ دل اور وسیع الشرب انسان ہیں۔
مجھے یہ محبت نامہ لکھتے ہوئے بچپن کے وہ دوست یاد آ رہے ہیں جنہوں نے نہ صرف لمبی داڑھی رکھ لی ہے بلکہ الحمد اللہ استغفراللہ ماشا اللہ انشا اللہ کو اپنا تکیہ کلام بھی بنا لیا ہے۔
آپ نے جب گولڈن جوبلی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ صرف چند دوستوں کی داڑھیاں ہیں تو میں کہنے لگا تھا کہ بعض لوگوں کی داڑھیاں تو چہرے پر نظر آ جاتی ہیں لیکن بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی داڑھیاں پیٹ میں ہوتی ہیں سب کو دکھائی نہیں دیتیں لیکن جب آپ ان سے مکالمہ کریں تو جلد ہی ان کے لہجے میں ان کی پیٹ میں چھپی داڑھی کا عکس دکھائی دینے لگتا ہے۔
میرے ایک خیبر میڈیکل کالج کے دوست مجھ سے کینیڈا ملنے آئے میں جب انہیں ڈنر کے لیے لے جا رہا تھا تو میں نے گاڑی میں عابدہ پروین کی آواز میں مصطفیٰ زیدی کی غزل لگائی
کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی
مضبوط کشتیوں کو کنارہ نہیں لگا
ایک منٹ کے توقف کے بعد حضرت فرمانے لگے
غزل بند کر دیں
اسلام میں موسیقی حرام ہے
میں نے ان کے احترام میں ٹیپ تو بند کر دی لیکن دل میں سوچا کہ یہ حضرت نہیں جانتے کہ بقول میر
میر کے دین و ایمان کا کیا پوچھتے ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
حضرت عابد ! آپ تو بخوبی جانتے ہیں کہ میں نے نجانے کب سے  مولوی کے فرمودات کو چھوڑ کر اپنے ضمیر کی پیروی شروع کر رکھی ہے۔اسی لیے اب میں پرسکون زندگی گزارتا ہوں اور خوش ہوں
عجب سکون ہے میں جس فضا میں رہتا ہوں
میں اپنی ذات کے غار حرا میں رہتا ہوں
آپ کا اپنی خاندانی زندگی کے بارے میں پڑھ کر اب مجھے حوصلہ ہو رہا ہے کہ میں آپ کی پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں کچھ جانوں
ایک ماہر امراض چشم ہونے کی حیثیت سے پچھلی نصف صدی میں مریضوں  کی SIGHTبہتر کرنے کے ساتھ آپ کی زندگی کی کیا HIGHLIGHTS
LOW LIGHTS
INSIGHTS
HINDSIGHTS
اور
FORESIGHTS
تھیں۔ آپ صاحب بصارت ہی نہیں صاحب بصیرت بھی ہیں۔
آپ کا بچپن کا دوست
خالد سہیل
۲۶ جنوری ۲۰۲۵
۔۔۔۔۔۔
پس نوشت: عظمیٰ میرا خط پڑھ کر مسکرائیں اور کہا کہ آپ نے عابد نواز کو دادا بننے کی داد نہیں دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خط نمبر ۱۲۔۔۔۔ڈاکٹر عابد نواز کا خط ڈاکٹر خالد سہیل کے نام 

استعاراتی خضر المعروف بہ سالک جناب خالد سہیل صاحب
ہم جانتے ہیں یہاں خضر سے ہر گز وہ خضر مراد نہیں جن کے بارے میں غالب نے مایوسی کا اظہار کیا تھا

کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی

بلکہ غالب نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ

لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
جانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے

لیکن جناب خالد سہیل کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ

خضر بھی آپ پر عاشق ہوئے ہیں
قضا آئی حیات جاوداں کی
مضطر خیر آبادی

آپ نے اشعار کے بارے میں پوچھا ہے کہ کیسے یاد رہتے ہیں اور کہیں ایسا تو نہیں کہ میں اپنے ہی شعروں کے ساتھ فرضی نام استعمال کرتا ہوں آپ جانتے ہیں کہ میں شاعر نہیں ہوں کبھی تک بندی ہو جاتی ہے جس میں کسی بندی کی حنا بندی یا ادابندی حتیٰ کہ صدابندی کا کوئی کردار نہیں ہوتا نہ ہی یہ تک بندی پابندی سے سرزد ہوتی ہے شاذ و نادر ہی وجود پذیر ہوتی ہے بنا کسی شاذیہ یا نادرہ کی کمک کے
ظاہر ہے اس کے لیے کسی فرضی نام کی ضرورت نہیں پڑتی
دراصل آج کل نیٹ پر گونا گوں مواد پڑھنے میں آجاتا ہے اگر کوئی دلچسپ شعر نظر سے گذرے تو عموماً یاد رہ جاتا ہے مگر اسے نوٹ بھی کر لیتا ہوں

دادا اور نانا کی بات بھی آپ نے کی ہے اس میں دانائی بلکہ دو چند دانا ہونے کا اشارہ ہے دادا اور نانا کے حروف کو اکٹھا کریں تو انسان دو بار دانا بن جاتا ہے

یہاں کے ماحول میں خلاف توقع زندہ دل رہنے کا ذکر بھی آپ نے کیا ہے یہ بھی ایک غنیمت اور مقام صد شکر ہے خوشی اور سکون اندرونی رویہ ہے جسے بیرونی عوامل کا محتاج نہیں ہونا پڑتا یعنی

کیوں ضروری ہے کسی کے پیچھے پیچھے ہم چلیں
جب سفر اپنا ہے تو اپنی روانی چاہیئے
مدن موہن دانش

آپ نے پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں بھی استفسار کیا ہے دراصل میری کوشش ہوتی ہے کہ ان خطوط میں اپنی داستان پر زیادہ زور نہ دوں اور بچپن کی کچھ دلچسپ یادداشتوں کا ذکر ہو بہرحال آپ نے پوچھا ہے تو مختصراً ذکر کر دیتا ہوں

جس طرح کینیڈا کی طب کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے ای سی ایف ایم جی کا امتحان پاس کیا تھا اسی طرح برطانیہ میں انٹری امتحان
PLAB
پاس کرنے کے بعد امراض چشم کی اعلیٰ تعلیم کی جتنی ڈگریاں وہاں دستیاب تھیں وہ سب حاصل کر لیں یعنی
DO
FRCS
FRCOphth
اس کے بعد پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ملازمت شروع کی جس میں پوسٹ گریجوایٹ ریزیڈنٹس کی ٹیچنگ شامل تھی مجھے چونکہ اس قسم کی تدریس کا ازحد شوق تھا لہذا یہ جاب میری طبیعت کے عین مطابق تھی اور اس سے بے پناہ لطف اندوز ہوتا تھا
اس صوبے میں پہلی بار بچوں کے امراض چشم کے لیے الگ اور مخصوص او پی ڈی سیشن شروع کیا تاکہ اُن کو مطلوبہ توجہ دی جا سکے
اس دوران کچھ اعزازات بھی دئیے گئے

Ophthalmological Society of  Pakistan
نے 2007 میں اپنی گولڈن جوبلی منائ اس موقع پر گولڈن جوبلی میڈل دیا گیا
اسی سوسائٹی نے مختلف مواقع پر دو اور اعزازات بھی دئیے یعنی

Best Teacher Award
Life Time Achievement Award

اس کے علاوہ مختلف کانفرنسوں میں پریزینٹیشن کے ان گنت شیلڈز بھی ملے بلکہ ڈاک کے ٹکٹ یا سکوں کو جمع کرنے کی طرح ان شیلڈز کو جمع کرنا ایک مشغلہ بن گیا
آفتھا لمولوجیکل سوسائٹی آف پاکستان کی خیبر پختون خواہ شاخ یعنی سابق صوبہ سرحد کا صدر بھی رہا اگرچہ یہ میرے طبعی رجحان اور شوق کے خلاف تھا مگر کچھ رفقائے کار کے مسلسل اصرار پر اس کے لیے آمادہ ہونا پڑا
لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ملازمت کے دوران کچھ حکومتی پالیسیوں کے ساتھ آہستہ آہستہ اختلافات بڑھتے گئے جس کے نتیجے میں سرکاری ملازمت سے ٢٣ مئ ٢٠٠٢ کو استعفیٰ دے دیا اُس کے بعد بھی ایک عرصے تک لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ریزیڈ نٹس کی ٹیچنگ کے لیے رضاکارانہ طور پر جاتا رہا اس دوران پشاور کے جدید ہسپتال حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں وژن سائنسز کی ایم فل کی کلاسز شروع ہوئیں انہوں نے مجھے وزیٹنگ فیکلٹی کے طور پر ٹیچنگ کے لیے مدعو کیا اور جب تک ان کی اپنی فیکلٹی پوری نہیں ہوئی میں وہاں جاتا رہا اس کے ساتھ ہی ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج جو ہمارے سرجری کے پروفیسر کبیر صاحب نے کبیر میڈیکل کالج کے نام پر قائم کیا ہے وہاں شمولیت اختیار کر لی یہاں انڈرگریجوایٹ یعنی ایم بی بی ایس کے سٹوڈنٹس کی تدریس کا موقع ملا یوں انڈرگریجوایٹ اور پوسٹ گریجوایٹ دونوں قسم کی تدریس سے لطف اندوز ہوتا رہا ستر سال کی عمر میں حکومتی ضوابط کے مطابق لازمی ریٹائر ہونا ہوتا ہے لہذا اب ملازمت سے فراغت ہے البتہ بعد از ظہر چار پانچ گھنٹے کے لئے اپنی پرائیویٹ پریکٹس میں مشغول ہوتا ہوں کانفرنسوں میں شرکت اور پریزینٹیشن کا شغل اب بھی جاری ہے دیکھتے ہیں یہ بخار کب اترتا ہے

یہ خط اپنی پیشہ ورانہ زندگی کی رام کہانی کی نذر ہو گیا ہے لہذا دلچسپ نہیں رہا اوپر سے جادو بیانی میں بھی چونکہ ملکہ حاصل نہیں اور کسی ملکہ عالیہ کا بھی اس میں کوئی دخل نہیں لہذا بقول نذیر قیصر یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ

جو باقی کچھ کہانی رہ گئی ہے
فقط جادو بیانی رہ گئی ہے

اب اجازت

julia rana solicitors

دوستِ درویش
عابد نوازمکا

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply