• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ممدانی کی کامیابی امریکہ میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بغاوت ہے/ثقلین امام

ممدانی کی کامیابی امریکہ میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بغاوت ہے/ثقلین امام

ظہران ممدانی کی 2025 کے نیویارک میئرل پرائمری میں فتح کو نہ تو محض شناختی سیاست (identity politics) قرار دیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی یہ صرف “مسلم ووٹ” کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ نیویارک کی آبادی میں مسلمان صرف 10 سے 12 فیصد کے درمیان ہیں، اور وہ بھی مختلف مسلکوں اور ضمنی شناختوں میں بٹے ہوئے ہیں، اور اگر یہ پوری برادری مل کر بھی انھیں ووٹ دیتی، تب بھی وہ پھر بی فرسٹ چوائس ووٹ حاصل نہ کر پاتے، جو کہ کُل ووٹوں کا 43.5 فیصد بنتے ہیں۔

نیویارک سٹی کے ڈیموکریٹک میئر پرائمری کے الیکشنز میں ظہران ممدانی نے 4,32,305 پہلے ترجیحی (first choice) والے ووٹ حاصل کیے، جو کل ووٹوں کا 43.51 فیصد بنتے ہیں۔ ان کے بعد اینڈریو کومو نے 3,61,840 ووٹ حاصل کیے، یعنی 36.42 فیصد۔ کومو نیو یارک کے معروف سیاستدان ہیں اور ریاست کے دس سال تک گورنر بھی رہ چکے ہیں، 2021 میں جنسی ہراسیمگی کے الزامات کی وجہ سے مستعفی ہوئے تھے۔
ان دو بڑے امیدواروں کے علاوہ بریڈ لینڈر کو 1,12,349 ووٹ (11.31 فیصد) ملے، جبکہ ایڈرین ایڈمز نے 40,953 ووٹ (4.12 فیصد) حاصل کیے۔ دیگر چھوٹے امیدواروں نے مجموعی طور پر 46,099 ووٹ لیے، جو 4.64 فیصد بنتے ہیں۔ کُل 9,93,546 ووٹ ڈالے گئے۔ ممدانی کو کومو پر 70,000 سے زائد ووٹوں کی برتری حاصل ہوئی، جو اربن ڈیموکریٹک ووٹرز کے رجحان میں ترقی پسند اور جنگ مخالف سمت کا واضح اشارہ ہے۔
دراصل ظہران ممدانی کی مہم امریکی سیاست میں اخلاقی اور سیاسی بغاوت کا پہلا کامیاب اور کھل کے ایک اظہار ہے، جس میں بائیں بازو سے وابستہ یوتھ کی ایک بڑی مگر خاموش کلاس ہے، جو طویل عرصے سے ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر دبی ہوئی تھی، خاص طور پر اسرائیل اور غزہ سے متعلق امریکی خارجہ پالیسی کے تناظر میں۔ اس یوتھ نے امریکی یونیورسٹیوں میں غزہ کی حمایت کرنے پر سٹوڈنٹس کے خلاف پولیس کی ظالمانہ کارروائیاں دیکھیں۔ آخر یوتھ کا غصہ تو نکلنا تھا۔
ممدانی، جو ایک ڈیموکریٹک پارٹی میں سوشلسٹ دھڑے سے تعلق رکھتے ہیں (Democratic Socialist) اور امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی فوجی اقدامات کے دیرینہ ناقد ہیں، انھوں نے ایک ایسا منشور بھی پیش کیا جس میں امریکی معاشرے میں معاشی انصاف کو غزہ پر بمباری کے خلاف ایک بے لاگ اخلاقی مؤقف کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ دی گارڈین نے 22 جون کی اپنی رپورٹ میں اس فتح کو “ایک حیران کن تبدیلی” قرار دیا جو “اسرائیل کے بارے میں ڈیموکریٹس کے اندر پائے جانے والے اتفاق میں گہری دراڑوں” کو ظاہر کرتی ہے۔
ظہران ممدانی کوئی غیر سنجیدہ یا حاشیے کا امیدوار نہیں تھا، انہوں نے ہزاروں وولنٹیئرز پر مشتمل ایک منظم گراس روٹس (grassroots) مہم کی قیادت کی، جو نیویارک کے شہریوں کے لیے سستی رہائش، صحت کی سہولت، اور جنگ مخالف اصولوں پر مبنی ایک مربوط سیاسی وژن لے کر چلی۔ اُن کے ساتھ جہاں نیویارک کی مختلف اقلیتوں کے نوجوان شامل تھے وہیں یونیورسٹیوں، کالجوں اور ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹس کے طلبا بھی شامل تھے۔ یہ یوتھ کی اینٹی اسٹیبلشمبٹ لہر اٹھی ہے۔
نیویارک کے میئر کے حالیہ انتخابات پر سیاسی تجزیہ کاروں نے واضح کیا ہے کہ غزہ کے بارے میں ظہران ممدانی کا مؤقف ان کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ تھا۔ ویب سائٹ (Vox.com) نے اپنی 25 جون 2025 کی رپورٹ میں لکھا کہ “ممدانی کی انتخابی مہم نے رہائش اور صحت جیسے عوامی مسائل پر بائیں بازو کی مقبول سیاست کو غزہ کی جنگ کو اس کے اصل نام سے پکارنے کی جرات کے ساتھ جوڑ دیا، اور یہی وہ بات تھی جس نے انھیں باقی امیدواروں سے ممتاز کر دیا۔”
سیاسی تجزیہ کار رولا جبریئل نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ “غزہ کی جنگ اب صرف خارجہ پالیسی کا مسئلہ نہیں رہی—یہ اب نوجوان امریکی ووٹرز، جس میں یہودی نوجوان بھی شامل ہیں، ان سب کے لیے ایک اخلاقی تقسیم کی لکیر بن چکی ہے۔” یہ نسلی، نسلیاتی اور نسلی حدوں سے ماورا ردعمل—جس میں ترقی پسند یہودی، اقلیتی گروہ، نوجوان ووٹرز، مسلمان اور ورکنگ کلاس لاطینی شامل ہیں—ممدانی کے حامی اتحاد کا بنیادی حصہ ہیں۔ بائی بازو کے معروف میگزین جیکوبن (Jacobin) نے لکھا: “اگر ان کے وولنٹیئرز نہ ہوتے تو ممدانی صرف ایک اچھی کہانی ہوتے، لیکن ان ہزاروں وولنٹیئرز کے ساتھ وہ ایک سنجیدہ امیدوار بنے۔”
ممدانی کا پیغام ان ووٹرز میں خاص طور پر مقبول ہوا جو غزہ پر دونوں جماعتوں کی خاموشی سے بددل ہو چکے تھے۔ خود ممدانی نے کہا: “جب میں نے فلسطینی انسانی حقوق کے حق میں آواز بلند کی، تو یہ اس یقین کے تحت کیا کہ انصاف اگر سب کے لیے نہ ہو تو وہ انصاف نہیں رہتا۔” اس قسم کی اخلاقی کلیریٹی، خاص طور پر ایک ایسے شہر میں جو طویل عرصے سے فیمعکیٹک اسٹیبلشمنٹ کے زیرِ تسلط رہا ہے، عوام کے لیے نہایت پرکشش ثابت ہوئی۔
یہ ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر بڑھتی ہوئی سینٹرسٹس اور لیفٹسٹس کے درمیان دراڑوں کا اظہار بھی ہے، جہاں اسرائیل کے لیے غیر مشروط حمایت کو اب نوجوان اور متنوع ووٹرز کی جانب سے کھلے عام چیلنج کیا جا رہا ہے۔ ایک بات مت بھولیں کہ نیویارک امریکہ کی یہودی آبادی کا بہت مضبوط شہر بھی ہے مگر شہر کے باشندوں نے ہر طاقتور کے خلاف ووٹ دیا، یہاں تک کے یہودیوں کی لیفٹسٹ یوتھ نے بھی ممدانی کو ووٹ دیا۔
دی اٹلانٹک میں لکھتے ہوئے پیٹر بینارٹ نے نوٹ کیا کہ ممڈانی کی فتح صرف غزہ تک محدود نہیں تھی—یہ “ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر اسرائیل پر اختلافِ رائے کا گلا گھونٹنے کے خلاف ایک کامیاب بغاوت” تھی۔ اور یہ شاید صرف شروعات ہو۔ منیپولس، شکاگو، سان فرانسسکو، اور ڈیربورن جیسے شہروں میں بھی اسی طرح کی سیاسی لہر دیکھنے کو مل رہی ہے—جس میں اسٹیبلشمنٹ سیاست سے بیزاری اور ان امیدواروں کے لیے جوش پایا جاتا ہے جو غزہ کے معاملے پر سچ اور زور سے بولنے کو تیار ہوں۔
نیویارک ٹائمز کے کالم نگار جمیل بویی نے ان الیہ بز سے یہ نتیجہ اخذ کیا: “اگر آپ 2025 کو سمجھنا چاہتے ہیں، تو دیکھیں کہ نیویارک میں کیا ہوا۔ ڈیموکریٹس اگر اس تبدیلی کو نظرانداز کریں گے، تو اس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑے گا۔” ممدانی کی فتح ایک انتباہ بھی ہے اور ایک مثال بھی۔ یہ ظاہر کرتی ہے کہ فلسطینی حقوق کے لیے حمایت اب ترقی پسندوں کے لیے سیاسی بوجھ نہیں رہی—بلکہ مناسب قیادت کے تحت یہ ایک کامیاب انتخابی حکمت عملی بن سکتی ہے۔
شاید یہ الیکشنز امریکہ کے قومی رجحان کو ظاہر نہ کرتے ہوں لیکن یہ اتنا پیغام ضرور دیتے ہیں کہ اگر ایک طرف مغربی سوسائیٹیز میں قوم پرستی اور اینٹی امیگرنٹس رجعت پسندی بڑھ رہی ہے تو وہیں کچھ جگہوں پر بائیں بازو کے ایسے رجحانات بھی تقویت پکڑ رہے ہیں جو سب کو ساتھ لے کر چلنے پر یقین رکھتی ہیں۔ یہاں ایک بات ضمناً کہی جا سکتی ہے کہ جہاں لندن کے میئر صادق لیبر پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ کا لیڈر ہے، ممدانی ڈیموکریٹس کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ لیڈر ہے۔ اور یہ بہت بڑا فرق ہے۔ بشکریہ فیسبک وال

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply