• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • دفاعی اتحاد یا سامراجی جنگ ؟- کس طرف کھڑا ہونا چاہیے؟-سائرہ رباب

دفاعی اتحاد یا سامراجی جنگ ؟- کس طرف کھڑا ہونا چاہیے؟-سائرہ رباب

آجکل بہت سی پوسٹس دیکھنے کو مل رہی ہیں جن میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ چین یا روس جیسے ملک اگر امریکہ اور یورپ کے مقابل کھڑے ہیں، تو وہ خود بھی سامراجی طاقتیں ہیں اور ان سے اتحاد کرنا بھی سامراج کا حصہ بننا ہے۔ اور اصل آزادی طبقاتی جدوجہد میں ہے ۔
یہ سچ ہے کہ مارکسی نظریہ کے مطابق سامراج کا بنیادی جڑ سرمایہ داری (capitalism) ہے، اور اسکا حقیقی خاتمہ صرف بین الاقوامی پرولتاری انقلاب اور طبقاتی جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔ اس بنیاد پر کچھ لوگ دعوی کرتے ہیں کہ چین، روس، یا ایران جیسے ملک بھی چونکہ سرمایہ داری کی ہی کسی نہ کسی شکل میں جڑے ہیں اس لئے وہ اینٹی-سامراجی نہیں کہلا سکتے۔لہذا انکو سپورٹ نہیں کرنا چاہیے ۔
یہ سوچ عملی طور پر بہت بڑا مغالطہ اور کوتاہ نظری ہے۔
پوسٹ کولونیل اسکالرز (جیسے ایڈورڈ سعید، ،فینن، سعید ، نگوگی ، فرارے ، گائتری سپیواک وغیرہ ) استعمار کو صرف معاشی نظام نہیں، بلکہ ایک تہذیبی، عسکری، لسانی، اور ثقافتی حملہ بھی قرار دیتے ہیں۔. لہٰذا صرف طبقاتی جدوجہد ہی کافی نہیں، بلکہ ثقافتی ، تہذیبی، ریاستی، اور خطے کی خودمختاری بھی انتہائی ضروری ہے۔
اس کا تاریخی پس منظر میں جائزہ لیں تو تیسری دنیا کے بیشتر ممالک نے جب بھی مغربی سامراج کی مخالفت میں خود کو تنہا کھڑا کرنے کی کوشش کی، تو یا تو ریجیم چینج آپریشنز کے ذریعے ان کی حکومتیں گرا دی گئیں. یا پھر معاشی پابندیوں اور داخلی شورشوں کے ذریعے انہیں کمزور کیا گیا۔ لیبیا ، عراق ، افغانستان جیسی ریاستوں کو نیست و نابود کر دیا گیا ۔
اس کے مقابلے میں جن ممالک نے چین، روس یا علاقائی بلاکس کے ساتھ اسٹریٹیجک اتحاد قائم کیے، وہ کم از کم مغربی دباؤ کے خلاف سروائیو کرنے کے قابل ہوئے ۔۔۔ جیسے کہ ایران کی مزاحمت، وینزویلا اور شام کا دفاع۔
خصوصاً جنوبی ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ میں چین یا روس کی موجودگی سامراجی کنٹرول سے زیادہ تجارتی، دفاعی، اور خودمختاری کو وسعت دینے کا ذریعہ بن رہی ہے۔
بیلٹ اینڈ روڈ جیسے منصوبے کم از کم مغربی militarized استعمار سے مختلف نوعیت رکھتے ہیں۔
اگر آج آپ مغربی سامراج (یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، نیٹو) سے آزادی چاہتے ہیں، تو آپ اکیلا کھڑے ہو کر اس طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ آج کا عالمی نظام طاقت کے توازن (Balance of Power) پر چلتا ہے، اور ہر خطہ اس توازن کے بغیر باآسانی توڑ دیا جاتا ہے۔
ہمیں یہ بات سمجھنا ہو گی کہ اتحاد ہی سب سے بڑی طاقت ہے۔ یورپ کے ممالک صدیوں تک آپس میں جنگیں کرتے رہے، مگر آج وہ ایک “یورپی یونین” کے تحت متحد ہیں، جہاں ویزہ، کرنسی اور پالیسی تک مشترک ہو چکی ہے۔
حالاں کہ انکے درمیان بھی اختلافات ، دشمنی اور طاقت کی کشمكش ابھی بھی موجود ہیں ۔
امریکہ خود الگ الگ ریاستوں کا اتحاد ہے ۔ اگر وہ 50 ریاستیں جدا ہوتیں تو شاید ایک بھی عالمی طاقت نہ بنتی۔
تاریخ کا جائزہ لیں تو ہندوستان ماضی کی ایک بہت بڑی اور متحد سیاسی طاقت تھا مگر اسے سامراج نے فرقہ واریت ، انتہا پسندی ، ذات پات کی تفریق ، لسانی و علاقائی تفرقات اجاگر کر کے ٹکرے ٹکرے کر دیا ۔ اور اسکی طاقت اور خود مختاری کو ختم کر دیا گیا ۔جو آج تک بحال نہ ہو سکی ۔
پنجاب، جو پورے خطے کی طاقت کا مرکز تھا، اسے بھی دو حصوں میں بانٹ دیا گیا ، تاکہ وہ کبھی سر نہ اٹھا سکے۔
لہٰذا چاہے وہ ایران ہو، چین، روس، یا افغانستان ۔۔۔ ان ممالک سے مکمل اتفاق ضروری نہیں، مگر اگر وہ مغربی دباؤ کے خلاف ایک توازن پیدا کر سکتے ہیں، تو ہمیں اس کی حمایت کرنی چاہیے۔یہ اتحاد سامراجیت کی حمایت نہیں بلکہ اس کی روک تھام ہے۔یہ اتحاد کوئی نظریاتی آئیڈیلزم نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ سیاسی تدبیر ہے تاکہ تیسری دنیا کی ریاستیں اپنے داخلی نظام کو مستحکم کر سکیں اور مغربی مداخلت کا توڑ کر سکیں۔
مقامی اور عالمی جدوجہد کا توازن کیسے قائم ہو ؟
مقامی سطح پر پر
ہمیں اپنی ریاست کو خودمختار بنانا ہے، ایسی قیادت پیدا کرنی ہے جو عوام کی نمائندہ ہو، اور امریکی اثر سے آزاد ہو۔
اسکے علاوہ فرارے اور نگوگی تھیانگو جیسے اسکالر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حقیقی آزادی صرف سیاسی نظام کی تبدیلی سے نہیں آتی، بلکہ شعور کی تبدیلی سے جڑی ہوتی ہے۔ فینن اور سعید کے نزدیک ثقافتی باز يافت اور اسکی بنیاد پر مشترکہ شناخت اور کمیونٹی کا تصور نا گزیر ہے ۔
نگوگی کہتے ہیں کہ زبان، ادب اور کلچر کی بازیافت کے بغیر نوآبادیاتی غلامی کا خاتمہ ممکن نہیں، استماری زبان ، ثقافت ، جماليات اور نظریہ کی برتری سے نکل کر مقامی زبان ، ثقافت ، علوم ، نظام تعلیم کو رائج کرنا ضروری ہے ۔
جبکہ Freire کے نزدیک تنقیدی تعلیم اور شعور وہ عمل ہے جو فرد کو اپنی حالتِ غلامی کو پہچاننے اور اسے بدلنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ لہٰذا مقامی خودمختاری کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی زبان میں سوچیں، اپنی تاریخ کو سمجھیں، مقامی علوم کو زندہ کریں ، استماری نظام تعلیم کا خاتمہ کریں اور عوامی شعور کو بیدار کریں کیونکہ یہی اندرونی بیداری ہماری اندرونی آزادی اور خود مختاری کی ضامن ہے اور بیرونی آزادی کو بھی پائیدار بناتی ہے۔
اور عالمی سطح پر
پاکستان جیسے ملک کی آزادی اور خود مختاری کی بات کریں تو ایسے ممالک، جہاں “ریجیم چینج آپریشنز” سے حکومتیں گرائی جاتی ہیں، وہاں اکیلی ریاست کی مزاحمت ممکن نہیں ۔۔یہاں خطے کے ممالک کو مل کر ایک مشترکہ سیاسی، عسکری اور معاشی بلاک بنانا ہو گا۔ کیوں کہ خطے کی مزاحمتی قوتوں کا اتحاد وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے
اس میں شبہ نہیں کہ پوسٹ کولونیل ریاستیں جب تک داخلی طور پر خودمختار نہ ہوں، ان کی کوئی بھی خارجہ پالیسی، اینٹی-سامراجی نہیں بن سکتی۔ مگر خارجی اتحاد اور طاقت کے توازن بھی ضروری ہیں، ورنہ ہر الگ ریاست مغربی استعمار کا آسان شکار بن جاتی ہے۔
اس لئے ہمیں صرف نعرے نہیں، بلکہ سمجھداری اور سیاسی شعور کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ یہ وقت “ہر طاقت سامراج ہے” جیسے جذباتی فقرے بولنے کا نہیں، بلکہ نئے اتحادوں، نئے توازن، اور نئی مزاحمت کو سمجھنے اور تشکیل دینے کا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply