آج صبح جیسے ہی خبریں موصول ہوئیں کہ ایران نے خلیجی ممالک میں موجود امریکی ایئر بیسز کو نشانہ بنایا ہے، دنیا ایک بار پھر اضطراب میں مبتلا ہو گئی۔ سوشل میڈیا پر ٹرینڈز، عالمی میڈیا کی ہیڈلائنز، اور دفاعی تجزیہ کاروں کے بیانات اس حقیقت کو اجاگر کر رہے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر ایک بڑے تصادم کے دہانے پر کھڑا ہے۔
یہ حملے نہ صرف ایران کی دفاعی پالیسی کا اظہار ہیں بلکہ ایک بڑی Geo-political shift کی علامت بھی ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک ان حملوں کو براہِ راست چیلنج سمجھ رہے ہیں، جبکہ چین اور روس جیسی عالمی طاقتیں خاموش تماشائی بننے کے بجائے سفارتی اور اسٹریٹیجک ردِعمل دے سکتی ہیں۔ اس ساری صورت حال میں ایک بنیادی سوال ابھر کر سامنے آ رہا ہے کیا ہم ایک نئے عالمی جنگ کے قریب پہنچ چکے ہیں؟
اگر تاریخ ہمیں کچھ سکھاتی ہے تو وہ یہ ہے کہ جنگیں ہمیشہ اچانک نہیں بلکہ آہستہ آہستہ سیاسی، معاشی اور عسکری تنازعات کے نتیجے میں پھوٹتی ہیں۔ اول ہو یا دوم، دونوں کے پیچھے چھپی چھوٹی چھوٹی چنگاریاں آخرکار شعلہ بن گئیں۔ آج ایران کے حملے کو بھی محض ایک “Retaliation” کہنا سادہ لوحی ہو گی، کیونکہ اس کے پیچھے برسوں کا دبا ہوا غصہ، پابندیاں، علاقائی Proxy Wars، اور امریکہ کی موجودگی کے خلاف مزاحمت موجود ہے۔
معاملہ صرف ایران اور امریکہ کا نہیں رہا۔ اسرائیل، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، اور بحرین جیسے ممالک بھی براہ راست یا بالواسطہ طور پر اس کشمکش میں شامل ہیں۔ دوسری طرف روس اور چین کی نظریں اس موقع پر اپنے مفادات کے تحفظ اور مغرب کو چیلنج کرنے پر مرکوز ہیں۔ اگر صورتحال نے شدت اختیار کی، تو نیٹو کی مداخلت ممکن ہے، اور یہی وہ لمحہ ہو گا جب دنیا واقعی تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہو گی۔
ایسی جنگ نہ صرف لاکھوں جانوں کو نگل سکتی ہے، بلکہ عالمی معیشت کو بدترین بحران کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ تیل کی قیمتوں کا آسمان سے باتیں کرنا، ترسیلات کے سلسلہ کا ٹوٹنا، سٹاک مارکیٹ کا کریش ہونا، اور Mass Migration جیسی صورتِ حال دنیا کو غیر مستحکم کر دے گی۔
یہ وقت ہے کہ عالمی رہنما ہوش سے کام لیں، میانہ روی ،اور توازن کو فوقیت دیں، اور وہی سبق یاد کریں جو اقوامِ عالم نے دو سابقہ عالمی جنگوں کے بعد سیکھا تھا کہ امن ایک نازک توازن ہے، جسے برقرار رکھنا ہی اصل دانشمندی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں