جہاد عربی لفظ “جہد” سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے “جدوجہد” اور “کوشش کرنا” لغوی طور پر، اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے راستے میں مقدس جنگ کرنا تاکہ اس کے حکم کو نافذ کیا جا سکے اور ظلم و ستم کا خاتمہ کیا جا سکے۔
جہاد کا لفظ جیسا کہ اسے عموما ً غلط سمجھا جاتا ہے، صرف مسلح جدوجہد کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ یہ پانچ دوسرے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے:
1. جہاد بالنفس؛ اپنی نفس اور اپنی خواہشات کے خلاف جہاد
2. جہاد بالعمل؛ معاشرتی اصلاحات,بدعنوانی اور معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے لئے جدوجہد۔
3. جہاد بالعلم؛ علم کو پھیلانے کے لئے کوشش کرنا۔
4. جہاد بالمال؛ غربت کے خاتمے کے لئے اپنے مال سے جدوجہد۔
5. جہاد بالسیف؛ تلوار کے ساتھ جدوجہد جو دفاع میں یا جارحیت کے خلاف کی جاتی ہے۔
جہاد بالسیف (تلوار کے ساتھ جدوجہد) سب سے آخر میں آتا ہے لیکن اسے عام طور پر دوسری معانی کے ساتھ گڈ مڈ کر کے سب سے اوپر لایا جاتا ہے۔ جب تمام دوسرے رستے مسدود ہو جاتے ہیں تو اسکا آخری آپشن کے طور پر اجازت دی گئی ہے۔
جہاد (جہاد بالسیف) کو اسلام کے مخالفین دہشت گردی کے ساتھ جان بوجھ کہ غلط طور پر ملاتے ہیں۔
دہشت گردی ایک جنگ ہے جو ناپاک مقاصد پر مبنی ہوتی ہے اور دوسروں کو تکلیف اور اذیت پہنچاننے کے لئے ہوتی ہے۔ قرآن اسے ‘فتنہ’ اور ‘فساد’ قرار دیتا ہے۔ یہ “جہاد” کے اسلامی احکامات سے سراسر انحراف ہے اور اسے زمین میں بدی پھیلانے کے لئے لڑا جاتا ہے۔
قرآن مجید میں کئی مواقع پر جہاد کا ذکر اور ہدایت دی گئی ہے؛
”کہا گیا کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جانوں کے ساتھ کوشش کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جان لو۔“
ایک اور موقع پر، یہ کہتا ہے؛
يايهاانبي جاهدالكفار والمنافقين واغلظ عليهم وماواهم جهنم وبس المصير: التوبة:73
”اے نبی کافروں اور منافقوں کے خلاف جہاد کرو اور ان پر سختی کرو، ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بری جگہ ہے۔ (9:73)“
حضرت محمد (ﷺ) فرماتے ہیں،
”کوئی شخص جس کے پاؤں اللہ کے راستے میں غبار آلود ہو جائیں، جہنم اسے نہیں چھوئے گی۔“
جیسا کہ اوپر ذکر کر دیا گیا ہے کہ جہاد کے بارے میں نہ صرف مخالفین میں بلکہ خود مسلمانوں میں بھی بہت زیادہ غلط فہمیاں اور ابہام موجود ہیں۔ آج جو عسکریت پسند، فرقہ وارانہ تنظیمیں اسلامی دنیا اور مغرب میں جہاد کے نام پر جو کچھ کر رہی ہیں، ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اسلام کبھی بھی بے گناہوں کو قتل کرنے یا غیر مسلموں پر زبردستی اپنا ایجنڈا مسلط کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ جیسا کہ حضرت محمد (ﷺ) فرماتے ہیں؛ لا اكراه في الدين یعنی دین میں کوئی زور زبردستی نہیں۔
جب بھی حضرت محمد (ﷺ) فوج کو کسی مہم پر بھیجتے، تو انہیں تاکیداً نصیحت کرتے تھے کہ “عورتوں، بچوں، غیر جنگجوؤں اور کھیتوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔”
پچھلے کچھ سالوں میں جو کچھ شام، عراق اور یمن میں مسلمانوں کے درمیان ہوا, وہ مکمل طور پر “فساد” اور “فتنہ” ہے نہ کہ جہاد۔ یہ لوگ اسلام کے نام کو بدنام کر رہے ہیں اور اس سب کچھ کا ارتکاب یا تو لاعلمی میں کر رہے ہیں یا پھر اپنے ذاتی مقاصد کو پروان چڑھانے کے لئے، مقدس جنگ “جہاد” کو دہشت گردی کے ساتھ ملانا سب کچھ سوچے سمجھے مذموم مقاصد کے لئے ہوتا ہے_
امریکہ نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان میں جو کیا یا جو کچھ اس نے حالیہ سالوں میں ویت نام، فلسطین، عراق، افغانستان میں “مقدس جنگ” کے نام پہ کیا اور لاکھوں لوگوں کو صرف اپنے مفادات اور مکروہ عزائم کے لئے مارا کیا اس سے بدترین دہشت گردی ہو سکتی ہے یا جو کچھ پچھلے اکتوبر سے اسرائیل فلسطین میں کر رہا ہے جس میں اب تک سینتیس ہزار معصوم فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا ہے جس میں سے آدھے سے زیادہ شیر خوار بچے تھے غزہ کی پچھلے نو مہینے سے ناکہ بندی ہے اور خوراک اور پانی تک کی رسائی بند ہے لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں آنے والی ہر قرارداد کو امریکہ بہادر جسطرح ویٹو کر رہا ہے کیا اس سے بدترین دہشت گردی تاریخ عالم نے دیکھی ہے
اسلام ایک امن کا مذہب ہے، یہ صرف امن ہی کی پرچار کرتا ہے اور ہر قسم کی بربریت، جارحیت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف ہے، جیسا کہ کتاب عظیم میں کہا گیا ہے؛
من اجل ذالك كتبنا علي بني إسرائيل أنه من قتل نفسا بغير نفس أو فساد في الارض فكأنما قتلت الناس جميعا و من أحياها فكأنما أحيا الناس جميعا
”اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم لکھ دیا کہ جس نے کسی جان کو بغیر جان کے کے یا زمین میں فساد کے بدلے قتل کیا، تو اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کیا۔ اور جس نے کسی جان کو بچایا، تو اس نے گویا تمام انسانوں کو بچایا۔“
ان قرآنی آیات سے واضح ہوتا ہے کہ آیا ایسا دین دہشت گردی کو فروغ دے سکتا ہے یا حمایت کر سکتا ہے جس میں انسانیت کے لئے اتنی زیادہ عزت ہے، ہرگز نہیں،بالکل بھی نہیں ایسا تصور کرنا ہی محال ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں