زمانہ طالب علمی میں شاید مرزا امجد بیگ نامی اک فرضی ایس ایچ او کے دوران ڈیوٹی حل کیے جانے والے کیسز کا احوال پڑھا کرتا تھا۔ایماندار پولیس افسر اک طرف دوسری سیاستدانوں کے ڈیرے وکلا صحافیوں کا دباؤ ایسے میں عہدے کے پاور کا استعمال کر کے ہیرو کیسے کیس منطقی انجام تک لے جاتا پڑھنے میں بڑا مزہ کرتا۔پھر جرنلزم میں آیا تو آنکھوں سے پٹی اتری اور ایسی ایسی کالی بھیڑوں کو دیکھا کہ پولیس بطور ہیرو ذہن سے مٹنا شروع ہو گئی پھر چند افسران سے ملا دوست بنا اور جانا کہ پولیس کی نوکری جیسے تلوار کی نوک پہ چلنا۔ذرا سی اونچ نیچ ہوئی نہیں کہ آپ کی ساری محنت ساری ریاضت اکارت چلی جاتی ہے۔شفیق لنگاہ ایس ایچ او یاد ہے جس کا سارا کیرئر شاندار ہے لیکن بزرگ پہ تشدد کی ویڈیو نے حوالات پہنچا دیا سارا ماضی کونے میں بیٹھا بھیگی آنکھوں سے سب دیکھتا رہا ہم جیسوں نے بتانے کی کوشش کی کہ بزرگ کانسٹیبل کو لات مارتے ہوئے حساس کانوائے میں مشکوک طریقے سے گھسا لیکن جب تک ویڈیو ثبوت سامنے صتا تب تک بزرگ افسران بالا سے انعام و اکرام بھی لے چکا تھا۔
کامران قمر اک اور نام جو مزاجاً ادیب ہے حقیقتاً شاعر ہے پیشے سے سب انسپکٹر ہے۔اس کے ساتھ والے ایس ایچ او لگے ہوئے ہیں لیکن یہ صبح سے شام تک دفتر فائیلوں میں سر کھپاتا ہے یا سردی گرمی میں بائیک پہ فیلڈ ورک کرتا پھرتا ہے۔اور اس پہ خوش اور مطمین بھی ہے۔چاہتا تو تھانے کا ہاؤس آفیسر ہوتا تھانےبکی گاڑیاں اس کے انڈر ہوتیں لیکن ایمانداری کا کیا کریں جو دفتری اوقات کے بعد اس سے بھیڑیں چرواتی ہے۔شعر کہتا ہے بھیڑیں چراتا ہے شام کو بچوں کو پڑھاتا ہے اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔
عبدالکریم کھوسہ اپنی ایمانداری کی وجہ سے عوام الناس میں معروف ہونے والے انسپکٹر عبدالکریم کھوسہ نے چند دن قبل ہی ایس ایچ او شپ سرینڈر کی ہے وہ ایس ایچ او شپ سنا ہے جس کے لیے سفارشیں کرائی جاتی ہیں یہ بھی الزام ہے کہ ایس ایچ او شپ کی بولیاں لگتی ہیں۔انسپکٹر عبدالکریم کھوسہ نے وہ ایس ایچ او شپ اپنے باس ڈی پی او مظفرگڑھ ڈاکٹر رضوان احمد سے درخواست کر کے چھوڑی اور اپنی خدمات دیگر معاملات کے لیے پیش کر دیں۔
ملک شکیل لیہ سے تعلق رکھنے والا اک اور نوجوان ایس ایچ او جو بطور ایس ایچ او پنجاب پولیس میں سرو کر چکا ہے۔ضلع مظفرگڑھ میں ایس ایچ او رہا ہے ضلع لیہ میں ایس ایچ او رہا ہے۔لیکن آج کل وہ کورس کی تکمیل کے لیے سیشن میں شامل ہے کوئی اور ہوتا تو ایس ایچ او شپ کے پیچھے پڑا رہتا کہ جب بغیر کورس ایس ایچ او شپ کر سکتا ہوں تو کورس کی تکمیل کے لیے کئی ہفتے کیوں لگاؤں۔
عرفان فیض اک اور سب انسپکٹر جس کا کیرئیر دعاؤں اور نیک نامی سے بھرا ہوا ہے۔عام آدمی عرفان فیض کے پاس کام کے لیے جائے تو یہ اتنی ہی محبت و شفقت سے پیش آتا ہے جیسا رویہ عمومی طور پہ پولیس والے کسی بہت بڑے آدمی سے روا رکھتے ہیں۔ایس ایچ او شپ سے دور پہلے ٹریفک میں خدمات سر انجام دیتا رہا پھر ڈی پی او آفس میں بطور ریڈر کام کیا اور اپنی محنت اور ایمانداری کی بدولت ڈی پی او مظفرگڑھ نے ان کو ایس ایچ او چوک سرور شہید تعینات کیا ہے۔
میں امید کر سکتا ہوں کہ ماضی کی طرح اب بھی یہ تھانے میں اپنی تعیناتی کو خدمت خلق کے لیے وقف کریں گے۔
اوپر جن تھانیداروں کا تذکرہ کیا ہے سوائے شفیق لنگاہ کے باقی سب میرے دوست ہیں میری ان سے ملاقاتیں ہیں میری ان سے گپ شپ ہے میں خود ان کی ان خوبیوں کا عینی شاہد ہوں۔یہ میرے دوست ہیں اس لیے انہیں اچھا نہیں کہہ رہا بلکہ یہ اچھے ہیں اسی لیے میرے دوست ہیں۔
اگر ان میں انسانیت نہ ہوتی ان میں پڑھے لکھوں والا غیر روایتی رویہ نہ ہوتا اگر یہ بااخلاق اور عزت دینے والے نہ ہوتے تو یہ میرے دوست بھی نہ ہوتے۔میں نے ان دوستوں میں غیر معمولی اور غیر روایتی انسانیت کی وجہ ڈھونڈنی چاہی تو ان میں دو قدریں مشترک نظر آئیں جس کی وجہ سے یہ ایسے ہیں پہلی قدر ہے مطالعہ اور ایکسپوژر یہ نوجوانان اہل علم ہیں علم و ادب سے وابستگی ہے کامران احمد قمر کی طرح خود شاعر نہیں بھی ہیں تو باذوق ضرور ہیں۔غیر نصابی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتے ہیں ڈاکومینٹریز کالم فلم موسیقی شاعری جیسی ادبی سرگرمیاں آپ میں حساس انسان کو زندہ رکھتی ہیں دوسری اور سب سے اہم قدر ان میں جو مشترک ہے وہ ہے ان اپنی اولاد سے پیار کرنا۔
آپ حیران ہو رہے ہوں گے اس میں کیا انہونی بات ہے ہر باپ اپنی اولاد سے پیار کرتا ہے بے شک کرتا ہے لیکن ہر باپ اپنی اولاد کے لیے ایسا نہیں سوچتا جیسا یہ سوچتے ہیں۔پولیس کی نوکری میں سب سے بڑا مسئلہ ہے اوقات کار۔پولیس والے عموماً اپنے آبائی علاقے میں تعینات نہیں ہو سکتے اس لیے اکثر گھر سے دور ڈیوٹی کرتے ہیں
پھر ڈیوٹی کی پراپر ٹائمنگ نہیں ہے کہ نو سے پانچ کی نوکری کی اور پھر گھر فیملی کے ساتھ وقت گزارا یہاں آپ چوبیس گھنٹے آن ڈیوٹی ہوتے ہیں
اسی وجہ سے پولیس والے بچوں کی پرورش میں وہ حصہ نہیں ڈال پاتے جو عام والد ڈالتے ہیں۔یہ بچوں کا پہلا قدم نہیں دیکھ پاتے یہ بچے کا پہلا لفظ نہیں سن پاتے یہ بچے کی انگلی پکڑ چلانا نہیں سکھا پاتے یہ سائیکل چلانا نہیں سکھا پاتے یہ سکول کی پیرنٹ ٹیچر میٹنگ میں نہیں جا پاتے۔
اکثر جب یہ گھر لوٹتے ہیں تو بچے سو رہے ہوتے ہیں جب یہ صبح جاگتے ہیں یا تو بچے سو رہے ہوتے ہیں یہ منہ اندھیرے نکل آتے ہیں یا پھر بچے سکول جا چکے ہوتے ہیں۔
یہ عام دنوں کی بات ہے ہو سکتا ہے پردیسیوں مزدوروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہو مگر تہوار اور سرکاری چھٹیاں ایسے مواقع ہوتے ہیں جب ہر کوئی فیملی کے پاس ہوتا ہے مگر پولیس والے یہاں بھی بدقسمت واقع ہوتے ہیں
چھوٹی ہو یا بڑی عید رمضان ہو یا شب برات،محرم ہو یا ربیع الاول یہ ڈیوٹی بجا لانے پہ مامور ہوتے ہیں۔
ایسے میں اگر کوئی عرفان فیض ملک شکیل عبدالکریم کھوسہ یا کامران قمر جیسا باپ بنتا ہے تو اس کے پیچھے ان کی شعوری کوشش ہوتی ہے۔
اگر پیسہ کمانا مقصود ہو اگر عہدے اور پاور کی لالچ ہو تو پھر آپ دن رات تھانوں میں پڑے رہتے ہیں اور دن دوگنی رات چوگنی پھرتیاں دکھاتے ہیں اگر آپ بچوں کو مقدم رکھتے ہیں تو عہدہ پاور پیسہ نہیں بلکہ رزق حلال کمانا ہوتا ہے پولیس میں بے ضرر اور بے وقعت سمجھے جانے والے ڈیزگنیشن پہ کام کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور وقت بچاتے ہیں تا کہ اپنے بیٹے اپنی بیٹی کے ساتھ وقت گزاریں ان کی تربیت کریں
اگر پرسنل سپیس آڑے نہ آ رہی ہوتی تو میں بتاتا کہ کامران احمد قمر نے ہادی عون اور بخت زہرہ کے لیے عبدالکریم کھوسہ نے محمد ابودردا کے لیے ملک شکیل نے ہمدوش اور آیت کے لیے اور عرفان فیض نے اپنے بخت کے لیے کیا کیا قربانیاں دیں۔
میرے نزدیک یہ محبت یہ قربانی یہ ایثار ہی ان کو اتنا حساس بناتا ہے کہ سارا دن نیگیٹوٹی میں رہنے کے باوجود ان کا دل نرم ہے ان میں انسانیت زندہ ہے
میں چاہتا ہوں کہ آئی جی پنجاب نے جس طرح اپنے دور میں انقلابی اصلاحات کی ہیں ایسے افسران کی کہانیوں کو بتایا جائے ٹریننگ سیشن رکھے جائیں نفسیاتی صحت کے حوالے سے خصوصی کام کیے جائیں اور پولیس والوں کو فیملی اورینٹڈ ہونے کے تمام تر مواقع فراہم کیے جائیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں