ہائبرڈ نظام/نجم ولی خان

یہ بحث بنیادی طور پر وزیر دفاع خواجہ آصف کے ایک ٹوئٹ سے شروع ہوئی جس میں انہوں نے پاکستان کو ملنے والی عزت اورفتوحات کو ہائبرڈ نظام کی کامیابی سے جوڑا جیسے فیلڈ مارشل عاصم منیر کے لئے امریکی صدر کا ظہرانہ۔ کامیابیاں تو بہت ساری ہیں جیسے پاکستان کی جی ڈی پی کا بڑھ جانا، سٹاک مارکیٹ میں تاریخی بلندی، شرح سود کا آدھا رہ جانا اور سب سے بڑھ کے بھارت جیسے دشمن کو شکست دینا۔

برادرم منصور علی خان کے پروگرام میں دیگر شرکاء کے ساتھ یہی ایشو زیر بحث آ گیا۔ میں یہاں اس نظام کی کامیابی زیادہ ڈسکس نہیں کروں گا کیونکہ اس پر میرے بہت سارے کالم، بہت سارے دلائل کے ساتھ موجود ہیں۔ میں ایک مختلف سوال کروں گا کہ اگر آپ حکومت، فوج اور عدلیہ میں اچھی ورکنگ ریلیشن شپ کو ہائبرڈ کہتے ہوئے اسے ایک بُرا، گھٹیا اور غیر آئینی نظام سمجھتے ہیں تو پھر اچھا اور آئینی نظام کون ساہے؟

جیسے ہمیں ہم دن کی روشنی کی اہمیت اس وقت تک نہیں سمجھ سکتے جب تک ہم اندھیرے کو ڈسکس نہ کریں، اس کا سامنا نہ کریں تو اس ہائبرڈ نظام کی خوبیاں کس طرح جان سکتے ہیں؟ میں یہاں تنقید کرنے والے عمران خان یا ان کے ساتھیوں کی ہرگز بات نہیں کروں گا کیونکہ وہ اسی نظام کی خوبیوں کی ساڑھے تین برس تک جگالی کرتے رہے۔ ان سے مکالمہ نہیں ہوسکتا جو فکری طور پر منافق اور لوٹے ہوں۔

ہم وقتی طور پر اتفاق کرلیتے ہیں کہ بائبرڈ نظام جس میں صرف حکومت نہیں بلکہ دوسرے ادارے بھی نظام مملکت چلانے اور کامیاب بنانے کے لئے اپنا کردارادا کرتے ہیں غیر آئینی ہے تو میرا سوال اپنے بہت ہی شاندار صحافی بھائی سے بھی یہی تھا کہ پھر اچھا اور آئینی کیا ہے، وہ جو ستر برس تک بار بار دیکھتے رہے۔ کیا آئینی یہ ہے کہ وزیراعظم، قاضی القضاۃ اورسپہ سالار ایک دوسرے سے اچھی ورکنگ ریلیشن شپ رکھنے کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف تلواریں نکالے ہوں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں پورا نظام تلپٹ کر رہے ہوں۔

کیا آپ نے دنیا میں کہیں اور ایسا آئینی نظام دیکھا ہے جس میں شجاع پاشا، ظہیرا لاسلام اور فیض حمید جیسے کردارڈی چوک کے دھرنے کرا رہے ہوں۔ کیا آپ نے دنیا میں کہیں بھی جسٹس منیر، ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ جیسے وزیراعظم خور جج دیکھے ہیں۔ کیا آپ نے کہیں اور دیکھا ہے کہ وزیراعظم خود ہی آرمی چیف بننا چاہتا ہو اور خود ہی چیف جسٹس۔ سو میں نے بہت سوچا کہ فیصلہ دے دوں کہ ہائبرڈ نظام ہی حقیقت میں اصل میں احتساب و توازن والی جمہوریت ہے، یہی عین آئینی ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ ہائبرڈ نظام میں بھی ہر کسی کو اس کے جثے اور مقام کے مطابق ہی کردارادا کرنا ہے۔

خواجہ آصف دلچسپ آدمی ہیں، ایک پکے سیالکوٹی اور سچے پاکستانی۔ وہ بہت ساری ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو کوئی دوسرا نہیں کہہ پاتا یا کم از کم اس انداز اور پیرائے میں نہیں کہہ پاتا۔ میں ان کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقاریر کے سوشل میڈیا پر ٹوٹے بہت شوق سے سنتا اور انجوائے کرتا ہوں۔ اس وقت بھی ان کے بہت سارے ٹوئٹس ایسے ہیں جن کو پڑھ کے لگتا ہے کہ پاکستان کا وزیر دفاع نہیں بلکہ ایک ماجھا گاما یا اپوزیشن کا کوئی لیڈر بات کر رہا ہے جیسے ان کی ہاکی کے بارے میں ٹوئٹ حالانکہ میرا خیال ہے کہ ان جیسے طاقتوروزیر ایسے نظاموں کی درستی بارے ایک آدھ گھنٹہ ہی صرف کر دیں تو بہت کچھ اچھا بلکہ شاندار ہوجائے، چلیں، اس سے تسلی ہوجاتی ہے کچھ لوگوں کو ہمارے مسائل کا علم تو ہے ورنہ کئی تو ممی ڈیڈی ہیں۔

اس طرح کا اعتراف کسی دوسرے سے ممکن ہی نہیں تھا۔ اس اعتراف سے کئی دلچسپ سوال پیدا ہوتے ہیں اور کچھ پروگرام میں پوچھے بھی گئے کہ کیا خالص جمہوریت ہونی ہی نہیں چاہئے تو میرا جواب ہے کہ خالص جمہوریت ہے کہاں، مجھے تو اپنے ارد گرد کہیں نظر نہیں آتی اور دوسرے ہم یہ کیوں خیال کر لیتے ہیں کہ جمہوریت کا مغربی تصور ہی حکمرانی اور گورننس کا حتمی ماڈل ہے۔ کیا ہمارے ہمسائیوں میں چاہے آپ چین کو لے لیں یا انڈیا کو، افغانستان کو لے لیں یا ایران کو، کہیں بھی مغربی ماڈل بعینہ موجود ہے تو ہم پرکیوں لادتے ہو۔ جب وہ سب اپنے اپنے ماڈلز کو اپنے اپنے حالات اور ضروریات کے مطابق ڈھال سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔

مجھے یہ پوچھنے میں بھی عار نہیں کہ جمہوریت کی سب سے بڑی سٹیک ہولڈرز ہماری سیاسی جماعتیں ہیں تو کیا ان کے اندر وہ جمہوریت موجود ہیُ آپ اسے مولوی مانتے ہیں جو دوسروں سے کہے کہ جاؤ نماز پڑھو اور خود نہ پڑھے؟ آپ مانیں یا نہ مانیں، دنیا میں پاکستان کی اہمیت اس کی جیوسٹریٹجک لوکیشن کی وجہ سے ہے ورنہ ہم کون سی ثقافت، سیاحت یا تجارت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ ہم اس لئے اہم ہیں کہ ہمارے ایک طرف چین ہے اور دوسری طرف افغانستان، ہم ایران اور انڈیا کے بھی ہمسائے ہیں اور یہ جیوگرافک لوکیشن ہماری فوجی اہمیت بڑھاتی ہے۔ یوں بھی میں بارہا کہہ چکا کہ مجھے کسی سیاسی جماعت کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی سے کہیں زیادہ فعال اور جمہوری کور کمانڈرز کے اجلاس لگتے ہیں۔

جمہوری نظام کے مثالی ہونے کی بات تو افلاطون بھی نہیں کرتا وہ اس سے بھی بہتر ایک نظام کو تجویز کرتا ہے۔ عوام کی اکثریت ہمیشہ درست ہو یہ تاریخ سے بھی ثابت نہیں ہے کہ جب سقراط اور حسین علیہ سلام جیسے قتل ہو رہے تھے، جب حضرت عیسیٰ علیہ سلام کو آگ میں پھینکا اور محمد رسول اللہ ﷺ کو ہجرت پر مجبور کیا جا رہا تھا تو کیا اکثریت درست تھی، ہرگز نہیں تھی۔

آج ہندوستان میں ہندوتوا کی بنیاد پر مسلمانوں سمیت ہر اقلیت کی زندگی اجیرن کی جا رہی ہے تو کیا وہ درست ہے، ہرگز نہیں ہے۔ جمہوریت بنیادی طورپر احتساب و توازن اور ایک احساس ذمے داری کا نام ہے۔ میں جمہوریت کی اس تعریف کو ماننے کے لئے تیار نہیں کہ اگر اکاون فیصد ایک مرد کو عورت کہہ دیں تو وہ عورت ہے۔ اکاون کیا ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصدبھی خلاف حقیقت اور خلاف فطرت فیصلہ دیں تو وہ غلط ہیں۔ مجھے کہنے میں عار نہیں کہ اگر جیو اور جینے دو کے اصولوں کے تحت ایک دوسرے کی صلاحیتوں اور کردار کو مانتے ہوئے امور مملکت چلانے کو ہائبرڈ نظام کہا جاتا ہے تو یہی آئینی، منطقی اور جمہوری ہے۔ اگر ہم مختلف اداروں کے سربراہوں کی مشاورت تک کو رد کردیتے ہیں تو پھریہ جمہوریت نہیں، آمریت ہے اور ہم نے وردی ہی نہیں شہری لباسوں میں بھی آمریتیں دیکھی ہیں۔

مجھے یہاں شہباز شریف کو بھی خراج تحسین پیش کرنا ہے کہ انہوں نے جس توازن سے ریاست کا کاروبار چلایا ہے اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کو بھی کہ انہوں نے نو مئی جیسی وارداتوں کے باوجود آئین اور جمہوریت کو چلنے دیا، وہ شاندار ہے۔ آپ کو جیسا بھی لگے مجھے لگتا ہے کہ ہم، الحمد للہ، بہترین لوگوں کے ساتھ بہترین نظام کا حصہ ہیں۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply