استنبول میں اسلامی دنیا کی نئی صف بندی(1)-افتخار گیلانی

بیسویں صدی کے اوائل میں متحدہ ہندوستان کے دور میں مرحوم احمد شاہ پطرس بخاری اپنے ایک طنزیہ مضمون ’مرید پور کا پیر‘ میں رقم طراز ہیں کہ جس شہر میں وہ مقیم تھے، وہیں کانگریس والوں نے اپنا سالانہ اجلاس منعقد کرنے کی ٹھان لی اور جب ایسا جلسہ بغل میں ہو رہا ہو، تو کون متقی وہاں جانے سے گریز کرے۔ یہی صورت حال کم و بیش حال ہی میں مجھے پیش آئی۔ معلوم ہوا کہ ترکیہ کے عروس البلاد استنبول میں ستاون اراکین پر مشتملاو آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اکاون واں اجلاس منعقد ہو نے والا ہے۔ اب ترکیہ میں مقیم کون صحافی اس موقعہ کو ضائع ہونے دیتا۔ ایک تو خطے کی صورت حال ایران۔ اسرائیل جنگ، غزہ کی صورت حال، دوسرا اس کانفرنس کے دوران افریقی ملک برکانو فاسو کے وفد سے ملاقات کی لالچ تھی، جس کے صدر ابراہیم ترورے نے استعماری طاقتوں کے خلاف افریقی ممالک کو متحد کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔ میں نے اس کانفرنس کیلئے رجسٹر کرکے انقرہ سے استنبول کی راہ لی۔ بتایا گیا کہ حکومت ترکیہ سے صحافی ہونے کا ناطے کانفرنس کیلئے رجسٹر کرنا بس ایک رسمی کاروائی ہے۔ ترکیہ کے شہر استنبول کی داد دینی پڑے گی کہ شہر میں ستاون وزراء خارجہ اور ان کے وفود کی موجودگی کے باوجود کہیں ٹریفک میں خلل تھا نہ معمولات زندگی میں رخنہ ڈالا گیا تھا۔کانفرنس بلڈنگ تک معلوم ہی نہیں پڑا، کہ شہر میں اتنی بڑی تعداد میں وی وی آئی پییز جمع ہیں۔ کوئی سڑک بند، نہ پولیس کے دستے نظر آرہے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ بس ایک یا دو غیر ملکی سربراہان کی آمد پر تو نئی دہلی میں تو کئی اہم شاہرائیں بند ہو جاتی ہیں۔جن سے میلوں دور تک ٹریفک جام لگتا تھا۔ اسلام آباد میں پچھلے سال شنگھائی تعان تنظیم کے اجلاس کے وقت تو پورا شہر ہی بند کردیا گیا تھا۔ حتیٰ کہ شہر کے نواح میں کانفرنس ہال سے میلوں دور شادی ہالوں تک کو بند رکھنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ چونکہ استنبول میں آئے دن غیر ملکی مہمانوں کے آنے کا تانتہ بندھا ہوا ہوتا ہے، اسلئے بھی شاید یہ ایک روٹین سا بن گیا ہے۔ پھر اسی کانفرنس بلڈنگ کے پاس ہی ایک نیم دائرہ میں ہوٹلوں کی ایک قطار تھی۔ وفود کے اکثر اراکین کو پیدل ہی ہوٹل سے کانفرنس ہال تک آتے دیکھا۔ خیر کانفرنس کے استقبالیہ پر معلوم ہوا کہ میرا نام لسٹ میں موجود ہی نہیں تھا۔ وجہ بتانے کیلئے کوئی موجود نہیں تھا۔ دو گھنٹہ منت سماجت کرنے اور یہ دہائی دینے کے بعد کہ میں انقرہ سے بس اسی کانفرنس کو کور کرنے کیلئے چلا ہوں اور ہوٹل میں مقیم ہوں، تو اسکارٹ کرکے مجھے پریس گیلری میں لے جایا گیا، جو اسٹیج سے کافی دور اوپر کی منزل میں تھی۔ بتایا گیا کہ صرف افتتاحی سیشن ہی پریس کیلئے اوپن ہے۔ترک افسران بار بار معذرت اور پشیمانی کا اظہار کررہے تھے کہ رجسٹریشن کے باوجود او آئی سی کے سیکرٹریٹ کے اجازت نامے کی لسٹ میں میرا نام نہیں تھا۔ معلوم ہو اکہ میرا بھارتی پاسپورٹ اور شہریت دیکھ کر او آئی سی سیکرٹریٹ نے میرا نام لسٹ میں شامل نہیں کیا تھا۔ ان کو ہدایت تھی کہ بھارتی اور اسرائیلی صحافیوں کو اس کانفرنس تک رسائی نہیں دینی ہے۔ افتتاحی سیشن ، جس کو ترک صدر رجب طیب ایردوان نے خطاب کیا، کے بعد صحافیوں کو دوسری بلڈنگ میں میڈیا سینٹر لے جایا گیا اور بتایا گیا کہ اب کانفرنس کے جائے وقو ع تک ان کی رسائی بند ہے۔ یہ ایک نئی ٹرینڈ ہے۔ پچھلے تیس برسوں سے سارک سربراہ یا وزراء خارجہ کانفرنس، ناوابستہ ممالک کا اجلاس،برکس، شنگھائی تعاون تنظیم، افریقہ چوٹی اجلاس یا اقوام متحدہ کی ماحولیات سے متعلق وغیرہ ایسی ان گنت کانفرنسیں کور کرنے کا موقعہ ملا ہے۔ اس میں ایک یا دو سیشن آن ریکارڈ میڈیا کیلئے کھول دئے جاتے تھے، مگر پھر صحافی وہیں بلڈنگ کے آس پاس یا لابی وغیر میں ہی گھومتے پھرتے تھے۔ باہر سے آئے مہمان بھی ناشتہ، لنچ کے وقت ان سے ملنے اور اس ملک کے متعلق جاننے کے خواہشمند ہوتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ دہلی میں افریقہ سمٹ کے موقعہ پر ایک افریقی ملک کے وزیر بہار کے صوبائی انتخابات کے بارے میں جاننے کیلئے بیتاب تھے۔ اس طرح جب صحافیوں کا کانفرنس کے مندوبین کے ساتھ تعامل ہوتا تھا، تو خبرو ں کے حصول کے علاوہ ان کے شعور اور عالمی امور کی سوجھ بوجھ میں اضافہ ہوتا تھا اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی تھی۔ یہ تعامل چونکہ غیر رسمی ہوتا تھا ، مندوبین بھی کھل کر اپنی علمی مہارت شئیر کرتے تھے۔ صحافیوں کیلئے یہ اب ایک سنجیدہ معاملہ بن چکا ہے۔پوری دنیا میں مسند حکومت پر برا جمان افراد کو لگتا ہے کہ اب ان کو میڈیا کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ سوشل میڈیا نے ان کی رسائی پبلک تک براہ راست کر دی ہے۔ اس لئے میڈیا کو اب رسمی یا غیر رسمی رسائی دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اب صحافیوں کی موجودہ جنریشن کو علمی مہارت یا تجزیہ کاری کا تجربہ حاصل ہو تو کیسے ہو۔ اس میں صحافی خود بھی قصوروار ہیں۔۔ الیکٹرانک میڈیا کے آنے سے بس مائک اور کیمرہ رپورٹروں کو کسی مندوب کے آگے کرکے بریکنگ نیوز لانی ہوتی ہے۔ اس پر خاصے جھگڑے بھی ہوتے تھے۔ اس وجہ سے بھی رسائی بند کر دی گئی۔ ارباب اقتدار اور صحافیوں کو اس معاملے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انفارمیشن حاصل کرنے کیلئے ایک غیر رسمی بریفنگ اور انٹر ایکشن کا ہونا ضروری ہے، جو بعد میں مضامین یا ایڈیٹوریلز میں جھلکتا ہے۔ ورنہ وہی حال ہوگا، جس کا مظاہرہ حال کی بھارت۔پاکستان جنگ میں بھارتی میڈیا خاص طور پر ٹی وی چینل کر چکے ہیں۔ خیر اس کانفرنس کے پہلے روز کے اختتام کے بعد ہی امریکہ نے ایران پر حملہ کرکے اس کی نوعیت ہی بدل دی۔ اگلے روز ایرانی وزیر خارجہ نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور اپنا دورہ ادھورا ہی چھوڑ کر صلاح و مشورہ کیلئے ماسکو چلے گئے۔ چونکہ شام کی جنگ میں ایران نے روس کی خاصی مدد کی تھی اور مشرق وسطیٰ میں ایک عرصے کے بعد روس کو قدم جمانے اور بحری اڈہ قائم کرنے میں مدد کی تھی، اس لئے امید تھی کہ روس اس احسان کا کچھ بدلہ تو ضرور چکائے گا۔ اس کانفرنس کے دوران احساس ہوا کہ پاکستان، سعودی عرب اسلامی ملک کی لیڈرشپ کے کردار میں واپسی کر رہے ہیں۔کئی دہائی قبل ایک بڑی تبدیلی یہ رونما ہو گئی تھی کہ اسلامی ممالک کی سربراہی دیرے دیرے پاکستان اور سعودی عرب کے ہاتھوں سے نکل کر ترکیہ اور ایران کے پاس چلی گئی تھی۔ جب سے او آئی سی کا قیام عمل میں آیا، تب سے ہی پاکستان میں وزارت خارجہ کی نکیل چونکہ ذولفقار علی بھٹو سے لیکر شاہ محمود قریشی بشمول صاحب زادہ یعقوب خان وغیر جیسے زیرک اور انگریزی جاننے والے افراد کے ہاتھوں میں ہوتی تھی، اس لئے کانفرنس کا ایجنڈہ اور اعلامیہ اکثر وہی ڈرافٹ کرتے تھے۔ سعودی عرب میں اس تنظیم کا سیکرٹریٹ تھا اور مالی طور پر سب سے زیادہ بار وہی اٹھاتا تھا۔(جاری ہے)

بشکریہ 92 نیوز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply