سانحہ سوات/فرزانہ افضل

انتہائی دردناک حادثہ جس میں ایک ہی خاندان کے 18 افراد سیلاب کے پانی کی نذر  ہو گئے۔ قیامت سی قیامت ہے۔ جہاں اس خاندان کے اجڑنے کا دکھ ہے وہاں اس بات کا بہت افسوس ہے کہ حکام اور حکومتی اداروں نے اس حادثے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ کوئی ریسکیو ٹیمیں، کوئی ایمرجنسی سروسز، کسی قسم کی امداد نہیں پہنچی، کسی طریقے سے لائف جیکٹس ان تک نہیں پھینکی گئیں۔ اور وہ تمام افراد دریا کی بپھری ہوئی موجوں سے لڑتے لڑتے ہار گئے۔ پاکستان میں رسک اسیسمنٹ یعنی خطرے کو جانچنے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ ساحل سمندر ، دریا کنارے، پلے لینڈ وغیرہ ہر قسم کی تفریح گاہوں پر حفاظتی اقدامات کیے جانے چاہیے تاکہ کسی بھی خطرے سے باحفاظت نمٹا جا سکے۔

سوات کے دریا کنارے کسی قسم کے خطرے کے جھنڈے نصب نہیں تھے ایسے جھنڈے جو پانی کی پہنچ اور گہرائی کے لیے لگائے جاتے ہیں یا ایک حد مقرر کرنے کے لیے کہ اس کو پار کریں گے تو آپ کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔ کوئی لائف گارڈز مقرر نہیں تھے۔ لائف گارڈز جو مشاق تیراک ہوتے ہیں وہ جیکٹس پہنے ہر وقت تیار ہوتے ہیں کسی بھی ایسی صورتحال جس میں کوئی ڈوب رہا ہو تو وہ پانی میں کود کر اس کو بچا سکیں۔ اس کے علاوہ ایسے محکمے جو سیلاب کی پیشین گوئی کرتے ہیں اور ساحل سمندر اور دریا کنارو   ں کو گارڈ کرتے ہیں اور پانی  آنے کے  وقت  کا تعین کر سکتے ہیں کس وقت لہریں آئیں گی پانی کا زور کس وقت میں کتنا ہوگا ایسے محکموں کا قیام لازمی ہے۔

حکومتی امیدوار عوام سے کس بات کے ووٹ لیتے ہیں کہ جب ان کے لیے حفاظتی اقدامات ہی نہیں کر سکتے۔ گرمی کا موسم ہے اور پاکستان کی ابلتی ہوئی گرمی میں لوگ گرمی کی شدت کم کرنے کے لیے پانی کا رخ کرتے ہیں اور یہ پہلا حادثہ نہیں تھا ایسے کئی حادثے ہوتے رہتے ہیں کچھ عرصہ قبل چار پانچ دوست اسی طرح ایک چٹان پر کھڑے تھے اور پانی کا ریلا آیا اور ان کو بہا کر لے گیا۔

حال ہی میں فیصل آباد کے پلے لینڈ میں ایک جھولے میں بجلی کا کرنٹ آنے سے ایک جان چلی گئی ۔ ضروری ہے کہ تمام حفاظتی اقدامات کیے جائیں، مکمل انفراسٹرکچر قائم کیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام کو اپنی ذاتی حفاظت کی آگاہی دینا بھی بہت ضروری ہے۔ ٹی وی اور ڈیجیٹل میڈیا پر آگاہی مہم چلائی جائے جس میں تفریح گاہیں خصوصاً ساحل سمندر پر اپنی ذاتی حفاظت کیسے کی جائے کن چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے یہ عوام کو ضرور سکھایا جائے۔

ایک اور بات پاکستان میں سوئمنگ پولز بنائے جائیں اور سکولوں سے ہی بچوں کو تیراکی کی ٹریننگ دی جائے۔ وہاں پر لوگ نہروں میں ہی سوئمنگ سیکھتے ہیں۔ حکومت اور اداروں کو چاہیے کہ انسانیت کا مظاہرہ کریں اور اپنی غفلت، جہالت اور خود غرضی کا اعتراف کریں کہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ان کی حفاظت کے لیے وہ کسی قسم کے اقدامات نہیں کرتے صرف اپنی جیبیں بھرتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply