غالب۔ مشہور تو ریختہ میں طبع آزمائی سے ہوئے مگر زندگی بھر خود کو فارسی کا شاعر سمجھتے رہے ۔ بات شاید غلط بھی نہیں تھی کہ غالب کی فارسی شاعری کی پذیرائی کا وقت آنے تک برصغیر کے اعلیٰ دماغ اردو اور انگریزی کے گرویدہ ہو چکے تھے سو ان کے اس magnum opus کی شناخت کہیں گم ہو گئی ۔
بہت دنوں سے مرزا غالب کی یہ فارسی غزل بار بار ذہن میں گھوم رہی تھی ۔ اس امید پر کہ اس کا خیال کسی نظم یا غزل کی صورت اترے۔ مگر اتنے کم الفاظ میں اتنی وسیع اور گہری بات استاد ہی کا اعجاز تھا۔ غزل میں تو کوئی بارہ تیرہ اشعار ہیں لیکن ہمارے دل کو اور دماغ کو یہ پانچ سجھائی دئیے۔
مطلع دکھنے میں تھوڑا شوخ(cheeky) ہے اور ہماری رجعت پسند سماجی اور مذہبی روایت سے بظاہر متصادم بھی ۔ مگر معنویت میں ایک جہان لئے ہوئے ہے۔ یوسفی صاحب پہلے ہی لکھ گئے ہیں کہ “شعر میں جس بات پر ہزاروں آدمی اچھل اچھل کر داد دیتے ہیں ، وہی بات اگر،نثر میں کہہ دی جائے تو پولیس تو بعد کی بات ہے ،گھر والے ہی سر پھاڑ ڈالیں گے ۔”
اس غزل کا منظوم اردو ترجمہ کسی استاد نے کر رکھا ہے مگر بات پوری طرح پہنچتی نہیں۔ اب اسے ترجمہ /تشریح یا ہمارا غلط اندازہ کچھ بھی سمجھ لیجئے لیکن غالب کی رسائی اور وسعت خیال دیکھئے ۔
خوش بوَد فارغ ز بندِ کفر و ایمان زیستن
حیف کافر مردن و آوخ مسلمان زیستن
کہ ہم خوشی سے جئیے ہوتے اگر کفر اور ایمان کی حدودوقیود ، حساب و کتاب ، جنت اور جہنم ، عذاب و ثواب سے مبرا زندگی ہوتی۔
کہ موجودہ paradigm میں افسوس کافر کی آخرت پر اور
آہ مسلمان کی دنیاوی زندگی پر
شیوهٔ رندانِ بے پروا خرام از من مپرس
این قدر دانم که دشوار است آساں زیستن
رندوں کے / non conformist لوگوں کے/ ان لوگوں جو زندگی کو اپنی اصلیت میں جانچ چکے ۔۔۔۔ کی چال میں بے پروائی ، بے نیازی اور lack of effort کا سبب نہ پوچھو کہ ان کو یہ ادراک ہوچکا کہ آسان /سہل جینا ( سماجی رکاوٹوں اور لوگوں کی ذہنی اختراعات/ یا دنیا کی اپنی پیچیدہ arrangement کی وجہ سے) اور زندگی میں آسانی کے رستے تلاش کرنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے ( بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا )
تا چه راز اندر تهِ این پرده پنهان کردهاند
مرگ مکتوبی بوَد کو راست عنوان زیستن
ان پردوں / تہوں میں کیسا اک راز چھپا کر رکھ دیا گیا ہے ۔۔
یہ دنیا ایسے ہے جیسے موت خط کا متن/ مضمون ہے اور خط کا سرنامہ/ عنوان زندگی رکھا گیا ہے ۔ کیا ہی خوبصورت تشریح ہے زندگی کے Absurd ہونے کی ۔ اس تضاد کو کیسے لکھ گئے استاد۔ واہ
روزِ وصلِ یار جان ده ورنه عمری بعد ازین
همچو ما از زیستن خواهی پشیمان زیستن
روز _ وصل _ یار کے بعد / اپنے passion کے مقصود کو حاصل کرنے کے بعد مر جانا کہ اس کے بعد جتنا جیو گے پشیمان ہوگے ۔ ویسے تو اس شعر سے شادی سے جڑے بہت سارے لطیفے یاد آسکتے ہیں مگر باریک نقطہ خوشی کو اپنی آخری حد تک پا کر ، خواہش کے زوال سے پہلے اس crescendo تک پہنچنا ہے ۔ پروانے کے ” بجز اک شعلہ پر پیچ وتاب” والے مرحلے پر فنا ہونا شاید خوشی کی دائمی معراج ہو سکتی ہے۔ عملی زندگی میں سمجھیں کہ کسی کیرئیر کو اپنے نقطہ عروج پر چھوڑنا یا اس وقت کچھ بھی چھوڑنا جب لوگ پوچھیں کہ کیوں جارہے ہو نہ کہ اس وقت کہ دل میں خیال کریں کہ کیوں نہیں جارہا ۔ ( ویسے نچلے درجے کے ، کم خلیے والے کچھ species میں نر براوری کے وقت مر جاتا ہے ) ۔
بر نویدِ مقدمت صد بار جان باید فشاند
بر امیدِ وعدهات زنهار نتوان زیستن
اس شعر میں اصل مزا تو اس کی زبان کے حوالے سے ہے ۔ شاید مطلب میں احاطہ نہ ہو پائے ۔ کہ اس کے پاس ملاقات کی خوشخبری پر سو جان نثار کرو ۔ لیکن اس کے وعدے کی تکمیل کے انتظار میں بالکل مت جیو ۔ ایک اس سے ملاقات کی نوید پر خوشی جس پر سو جان قربان کہ سب کچھ دماغ میں ہے ، جو خوشی اس سے مل گئی وہ ایک external stimulus سے برآمدہ مکمل خوشی ہے ۔ ایک وعدہ ء وصل و قرار ہے جو اس نے کیا اس پر جئے تو وعدہ نہ پورا ہونے پر روز مر مر کے جیو گے ۔ تیرے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا وغیرہ ۔
بشکریہ فیس بک وال
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں