احتیاط کریں، حکومت نااہل ہے/نجم ولی خان

ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ حالات اور واقعات کے منطقی بہائو میں حکومت کی ذمے داری ہمیشہ دوسرے نمبر پر آتی ہے درجہ بندی میں سب سے پہلے آپ کی اپنی احتیاط اور ذمے داری ہے، جی ہاں، میں سوات میں جاں بحق ہونے والے ڈسکہ کے خاندان کی بات کر رہا ہوں اور اس سے پہلے شمالی علاقہ جات میں حادثے کا شکار ہونے والے گجرات کے چار نوجوانوں کی۔ بہت پیچھے جائیں تو مجھے لاہور سیالکوٹ موٹرے وے سے ملحقہ رنگ روڈ پر زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون کا حوالہ دینے میں بھی عار نہیں جو بغیر پٹرول چیک کئے ہوئے ایک نئی بنی ہوئی ویران سڑک پر پہنچ گئی۔ میں دنیا کے سب سے دانا شخص اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کروں گا، کسی نے ان سے پوچھا کہ میں مسجد میں نماز پڑھنے کے جاتے ہوئے گھوڑا باہر اللہ کے توکل پر کھلا چھوڑ دیتا ہوں تو انہوں نے فرمایا، پہلے گھوڑے کو باندھو اور پھر اللہ پر توکل کرواور یہاں تو ان حکومتوں پر توکل کرنے کی بات ہے جن کے پاس وسائل بھی محدود ہیں اور کچھ نااہل اور نکمی بھی ہیں۔

میں اگر اپنی سیاسی سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے بات کروں تو مجھے سب سے پہلے خیبرپختونخوا کی حکومت اور وزیراعلیٰ گنڈا پور پر ہی چڑھائی کرنی چاہیے اور یہی میرے سارے دوست کر رہے اور بھرپور داد لے رہے ہیں مگر میں اسے اب بھی دوسرے درجے اور مرحلے میں ہی رکھتا ہوں کہ پہلے ہمیں اپنے جان و مال کے حوالے سے خود احتیاط کرنی چاہیے۔ بات صرف خیبرپختونخوا کی نہیں پورے پاکستان کی ہے۔ لاہور کی سڑکوں پر کم از کم لاکھ، دو لاکھ موٹرسائیکل تو ضرور چلتے ہوں گے ۔ کیا وجہ ہے کہ ایک شخص چالیس پچاس سال موٹرسائیکل چلا کے بھی زندہ رہتا ہے اور دوسرا شخص پچیس برس کی عمر میں ہی ون ویلنگ کرتے ہوئے سڑک پر سر پھڑوا کے مارا جاتا ہے۔ ان دونوں میں کوئی تو فرق ہے۔ شمالی علاقہ جات میں جاتے ہوئے جب گجرات کے چار نوجوانوں کی گاڑی حادثے کا شکار ہوئی تو ہم سب کہتے ہیں کہ وہاں حکومت کو سڑکوں کے کناروں پر محفوظ سفر کے لئے رکاوٹیں رکھنی چاہئیں مگر سوال یہ ہے کہ اسی سڑک پر روزانہ سینکڑوں اور ماہانہ ہزاروں گاڑیاں گزرتی ہیں، ان میں لاکھوں لوگ سوار ہوتے ہیں تو کیا وہ سب ہی ایسے حادثات کا شکار ہوتے ہیں اور میرا جواب ہے کہ نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ احتیاط سے ڈرائیونگ کرتے ہیں۔ اگر ان کو نیند آ رہی ہو تو وہ ڈرائیونگ روک دیتے ہیں یا ڈرائیور تبدیل کر لیتے ہیں۔ میں پھر کہوں گا کہ میں علی امین گنڈا پور کا سخت ناقد ہوں اوراس کا اسلام آباد میں دیا گیا بیان افسوسناک بھی ہے اور شرمناک بھی جب اس سے پوچھا گیا کہ خیبرپختونخوا میں لوگ سیلاب سے مر رہے ہیں تو اس نے کہا کہ اس کا لیڈر اس کی ذمے داری ہے اور وہ ایک تحریک بھی چلا رہا ہے ۔

میں نے اس واقعے کے بارے میں تفصیلات معلوم کی ہیں۔ وہ فیملی بہت سارے دوسرے لوگوں کے ساتھ دریا پر بنے ہوئے ایک ہوٹل میں تھی ۔ جب پانی آیا تو انہوں نے وہاں سے نکلنے کی بجائے سیلفیاں بنانی شروع کر دیں۔ کیا یہ بات درست نہیں کہ وہ تمام لوگ بھی اس وقت وہیں پر تھے جو ان کی ویڈیوز بنا رہے تھے مگر وہ وقت پر محفوظ جگہ پر چلے گئے تھے۔ میرے کئی دوست کہیں گے کہ یہ وکٹم بلیمنگ ہے، نہیں، نہیں، یہ وکٹم بلیمنگ ہرگز نہیں ہے بلکہ احتیاط کا مشورہ ہے جیسے اپنے کسی پیارے کو دے سکتے ہیں۔ جیسے ایک ماں یا باپ اپنے بیٹے کو موٹرسائیکل دیتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ احتیاط سے چلانا، اوور سپیڈنگ مت کرنا اور ون ویلنگ تو بالکل بھی نہیں۔ کیا کوئی ماں یا باپ اپنے بیٹے سے کہے گا کہ تم احتیاط مت کرنا، مریم نواز، مراد علی شاہ یا گنڈا پور تمہیں بچا لیں گے؟ جیسے ہم اپنی خواتین کو گاڑی چلانے سے پہلے کہیں کہ اس کا پٹرول دیکھ لو اور ٹائروں کی ہوا بھی کہ کوئی ٹائر فلیٹ تو نہیں، کہیں ایسا نہ ہو تمہیں سڑک پر کھڑا ہونا پڑے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ گھر سے باہر جاتے ہوئے اسے لاک کر کے احتیاط کرتے ہیں کہ چور،ڈاکو گھرمیں داخل نہ ہو جائیں ۔ آپ ٹرین کے سامنے کھڑے ہو کے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ٹرین روکنا ڈرائیور کا کام تھا، کیااس میں ریلوے والوں نے بریک نہیں لگا رکھی؟ اگر آپ خود احتیاط نہیں کریں تو لاہور کی سڑکوں پر مریم نواز اور کراچی کے ساحل پر مراد علی شاہ بھی آپ کو نہیں بچا سکیں گے اور ہم علی امین گنڈا پور جیسی صلاحیتوں والے وزیراعلیٰ پر بالکل اعتماد نہیں کرسکتے۔

ہاں، یہ درست ہے کہ جب ایمرجنسی صورتحال ہو جائے تو پھر ذمے داری حکومت پر ہے کہ وہ مدد کرے اور مجھے افسوس کے ساتھ کہنا ہے کہ سیاحت ، خیبرپختونخوا کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے اوراس سے شمالی علاقہ جات کے سب سے زیادہ لوگ کسی نہ کسی صورت میں جڑے ہوئے ہیں مگر حکومت کی اس انڈسٹری پر رتی برابر بھی توجہ نہیں ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ کہ ہوٹلوں کے کمروں کے کرایوں سے اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں تک کے لئے کوئی قانون کوئی ضابطہ موجود نہیں ہے۔ حالات تواس حد تک ابتر ہیں کہ سیاحتی مقامات پر پبلک واش روم تک نہیں ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ یہ ان مقامات کے ارد گرد پاخانے ہی پاخانے ، بد بو ہی بدبو ہے۔ خیبرپختونخوا کی موجودہ حکومت کسی ایمرجنسی پر رسپانس کرتی ہوئی نظر نہیں آتی اور یہی وجہ ہے کہ تین برس پہلے بھی ایسے ہی لوگ بے یارومددگار مرے تھے اور اب پھر وہی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ یہ دلیل سو فیصد درست ہے کہ اگر مقامی انتظامیہ ہی موجود ہوتی، وہاں کچھ کشتیاں یا کچھ رسے ہی موجود ہوتے اور وہ وہاں ایک ڈیڑھ گھنٹے میں پہنچ جاتے تو لوگوں کو بچایا جا سکتا تھا اور اگر مقامی انتظامیہ کچھ نہ کرپاتی تو صوبائی حکومت سے رابطہ کرتی اور جو ہیلی کاپٹر عمران خان کی بہن کو ریسکیو کر نے کے لئے بھیجا جا سکتا تھا وہ ان کے لئے بھی آ سکتا تھا۔ سوال تویہ بھی ہے کہ وہ ائیرایمبولینس کہاں ہے جس کے خیبرپختونخوا حکومت بلند وبانگ دعوے کر رہی تھی؟

julia rana solicitors

ایسی صورتحال میں میرااحتیاط کا مشورہ زیادہ اہم اور مفید ہوجاتا ہے جب متعلقہ حکومت نااہل اور نکمی ہو۔ آپ بحیثیت مجموعی ایسی پارٹی کوووٹ دے رہے ہوں جس نے بارہ تیرہ برس میں آپ کو زندگی بچانے تک کی سہولت نہ دی ہو۔ پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے بجا طو رپر سوال کیا ہے کہ کیا آپ کی پولیس اور ایمرجنسی سروسز تک سب سہولیا ت اور محکمے اس لئے ہیں کہ انہیں لے کر وفاق پر چڑھائی کی جائے۔ سب سے شرمناک یہ ہے کہ ہلاکتوں کے بعد بھی وزیراعلیٰ اسلام آباد میں بیٹھایوںسیاسی بڑھکیں لگا رہا ہے جیسے اس کی واحد ذمے داری اڈیالہ جیل توڑ کر ایک سزا یافتہ شخص کو رہا کروانا ہے۔ افسوسناک!

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply