لندن کی بے ہنگم ہڑبونگ، گنجان سڑکوں، مصروف چہروں اور مسلسل بجتے ہارنوں سے کوسوں دور، ان دنوں میں ایک چھوٹے سے ساحلی گاؤں میں مقیم ہوں۔ یہ گاؤں، جو شاید نقشے پر ایک نقطے سے زیادہ کچھ نہ دکھائی دے، مگر اس کی ہواؤں میں صدیوں پرانی سرگوشیاں بسی ہوئی ہیں، اور لہروں کی ہر دوش میں کوئی ان کہی داستاں لپٹی ہوئی ہے۔
دنیا کے شور سے کٹی اس پُرسکون بستی میں، رات دیر گئے تک کہانیاں سننا اور فجر کے بعد دن چڑھے تک سونا، میری روزمرّہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ کچھ ایسا سکون ہے یہاں کہ وقت بھی جیسے سست روی سے چلتا ہے — دن دھیرے دھیرے کھلتا ہے اور رات کسی حکیم کی چپ سی لگائے، خامشی سے گزر جاتی ہے۔
پہلے، جب میں رات کے آخری پہر لکھنے بیٹھتا تھا، تو الفاظ جیسے اداس ہو جاتے تھے۔ شاید تنہائی دل کو زیادہ حساس بنا دیتی ہے۔ اب دن کے اجالے میں قلم اٹھاتا ہوں تو لفظ ذرا پرامید نظر آتے ہیں، جیسے صبح کی روشنی نے انہیں نئی زندگی عطا کر دی ہو۔
یہ بات درست ہے کہ برطانیہ کے کئی شہر سمندر کنارے آباد ہیں، مگر ہر ایک اپنی الگ خوشبو، اپنی جدا تہذیب، اپنی منفرد کہانی رکھتا ہے۔ یہاں، اس چھوٹے سے گاؤں میں، میں نے کئی ہندوستانی اور پاکستانی بزرگوں سے ملاقات کی ہے۔ ان میں ایک عجیب سی اپنائیت ہے — جیسے میں اُن کے بچھڑے وطن کی کسی گلی سے آیا ہوا مسافر ہوں، جسے وہ سینے سے لگا لینا چاہتے ہیں۔
کل رات ایک پاکستانی بزرگ سے ملاقات ہوئی — عمر کوئی اسی برس کے لگ بھگ۔ مسجد میں ملے تو بڑی شفقت سے بولے، “بیٹا، آج کا کھانا میرے ساتھ کھانا ہے۔”
میں نے خوش اخلاقی سے انکار کیا، مگر ان کی محبت بھری ضد کے آگے ہار ماننی پڑی۔ مسجد کی عقبی گلیوں سے گزرتے، ہم ان کے گھر پہنچے۔ دروازہ کھلا تو اندر صوفے پر کچھ کتابیں بکھری تھیں: پروین شاکر کی *ناتمام*، قدرت اللہ شہاب کا *شہاب نامہ*، ممتاز مفتی کی *الکھ نگری*، عبدالماجد دریا آبادی کا انگریزی ترجمہ قرآن، شبلی نعمانی کی *سیرۃ النبی* اور بھی بہت کچھ۔
جب آپ یہ سب پہلے ہی پڑھ چکے ہوں، اور ایسے ہی کسی باذوق صاحبِ دل کے ساتھ بیٹھے ہوں، تو وقت رک جایا کرتا ہے۔ وہ کچن میں چلے گئے، میں نے ساتھ دینے کی پیشکش کی، مگر محبت بھری سختی سے منع کر دیا۔ میں کتابوں کی خوشبو میں کھو گیا، اور چولہے پر ان کے ہاتھوں سے نکلتی خوشبو نے گھر کو مہکا دیا۔
جب کھانے سے فراغت ہوئی، میں نے برتن دھونے کی اجازت چاہی۔ وہ فوراً بولے، “نہیں بیٹا، تم مہمان ہو، ہاتھ مت لگانا۔”
میں نے ان کی نرمی سے بھرپور ممانعت کو مسکرا کر نظرانداز کیا اور برتن اٹھا لیے۔ وہ پہلے تو کچھ خفا ہوئے، پھر خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ میں نے آہستگی سے کہا:
“آپ نے محبت سے کھلایا، میں نے محبت سے دھو دیا۔ حساب برابر ہو گیا، بابا جی۔”
ان کی آنکھوں میں ایک نمی سی تیرنے لگی۔ شاید برسوں بعد کسی نے یوں ضد کی تھی، یوں محبت کی تھی۔
رات جیسے تھم گئی تھی۔ ہم بیٹھے باتیں کرتے رہے — پاکستان، ہجرت، بمبئی، دہلی، لائلپور، اور ایک کھوئے ہوئے عشق کی گمشدہ تصویریں۔ وہ سناتے رہے، میں سنتا رہا۔ اور یوں، کب رات کے تین بج گئے، پتہ ہی نہ چلا۔
ان کی ہر کہانی، کسی پرانی لائبریری کی گرد آلود کتاب جیسی تھی — اور ان کا اندازِ بیان، جیسے کوئی مدھم سی دھن ہو، جو دل کی گہرائیوں کو چیر جائے۔ میں آنکھیں بند کر کے ان کی آواز کو محفوظ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ ان کے لہجے میں ہجرت کا دکھ بھی تھا، اور اس دیارِ غیر میں جینے کی خاموش جدوجہد بھی۔
“بیٹا، یہاں سب کچھ ہے، بس اپنا پن کم ہے۔ تم آئے ہو، تو یوں لگا جیسے بیٹے کو گلے لگایا ہو۔”
ایسی باتیں، ایسی شفقت… بڑے شہروں کی چمکتی سڑکوں پر کہاں ملتی ہیں؟ یہاں کی خاموشی بولتی ہے، اور بزرگوں کے چہرے جیسے زندہ افسانے۔
میں ان کی باتیں سن کر سوچتا ہوں، شاید ان کی کہانیاں کبھی لکھوں… یا شاید یہ کہانیاں ہی مجھے لکھ دیں۔
ایسا لگتا ہے، میں یہاں چند دن گزارنے نہیں، بلکہ کئی عمر کی بصیرت سمیٹنے آیا ہوں۔ یہاں کی ہر رات میرے اندر ایک نئی روشنی بھر دیتی ہے، اور ہر صبح ایک اور باب کھول دیتی ہے۔
لندن سے دور، شور سے ہٹ کر، سمندر کے کنارے — میں ان دنوں کہانیوں کے درمیان جی رہا ہوں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں